زکوٰۃ اور ٹیکس

635

سید مہرالدین افضل

آخری حصہ

اس کے برعکس زکوٰۃ کا معاملہ مختلف ہے۔ سب سے پہلے یہ زکوٰۃ ادا کرنے والے اور اس کے رب کے درمیان معاملہ ہے۔ اس کے رب نے اُسے مال عطا کیا ہے اور اس نے اُسے زکوٰۃ ادا کرنے کا ذمہ دار بھی ٹھیرایا ہے تاکہ وہ اس کے حکم کی پیروی کرسکے اور اس کی خوش نودی حاصل کرسکے۔ اُسی نے اس کی مقدار کا تعین کیا اور اُس نے اس کے خرچ کی مدات کا تعین بھی کیا ہے۔ اگر کوئی ایسی حکومت، یعنی اسلامی حکومت پائی نہ جاتی ہو جو زکوٰۃ جمع کر کے اُسے مستحقین میں تقسیم کرسکتی ہو، تو ایک مسلمان کا دین اس پر یہ امر فرض کرتا ہے کہ وہ اس کو اس کے مستحقین پر تقسیم کرے، کیونکہ زکوٰۃ کسی حال میں اس پر سے ساقط نہیں ہوتی ہے۔ وہ اس معاملے میں نماز کی طرح ہے۔ اگر ایک مسلمان ایسی جگہ پر ہو جہاں نہ تو مسجد ہی پائی جاتی اور نہ امامت کرنے کے لیے کوئی امام ہی موجود ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ نماز جہاں بھی ہوسکے پڑھے، اپنے گھر میں یا کسی اور مقام پر۔ کیونکہ زمین ایک مسلمان کے لیے مسجد کا حکم رکھتی ہے (جہاں چاہے نماز ادا کرے) اور کسی حال میں بھی نماز نہ چھوڑے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ زکوٰۃ نماز کی طرح ہی ہے۔ اس وجہ سے ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرے ، یہ اُمید کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کی جانب سے قبول فرمائے گا اور اس کو واپس نہیں لوٹائے گا۔ یہ امر مستحب ہے کہ وہ اپنے رب سے قبولِ زکوٰۃ کے لیے اس قسم کی دعا کرے: اللھم اجعلھا اجراً ولا تجعلھا مغرماً (اے اللہ! اُسے باعثِ ثواب و اجر بنا اور باعثِ عذاب نہ بنا)۔
یہی سبب ہے جس کی بنا پر ایک مسلمان زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور اس کی ادایگی سے بھاگتا نہیں ہے جیساکہ عموماً دیکھا گیا کہ لوگ ٹیکس ادا کرنے سے بھاگتے اور جی چراتے ہیں۔ اگر وہ بھاگتے نہیں ہیں تو اُسے جبر کی وجہ سے یا پھر کراہیت کے ساتھ ادا کرتے ہیں، بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ایسے مسلمان بھی ہیں جو اپنے مال میں سے زکوٰۃ سے بھی زیادہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اس رغبت کے سبب جو اللہ کے ہاں پائی جاتی ہے اور تاکہ اس کا ثواب اور اللہ کی خوشنودی انھیں حاصل ہو جیساکہ عہدنبویؐ میں اور آپؐ کے بعد کے اَدوار میں ہوتا رہا ہے۔
* اہداف اور مقاصد میں فرق:زکوٰۃ کے اعلیٰ روحانی اور اخلاقی مقاصد اُفق پر چمکتے نظر آتے ہیں۔ ٹیکس اتنی بلندیوں تک پہنچنے سے قاصر اور عاجز ہے۔ اس کے اہداف کے بارے میں ہمارے لیے اللہ تعالیٰ کا وہ قول کافی ہے جو اس کی کتاب میں وارد ہوا ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (التوبہ ۹:۱۰۳) ’’تم ان کے اموال میں سے وہ زکوٰۃ لو جو ان کو پاک کرتی اور ان کے (نفوس کا) تزکیہ کرتی ہے اور ان کے لیے دعا کرو، بے شک تمھاری دعا (ان کے لیے) باعثِ تسکین ہوتی ہے‘‘۔ نبیؐ زکوٰۃ ادا کرنے والے کے حق میں اس کی ذات اور اس کے مال میں برکت کی دعا فرمایا کرتے تھے، اور یہ وہ بات ہے جو ہر زکوٰۃ وصول کرنے والے کو کہنی چاہیے۔ رسولؐ اللہ کے اسوۂ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے بلکہ بعض فقہا نے اسے واجب قرار دیا ہے کیونکہ آیت نے اس کا حکم دیا ہے اور بظاہر ایسا ہی صحیح دکھائی دیتا ہے۔
رہا ٹیکس، تو وہ ان اُونچے اہداف کی طرف دیکھنے کی زحمت ہی نہیں اُٹھاتا ہے بلکہ کئی صدیوں تک مالیات کے ماہرین اس بات سے انکار ہی کرتے رہے کہ ٹیکس کا مقصد حکومت کے خزانے بھرنے کے علاوہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔ اسی موقف کو ’غیر جانب دار تصور‘ کا نام دیا گیا مگر جب افکار میں تبدیلی آئی اور اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی حالات میں تغیر پیدا ہوا تو ’غیرجانب دار‘ نظریے کے حامیوں کو شکست ہوئی اور وہ لوگ نمودار ہوئے جو اس بات کا مطالبہ کر رہے تھے کہ ٹیکسوں کو متعین اقتصادی اور اجتماعی اہداف کو حاصل کرنے کا وسیلہ بنانا چاہیے، جیساکہ خرچ کی ہمت افزائی یا بچت کی ہمت افزائی یا تعیشاتی اشیا پر خرچ کرنے میں کمی اور (طبقات کے درمیان) پائے جانے والے فرق کا ازالہ وغیرہ۔ یہ سب اس کے اصلی ہدف کے پہلو بہ پہلو ہیں جو ایک مالی ہدف ہے۔ اس کے علی الرغم ٹیکسوں کو عائد کرنے والے اور عوامی مالیات کے ماہرین اور ان کے مفکرین ٹیکسوں کو ان کے مادی دائرے سے باہر نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے جو اس کے دائرے سے زیادہ وسیع و عریض ہوتا۔ وہ دائرہ روحانی اور اخلاقی اہداف کا دائرہ ہے جس پر زکوٰۃ نے توجہ مرکوز کی ہے۔
* فرض کیے جانے کا نظری فرق:سب سے نمایاں فرق جو زکوٰۃ اور ٹیکس میں پایا جاتا ہے وہ اس بنیاد میں ہے جس پر زکوٰۃ اور ٹیکس کی عمارتیں کھڑی کی گئی ہیں۔ جہاں تک قانونی یا نظری بنیاد کا تعلق ہے ٹیکس کے فرض کیے جانے میں، ان نظریات میں تضادات پائے جاتے ہیں۔ رہی زکوٰۃ تو اس کی بنیاد واضح ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض کی گئی ہے۔ ہم ان کی وضاحت ان چار نظریات کی روشنی میں کریں گے جن کے درمیان کوئی تعارض نہیں پایا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کو قوت پہنچاتے ہیں۔ [ان نظریات پر بحث الشیخ القرضاوی نے دوسری فصل: ’زکوٰۃ اور ٹیکس فرض کیے جانے کی نظریاتی بنیادیں‘ میں کی ہے۔ مترجم]
lزکٰوۃ عبادت بہی ، ٹیکس بہی:یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ زکوٰۃ بیک وقت عبادت بھی ہے اور ٹیکس بھی۔ ٹیکس اس وجہ سے کہ وہ ایک معلوم مالی حق ہے جس کی نگرانی حکومت کرتی ہے۔ اگر اس کو خوش دلی اور اطاعت کے ساتھ ادا نہ کیا جائے تو حکومت اس کو بالجبر وصول کرتی ہے، اس سے حاصل شدہ رقم کو ان اہداف کے حصول میں خرچ کرتی ہے جو معاشرے کی خیر و فلاح کا باعث ہوتے ہیں۔
زکوٰۃ سب سے پہلے عبادت ہے اور شعائر اسلام میں سے ہے۔ اس کے ادا کرنے سے ایک مسلمان اللہ سے تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے اور جب وہ اُسے ادا کرتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ اس نے اسلام کے ایک رکن کو ادا کیا اور ایمان کے بہت سے شعبوں میں سے ایک شعبے کوپورا کیا۔ اس کے ذریعے وہ اس شخص کی مدد کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا چاہتا ہے۔ یہیں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ادا کرنا اطاعت اور صلاح کے کاموں میں سے ہے اور اس کو ادا نہ کرنا صریح فسق (نافرمانی) اور کھلی ناشکری ہے۔ وہ ایک ایسا فریضہ ہے جو وصول کرنے والے کے نہ آنے یا تاخیر سے آنے سے ساقط نہیں ہوتا ہے اور نہ وہ حاکم کی لاپروائی سے یا کئی برس گزرنے سے ہی ساقط ہوتا ہے۔ وہ ٹیکس کی طرح نہیں ہے کہ وہ حکومت کے کہنے سے فرض ہوجائے اور حکومت کے طلب نہ کرنے سے ساقط ہوجائے۔
یہاں ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے علما اس حقیقت کو پاچکے تھے اوراس کی طرف انھوں نے توجہ بھی دلائی تھی کہ زکوٰۃ ان دونوں معنوں کو محیط ہے، یعنی ٹیکس کے معنی اور زکوٰۃ کے مفہوم کو اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے۔ اگرچہ انھوں نے لفظ ٹیکس کے ذریعے اس کی تعبیر نہیں کی ہے کیونکہ لفظ ٹیکس ایک جدید اصطلاح ہے۔ وہ اس کے مفہوم کو لفظ ’حق‘ سے تعبیر کرتے تھے جو مال داروں کے اموال میں فقرا اور مساکین کے لیے واجب الادا ہوتا ہے(دیکھیے بدایۃ المجتہد لابن رشد،ج۱، ص ۲۳۷، مطبعۃ الاستقامۃ)۔ یا وہ اس کو صلۃ الرحم، یعنی انسان ہونے کے ناتے یا مسلمان ہونے کی وجہ سے (اس کو فرض قرار دیتے ہیں) اس میں عبادت کے پہلو کے ساتھ۔
اس سلسلے میں واضح ترین معنیٰ الروض النضیر کے مصنف نے بعض علما کے حوالے سے زکوٰۃ کی حقیقت اور اس کی حکمت کے بارے میں بیان کیے ہیں، وہ کہتے ہیں: ’’مال داروں کے مال و دولت کی تاکید اس کے وجوب کے ساتھ کی جاسکے۔ اللہ نے معاونت اور اتحاد و تعاون کا جو حکم دیا ہے اس میں مال داروں کے نفوس کا ابتلا اور امتحان ہے جو انسانی نفوس پر شاق گزرتے ہیں جیساکہ عبادات کو فرض کر کے ان کے جسموں کو ابتلا اور امتحان میں مبتلا کیا۔ یوں یہ صلۃ الرحم کا ذریعہ بنی اور اس میں عبادت کا پہلو بھی آگیا ہے۔ عبادت کے پہلو کی وجہ سے اس میں نیت کی شرط لگائی گئی ہے۔ اس میں نافرمانی اور معصیت جیسی دیگر چیزوں کو شریک کرنا ناجائز ہے۔ اس میں صلۃ الرحم کے پائے جانے کی بنا پر اس میں کسی کو نائب یا وکیل بنانا جائز ہے اور اس میں جبر کا استعمال جائز ہے۔ جب امام کسی سے بالجبر اُسے وصول کرے تو وہ ادا کرنے والے کی طرف سے نیابت اور وکالت کی نیت کے تحت ہوتا ہے۔ اس کو میت کے مال میں سے وصول کرلیا جاتا ہے۔ خواہ میت نے اس کی وصیت نہ کی ہو۔ چونکہ اس میں صلۃ الرحم کا عنصر غالب ہے، اس لیے اس میں فقرا کے لیے زیادہ منفعت کی رعایت کرنے کا حکم ہے اور یہی وجہ ہے کہ نابالغ یا اس جیسے لوگوں کے اموال میں بھی واجب ہوتی ہے۔ چونکہ اس کا اصل مقصد مواساۃ ہے، اس لیے اُسے صرف بڑی مقدار کے مال میں واجب کیا گیا ہے جس کو نصاب کہتے ہیں۔ اُسے صرف قابلِ نمو (growthable) اموال میں فرض کیا گیا ہے۔ یہ اموال عین (یعنی سونا چاندی) نقد [چونکہ سونا چاندی کے اس وقت سکّے ہوا کرتے تھے۔ مترجم] اموالِ تجارت، مویشی، زرعی پیداوار ہیں۔ شرع نے ان اموال میں وہ نصاب مقرر کیا ہے، جس کا ان میں سے ہرقسم یا مواساۃ کا متحمل ہوسکتا ہے۔ ان میں واجب ہونے کی مقدار کو محنت اور زرعی ضروریات کے لحاظ سے مقرر کیا۔ اس لیے بارش یا اس جیسی چیز سے سیراب ہونے والی فصلوں پر ۱۰فی صد فرض کیا اور جن فصلوں کو جانوروں یا ٹیوب ویلوں کے ذریعے سیراب کیا جاتا ہے اس کا نصف، یعنی ۵فی صد (دیکھیے: الروض النضیر، ج۲، ص۳۸۹، مطبعۃ السعادۃ۔ یہ دراصل امام زید بن علی زین العابدین بن حسین بن علی کی کتاب المجموع الفقہ الکبیر کی چار جلدوں میں شرح ہے)۔

حصہ