اے عید تجھے کیسے مناؤں

608

حریم شفیق
’’اماں! عید آنے والی ہے، مجھے نیا جوڑا اور چوڑیاں دلائو گی ناں… اور ہاں جوتے بھی… بولو ناں اماں۔‘‘ عذرا نے لجاجت سے کپڑے سیتی ہوئی ماں سے کہا۔
ثریا جو عذرا کی ماں تھی، کپڑے سی کر کچھ پیسے کما لیتی تھی، اور اس طرح اپنے شوہر نذیر کا کچھ ساتھ دے دیتی، جو پلاسٹک کے جوتوں کی ریڑھی لگاتا تھا۔ دونوں میاں بیوی اپنی اکلوتی بیٹی عذرا کے ساتھ اپنے چھوٹے سے ایک کمرے کے مکان میں صبر شکر کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ کچھ عرصے سے نذیر کو کھانسی کے دورے پڑنے لگے تھے۔ ڈاکٹروں نے بہت علاج کیا مگر اسے افاقہ نہ ہوا۔ غریب کی آدھی سے زیادہ کمائی علاج پر خرچ ہونے لگی۔ عذرا کے اسکول کا خرچ ثریا کپڑے سی کر نکال لیتی۔ بچی سرکاری اسکول میں پڑھ رہی تھی، لیکن کتابیں، کاپیاں، یونیفارم اتنے مہنگے تھے کہ مشکل سے خرچ پورا کر پاتی، اور پھر شوہر کی بیماری، مہنگائی سب نے ثریا کو پریشان کرکے رکھ دیا۔
اب عید آنے والی تھی۔ لوگوں کے رنگ برنگے، نت نئے ڈیزائن کے کپڑے سیتے ہوئے کبھی اس کے دل سے ہوک سی اٹھتی کہ کاش وہ اپنی لاڈلی بیٹی کے لیے بھی کوئی اچھا سا سوٹ بنا سکتی، اور اب جو عذرا ضد کررہی تھی تو وہ بس اسے ایک نظر دیکھ کر رہ گئی۔ اس کے پاس تو مہینہ گزارنے کے پیسے نہ تھے، عذرا کی خواہشات کیسے پوری کرتی!
’’اماں بولو ناں… چپ کیوں ہو…؟‘‘ عذرا نے پوچھا۔
’’اچھا بابا دیکھتی ہوں، کچھ کرتی ہوں…‘‘ اور سوچنے لگی کہ دو سوٹوں کے پیسے بچاکر اتوار بازار سے کوئی کپڑا لاکر عذرا کا جوڑا سی دوں گی۔
’’عذرا، کہاں ہو بیٹا، یہ دیکھو میں تمہارے لیے کپڑے لائی ہوں۔ اپنی بیٹی کا اچھا سا سوٹ سی دوں گی… شہزادی لگے گی میری بیٹی۔‘‘ ثریا نے خوشی خوشی عذرا کو سوٹ دکھایا۔
’’یہ کیسا سوٹ لے آئی ہو اماں! ہر سال ایک ہی طرح کا کپڑا، بس رنگ بدل دیتی ہو۔‘‘ عذرا نے منہ بنایا۔
ثریا کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرایا۔
’’میں اِس بار ایسا سوٹ نہیں پہنوں گی، مجھے تو وہ والا سوٹ چاہیے جو مارننگ شو میں اُس ٹی وی والی نے پہنا ہوا تھا۔ اللہ اماں اتنی خوب صورت لگ رہی تھی اور میچنگ کے جوتے بھی اتنے پیارے تھے… مجھے ویسا ہی سب کچھ چاہیے۔‘‘ عذرا نے دوٹوک لہجے میں کہا۔
’’تُو نے کہاں سے دیکھ لیا ٹی وی والی کو؟‘‘ ثریا نے حیرانی سے پوچھا۔
’’سلمیٰ کے گھر ٹی وی میں دیکھا تھا۔ سلمیٰ کہہ رہی تھی وہ بھی اپنی اماں سے کہے گی کہ اسے ویسے ہی کپڑے بنا کر دے۔‘‘ عذرا نے بتایا۔
’’یہ ٹی وی والے بھی ہماری غربت کا خوب مذاق اڑاتے ہیں، نہ جانے کون سی دنیا کے لوگ ہیں! اس ملک میں تو زیادہ تر غریب ہی بستے ہیں۔ ہم غریب سادے کپڑوں میں اپنی خوشیوں کا بھرم رکھے ہوئے تھے، مگر اب یہ ہماری اولادوں کو نہ جانے کون سی دنیا کی سیر کروا رہے ہیں جو ان کے بس میں ہے نہ ہمارے اختیار میں۔‘‘ ثریا نے دکھ سے سوچا اور آنکھوں کے گیلے ہوتے گوشوں کو دوپٹے کے پلّو سے صاف کرکے کپڑے سینے میں مصروف ہوگئی۔
یہ کہانی محض ایک ثریا کی نہیں بلکہ ہمارے ملک کی ایک بڑی آبادی کی ہے، جو نہ جانے کن مشکلات سے اپنی روزی روٹی ہی پوری کرتے ہیں، مگر برا ہو اس میڈیا کا جو غریب کا گھر بھی دکھاتے ہیں تو اس کی بیٹیاں فل میک اَپ اور اسٹائلش ملبوسات میں ہوتی ہیں۔ نہ جانے کون سے معاشرے کی عکاسی ہوتی ہے ٹی وی پروگراموں میں، جہاں دس سے بیس ہزار کے لباس زیب تن کیے رنگ برنگی تتلیاں ناچ رہی ہوتی ہیں، جنہیں دیکھ کر ثریا اور اس جیسی ہزاروں خواتین جو پہلے صبر شکر سے زندگی گزار رہی تھیں، حسرتوں کا شکار رہنے لگیں، جس کا انجام ذہنی امراض کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کاش ہم پڑوسی ملک کی نقالی کے بجائے اپنے مذہب کی سادگی کا پرچار کرتے جو امیر و غریب سب کو یکساں خوشیاں منانے کا حق فراہم کرتا ہے، جہاں ’’عید‘‘ صرف امرا کے حصے میں نہیں آتی بلکہ غریب بھی اس میں حصے دار ہوتا ہے۔

حصہ