قسط نمبر5
تینوں شہزادیوں کے شوہر اپنے اپنے شاہی سپاہیوں کے ساتھ کالے ہرن کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ دوپہر تک جنگل کا ایک ایک کونا چھان مارا لیکن جنگل میں کوئی کالا ہرن موجود ہوتا تو انھیں ملتا۔ سخت مایوسی اور شرمندگی کے عالم میں وہ جنگل کے اس آخری سرے میں آن پہنچے جہاں انھیں دور سے ایک بہت بڑا خیمہ لگا نظر آیا۔ قریب پہچے تو انھوں نے دیکھا کہ سیکڑوں کالے ہرن اس خیمے میں موجود ہیں اور ایک پر وقار شخصیت ایک بڑے سے لکڑی کے تخت پر بیٹھی ہوئی ہے۔ انھوں نے اندر داخل ہونا چاہا تو محافظوں کے دستے نے انھیں روک لیا۔ کہا کہ صرف تین آدمی اندر جاسکتے ہیں۔ چنانچہ شہزادیوں کے شوہر اندر داخل ہوئے اور پوچھا کہ آپ کون ہیں۔ شہزادے نے کہا کہ آپ سب اپنا مدعا بیان کریں۔ اس بات سے آپ کو کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ ہم کون ہیں۔ شہزادے نے پہلے ہی اپنا حلیہ بدلا ہوا تھا اس لئے وہ اسے نہ پہچان سکے۔ اس کے لب و لہجے سے اور بھی مرعوب ہوگئے اور سوچنے لگے کہ کوئی بہت بڑی شخصیت ہی ہوگی ورنہ سیکڑوں کالے ہرن کون اس طرح جمع کر سکتا ہے۔ ان سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ اس ملک کے بادشاہ کو ایسی بیماری لگ گئی ہے جو صرف کالے ہرن کا دل کھا کر ہی دور ہوسکتی ہے۔ آپ عنایت کریں تو ہم تینوں کو ایک ایک ہرن دے دیں۔ شہزادے نے کہا کہ ہماری دوشرائط ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ کو یہ ہرن زندہ نہیں دیئے جائیں کے، ذبح کرکے دیئے جائیں گے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ آپ کی پیٹھ پر ہماری گرم گرم مہر لگے گی تاکہ سند رہے کہ یہ کہاں سے لئے گئے ہیں۔ پہلی بات پر تو ان کو خاص اعتراض نہیں تھا لیکن دوسری بات پر نہ صرف وہ تیار نہیں ہوئے بلکہ شاہی غرور میں آگئے اور کہا کہ ہمارے پاس شاہی سپاہی موجود ہیں۔ ہم زبردستی بھی ایسا کر سکتے ہیں اس لئے کہ یہ بادشاہ کی زندگی کا سوال ہے۔ یہ سن کر شہزادے نے کہا، اگر یہ بات ہے تو پھر تم زبردستی کرکے دکھاؤ۔ باہر جاکر انھوں نے سپاہیوں کے سامنے ساری صورت حال رکھی۔ شاہی سپاہی تھے غصے میں آگئے لیکن جونہی انھوں نے اپنی تلواریں نکالنا چاہیں جنگل سے خونخوار جانوروں اور درندوں کی آوازیں اور ان کے دوڑلگانے کی آہٹیں آنا شروع ہوئیں تو وہ سب کے سب لرز کے رہ گئے۔ وہ سب سمجھ گئے کہ تخت پر بیٹھا ہوا جو شخص بھی ہے کوئی خاص قدرت اور طاقت کا مالک ہے اس لئے وہ اس کی شرائط ماننے کیلئے تیار ہوگئے۔ شہزادے نے کہا کہ اب ہرن تو ضرور مل جائیں گے لیکن پہلے مہریں صرف تم تینوں کے ہی لگتیں اب تمہارے سارے محافظوں کے بھی لگیں گی تو ہرن دیئے جائیں گے۔ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا علاوہ بات ماننے کے۔ مہریں لگا دینے کے بعد جیسے ذبح کئے ہوئے ہرن ان کے حوالے کئے گئے اور وہ سب جونہی نگاہوں سے اوجھل ہوئے، شہزادے نے پری زاد گھوڑے کا بال رگڑا۔ حاضر ہونے پر حکم دیا کہ یہ سب خیمے اور ہرن واپس اپنی اپنی جگہ پہنچادیئے جائیں سوائے چار ہرنوں کے۔ ان کو میری گدھا گاڑی میں رکھ دیا جائے۔ آن کی آن میں سارا میدان صاف ہو گیا۔ شہزادے نے اپنا وہی حلیہ بنالیا جو قلعی گر کے لونڈے کا ہوا کرتا تھا۔ گدھا گاڑی پر بیٹھا اور زندہ چار ہرنوں کو لے کر بادشاہ کے محل کی جانب چل پڑا۔ گزرگاہ اسی غار کے قریب تھی جہاں شہزادی چھپی تھی۔ غار کے دہانے کو چھپانے کیلئے بنائی گئی عارضی باڑ کی اوٹ سے شہزادی نے اپنے بہنوئیوں کو ذبح شدہ کالے ہرن لیجاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس کی نگاہیں قلعی گر کے لونڈے (شہزادے) کو بڑی شدت سے ڈھونڈ رہی تھیں اتنے میں اسے دور سے گدھا گاڑی آتے ہوئے نظر آئی۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ گاڑی میں چار کالے اور نہایت تندرست ہرن بندھے ہوئے تھے۔ شہزادہ جانتا تھا کہ شہزادی باڑ کی آڑ میں اسے لازماً دیکھ رہی ہوگی اس لئے وہ ہاتھ لہراتا ہوا گزر گیا۔ سورج غروب ہونے سے پہلے وہ محل تک امانت پہنچا کر واپس بھی آنا چاہتا تھا اس لئے اس نے رکنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ شہر کی جن جن گلیوں اور سڑکوں سے گزرتا سب ہی حیرت کرتے کہ جو شاہی سپاہیوں کے ساتھ گئے تھے وہ تو ایک ایک ہرن ہی ساتھ لاسکے اور وہ بھی ذبح شدہ جبکہ قلعی گر کا لونڈا جس کو بادشاہ نے مارنے کیلئے جنگل میں چھوڑدیا تھا وہ زندہ بھی ہے اور چار ہرن لے کر بادشاہ کے محل جارہا ہے اور کمال یہ ہے کہ چاروں کے چاروں ہرن زندہ ہیں۔ جب شہزادہ بادشاہ کے محل کے دروازے کے قریب پہنچا تو اسے نہ صرف روک لیا گیا بلکہ پہرے دار بادشاہ کے حکم کے مطابق اسے مارنے کا ارادہ ہی کررہے تھے کہ محافظوں کی نظر چار زندہ کالے ہرنوں پر پڑ گئی۔ سب نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے اپنے ہاتھ روک لئے۔ جاکر بادشاہ کو ساری صورت حال بتائی اور کہا کہ قلعی گر کا لونڈا چار زندہ کالے ہرن بھی ساتھ لایا ہے۔ باد شاہ آپے سے باہر ہوگیا اور کہا کہ اس سے ہرن لے لو لیکن یہ بھی کہہ دو کہ وہ جتنی جلد ہوسکے جنگل میں لوٹ جائے ورنہ اس کی گردن مار دی جائے گی۔ شہزادہ پیغام سن کر چپ چاپ واپس جنگل کی جانب لوٹ گیا۔ شہزادی جو صبح سے اس کے انتظار میں تھی وہ جھٹ اس کیلئے کھانا اور پانی لیکر آئی۔ پوچھا کہ میرے اباجان (بادشاہ محترم) خوش ہوئے کہ نہیں۔ شہزادے نے ایک لمبی سانس کھینچ کر ساری صورت حال سامنے رکھ دی اور کہا کہ شکر کرو کہ میں زندہ سلامت واپس آگیا۔ شہزادی کو یہ سن کر بہت افسوس ہوا۔
زندگی حسب معمول گزرتی رہی۔ شہزادی کو محل سے نکال دیئے جانے کا غم ضرور تھا لیکن وہ حیران تھی کہ جس سکون کے ساتھ وہ یہاں جنگل میں زندگی گزار رہی تھی اور جس سکون کے ساتھ اسے بھرپور نیند آرہی تھی وہ آرام، سکون اور اطمنان محل میں کبھی میسر کیوں نہ آیا۔ اسے اب یہ بھی یقین آنے لگا تھا کہ جس کو وہ کوئی شہزادہ سمجھتی تھی وہ واقعی قلعی گر کا لونڈا ہی ہے لیکن اس میں ضرور کوئی ایسی بات ہے جس کی وجہ سے اس کی زندگی بہت ہی حسین ہوگئی ہے۔ اب تو وہ یہ بھی سوچتی تھی کہ اگر کبھی وہ دوبارہ محل میں بلالی گئی تو شاید وہ وہاں ایک دن بھی نہ رہ سکے۔ یہ حسین قدرتی ماحول، یہ چرند پرند یہاں تک کہ یہاں کے موزی اور درندے تک سب کے سب اسے اپنے دوست ہی لگنے لگے تھے۔ لیکن ایسا کیوں تھا؟۔ اس پر وہ بہت حیران تھی اور اسے لگتا تھا کہ ایسا سب کچھ بھی قلعی گر کے لونڈے (شہزادے) کی وجہ سے ہی ہے۔ اگر یہ انسانوں کا شہزادہ نہیں بھی ہے تب بھی یہ فطرت کا شہزادہ بلکہ باد شاہ ہے۔
ایک دن شہزادے نے شہر سے آکر خبر دی کہ تمہارے ملک پر دشمن ملک کا بادشاہ حملہ آور ہونے والا ہے۔ اس کے پاس سفاک قاتلوں کا ایک بہت بڑا لشکر ہے اور اس نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ تمہارے بادشاہ کی سلطنت پر ضرور قبضہ کر لیگا۔ بادشاہ تو پریشان ہے ہی سارے ملک کے عوام بھی بہت فکر مند ہیں اس لئے کہ وہ دشمن ملک کے بادشاہ کے ظلم و ستم سے باخبر ہیں۔ سب ہی اندر سے بہت ڈرے ہوئے ہیں کہ آخر ان کا کیا بنے گا۔
شہزادی یہ سن کر بہت اداس اور پریشان ہو گئی۔ کہنے لگی تم کچھ کرو۔ قلعی گر کے لونڈے (شہزادے) نے کہا میں آخر تنہا کیا کر سکتا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ اگر میں بادشاہ نے مجھے دیکھ لیا تو کہیں وہ مجھے قتل ہی نہ کرادے۔ ویسے بھی وہ بہت پریشان ہے لہٰذا جو میں خود کرسکوں گا وہ اپنی سی ضرور کرنگا۔ تم اللہ سے دعا کرو کہ اللہ بہتر کرے۔ وہی ہے جو اچھے برے کا مالک ہے۔
اگلی صبح شہزادہ نے شہزادی سے کہا کہ وہ محاذ پر جارہا ہے اور اس سے جو بن پڑے گا وہ کرے گا۔ وہ اس کی منتظر رہے اور اللہ کے حضور دعا گو رہے کہ اللہ اس ملک والوں کو اس کڑے وقت میں اپنی پناہ میں رکھے۔
شہزادہ گھنے جنگل میں داخل ہوا۔ پری زاد گھوڑے کا بال زمین پر رگڑا تو وہ حاضر ہو گیا۔ شہزادے نے کہا کہ اس کیلئے نہایت خوبصورت لیکن جنگی لباس مہیا کیا جائے، ایک ہوا میں پرواز کرنے والا برق رفتار گھوڑا حاضر کیا جائے اور ایک بال سے بھی باریک اور نہیت مضبوط اور تیز دھار تلوار کا انتظام کیا جائے۔ چشم زدن میں ساری چیزیں حاضر ہو گئیں۔ شہزادے نے جنگی لباس بمع جنگی ساز و سامان زیب تن کیا، تلوار ہاتھ میں پکڑی اور گھوڑے پر سوار ہوکر جونہی گھوڑے کو ایڑ لگائی گھوڑا ہواؤں میں اڑتا ہوا محاذ کی جانب روانہ ہوگیا۔
ادھر میدان کارزار سج چکا تھا۔ اور ظالم بادشاہ کی فوجیں حرکت میں آچکی تھیں۔ اس ملک کے بادشاہ کی فوجوں کے پاؤں اکھڑ چکے تھے۔ تینوں شہزادیوں کے شوہر اپنے اپنے دستوں کے ساتھ راہ فرار اختیار کرچکے تھے۔ بادشاہ اپنے چند وفاداروں کے ساتھ بھاگتی ہوئی فوج کو حوصلہ دینے کی کوشش کررہا تھا لیکن اسے ناکامی ہو رہی تھی۔ اسے اپنی شکست صاف نظر آرہی تھی کہ اتنے میں اسے ایک اور ہی منظر دکھائی دینے لگا۔ ایسا لگا جیسے آسمان میں بجلی کوند رہی ہو۔ ایک شہپر فضاؤں میں کوندتا لپکتا چلا آرہا تھا۔ وہ جہاں سے بھی گزرتا سروں کی فصلیں کاٹتا چلا جاتا۔ لاشے زمین پر گھر گھر کر تڑپ رہے تھے اور شہپر تھا کہ پلٹ پلٹ کر ان پر حملہ کر رہا تھا۔ ظالم بادشاہ کی فوجوں نے جب یہ منظردیکھا تو اس کی فوجوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ سب اپنی جان بچا کر واپس پلٹنے پر مجبور ہو گئے۔ اس ملک کی بھاگتی فوجیں پلٹ آئیں اور ظالم بادشاہ اور اس کی فوجیں ایسے بھاگیں کہ اپنے پیچھے صرف گردوغبار کا طوفان چھوڑ گئیں۔ بادشاہ نے آسمان کی جانب دیکھا تو بس اتنا ہی دیکھ سکا کہ ایک نہایت خوبصورت شہسوار برقی گھوڑے پر سوار تھا جس کے ہاتھ میں ایک بڑی ساری تلوار تھی جس کو وہ لہراتا ہوا نہایت برق رفتاری کے ساتھ دور افق کے اس پار جا کر نگاہوں سے اوجھل ہوتا چلاگیا۔
شہزادہ جنگل کے اسی ویرانے میں اترا جہاں اس نے یہ سب سامان جنگ طلب کیا تھا۔ بال رگڑنے پر پری زاد گھوڑا پھر حاضر ہوا۔ ساراسامان اس کے حوالے کیا اور اپنا پرانہ روپ دھار کر اپنی گدھا گاڑی پر بیٹھ کر اپنے غار کی جانب روانہ ہوگیا۔
ادھر شہزادی جو شدت سے شہزادے کی منتظر تھی گھنے درختوں کے پیچھے چھپی پل پل کی خبریں سن رہی تھی۔ عام انسانوں اور فوجیوں کے قافلے اسی راستے سے گزر رہے تھے۔ فتح کی خبریں مل رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ ایک عجیب و غریب مدد کا ذکر بھی کیا جارہا تھا۔ کوئی کہتا واہ کیا اڑن گھوڑا تھا اور کیا اس پر سوار شہزادہ تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایسی تلوار تھی جو دشمن فوج کے گلے پر گلے کاٹے جارہی تھی۔ وہ نہ ہوتا تو ہماری افواج کے حوصلے تو ٹوٹ ہی چکے تھے۔ نہ جانے وہ کون تھا اور کہاں سے آیا تھا۔ فتح کے بعد بس آنکھوں نے اتنا دیکھا کہ وہ افق کے اس پار کہیں کھوگیا۔
نہ جانے کیوں شہزادی کو یہ گمان گزرا کہ ہونہ ہو یہ میرا قلعی گر کا لونڈا ہی ہوگا۔ وہ دل ہی دل میں اسی کو اڑن گھوڑے پر سوار دیکھ رہی تھی کہ اتنے میں اس نے قلعی گر کے لونڈے (شہزادے) کو اپنی گدھا گاڑی سمیت آتے دیکھا۔ لیکن اسے ایسا ہی لگا کہ وہ اپنے اڑن گھوڑے پر آرہا ہو۔ قریب آکر شہزادے نے فتح کی نوید سنائی اور اللہ کا شکر ادا کرنے کو کہا۔ شہزادی نے بڑے چاؤ سے کہا کہ آخر تم بتاتے کیوں نہیں کہ تم کون ہو۔ قلعی گر کے لونڈے (شہزادے) کا وہی جواب تھا کہ وہی قلعی گر کا لونڈا جس کو تم دو اشرفیاں دیا کرتی تھیں۔ یہ سن کر اس کے سارے خواب ٹوٹ جایا کرتے تھے اور وہ سوچتی تھی کہ شاید وہ سچ ہی کہتا ہے۔
اب اس ملک کے بادشاہ کا بھی احوال سنیں جس ملک کا وہ شہزادہ تھا۔ بادشاہ شہزادے کے اس طرح غائب ہوجانے پر بہت ہی اداس تھا۔ اس کی صحت روز بروز خراب ہوتی جارہی تھی۔ وہ یہی سوچا کرتا تھا کہ اگر وہ مرگیا تو اس تخت کا والی وارث کون ہوگا۔ دوسری بیوی سے کوئی اولاد ہی نہیں ہوئی تھی۔ اسے یہ شک بھی ہونے لگاتھا کہ شاید اس کی دوسری بیوی نے ہی ایسا ماحول پیدا کیا ہو کہ میرا بیٹا مجھ سے دور ہوگیا۔ (جاری ہے)۔