اپنی ذمہ داریوں کو انصاف سے پورا کریں

998

افروز عنایت
اکثر ایک جملہسننے میں آتا ہے کہ فلاں اپنے اختیارات سے تجاوز کر گیا یا اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا میں سب کے لیے تو نہیں کہوں گی کہ ان کی زندگی پر یہ جملہ صادق آتا ہے لیکن اکثر و بیشتر اس قسم کے لوگوں سے پالا پڑتا ہے یا ایسے لوگ نظر آتے ہیں دین اسلام نے زندگی کے ہر معاملے کی طرف ہماری رہنمائی کی ہے کہ معاشرے میں رہنے والوں کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرو ایمانداری سے اپنے فرائض کوانجام دوتاکہ سامنے والوں کو تکلیف نہ ہو اور خود اپنے لیے ناجائز فائدہ نہ تلاش کرو۔
آج ہمارے سامنے نہ صرف دفتروں، آفسوں تعلیمی و کاروباری اداروں بلکہ گھریلو معاملات میں بھی اس بات کی جھلک نظر آتی ہے جیسے اکثر و بیشتر پولیس والوں کے بارے میں سنتے ہیں کہ انہوں نے اپنے اخیارات کا ناجائز فائدہ اٹھایا، سرکاری دفاتر میں تو اکثر و بیشتر اعلیٰ افسران اس بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں یہاں تک کہ آفیس یا دفتر کے نچلے درجے کے ملازم کو تو اپنا غلام سمجھتے ہوئے اس سے اپنے ذاتی کام کرواتے ہیں اپنا کام اپنے ماتحتوں کے اوپر ٹھونستے ہیں، تعلیمی اداروں میں ملنے والے فنڈز کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اس کے علاوہ بھی بہت سی اخلاقی خرابیاں نظر آتی ہیں یعنی اپنے عہدے اور حیثیت کو غلط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط اور نا انصافی ہے اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین دفتری اشیاء کو بے دھڑک اپنے ذاتی تصرف میں لاتے ہیں یہ امانت میں خیانت کے مترادف ہے ان کی دیکھا دیکھی ماتحت عملہ بھی یہ روشن اپنانے لگتا ہے اور سب سے بڑی یہ بات کہ اس برائی کو برائی ہی نہیں سمجھا جاتا اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ یہ تو عام سی بات ہے سب ہی ایسا کرتے ہیں اس میں کیا برائی ہے ہم نہیں کریں گے تو کیا ہوا باقی سب تو یہی کرتے ہیں (استغفار) کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد بندہ پابند ہو جاتا ہے کہ وہ بے چوں چرا احکامات الٰہی اور سنت نبوی کی پیروی کرے۔ صحابہ کرام اجمعین، تابعین اور تبع تابعین اپنی ذات کو تکلیفوں میں رکھ کر اپنے منصب کو عوام الناس کی بھلائی کے لیے وقف کر دیتے تھے اپنا فائدہ اور آرام تو دور کی بات عوام الناس کی خدمت کے لیے دن رات کی ان کے یہاں تمیز نہ تھی بیت المال سے ملنے والے وظیفے سے ماہانہ اگر کچھ رقم ازواج پسِ انداز کرتیں تو کہتے کہ اس کا مطلب کہ ہمارا گزارا اس سے کم میں ہو سکتا ہے یہ رقم ہم زائد حاصل کررہے ہیں خود اپنے وظیفے میں کمی کرواتے تھے آرام دہ بستروں پر آرام نہ کرتے کہ کہیں اس آرام کی وجہ سے عوام الناس کی خدمت میں کسی قسم کی کوتاہی آجائے۔ ان کے دل میں ہر وقت خوف خدا سمایا ہوتا تھا کہ کہیں ہم سے کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہورہی بار بار اپنا محاسبہ کرتے اور اللہ کے حضور قصور نہ ہونے کے باوجود گڑ گڑاتے اور آنسو بہاتے۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر گلی کوچوں میں بھیس بدل کر نکلتے کہ کہیں کوئی تکلیف میں تو نہیں ہے کسی کے ساتھ نا انصافی تو نہیں ہوئی اپنے عملداروں کو عوام الناس کے ساتھ بھلائی کرنے کی تلقین کرتے اگر خدانخواستہ کہیں کسی عملدار کی طرف سے نا انصافی کی شکایت سنتے تو بلا تفریق اس کی تحقیقات کے بعد قصور وار کو سزا دی جاتی۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کپڑے کی تجارت کرتے تھے خلیفہ بننے کے بعد ایک دن حسب معمول کپڑا بیچنے کے لیے گھر سے نکلے راستے میں حضرت عمرؓ ملے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو کہا کہ بازار کپڑا بیچنے جا رہا ہوں حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اس طرح آپؓ خلافت کا کام کیسے کریں گے جواب دیا پھر گھروالوں کو کیا کھلائوں حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کو ابو عبیدہؓ کے پاس لے گیا اس طرح بیت المال سے آپ کا وظیفہ مقرر کیا گیا جو ایک عام آدمی جتنا تھا۔ ایک مرتبہ بیوی نے میٹھے کھانے کی فرمائش کی آپ نے فرمایا میرے پاس تو کچھ نہیں بیوی نے روز کے کھانے سے تھوڑا تھوڑا بچایا تاکہ میٹھا کھا سکیں حضرت ابو بکرؓ کو معلوم ہوا تو آپؓ نے فرمایا کہ اس کا مطلب ہے کہ ہم کم میں سے گزارا کر سکتے ہیں یہ زائد تھا جو بچ گیا لہٰذا اپنا ماہانہ وظیفہ کم کردیا۔ یہی حال حضرت عمر فاروقؓ کا تھا جنہوں نے اپنے منصب خلافت کے اوقات کو عام لوگوں کے لیے وقت کر دیا اگر کسی کو تکلیف میں دیکھتے تو یہ سوچے بغیر کہ وہ امیر المومنین ہیں اس کی طرف بڑھ کر خود مدد کرتے تنگی سے گزارا کرتے لیکن یہ گوارا نہیں کیا کہ بیت المال سے اپنے لیے زائد رقم لیں راتوں کو اٹھ اٹھ کر پہرہ لگاتے کہ کوئی ضرورت مند تو نہیں کہ جسے میری ضرورت ہو ایک مرتبہ اسی غرض سے رات کو گھر سے نکلے ایک بدو کو راستے میں دیکھا جو خیمہ کے باہر بیٹھا تھا اس کی بیوی کے یہاں ولادت کا وقت تھا جس کی وجہ سے کراہ رہی تھی جب معلوم ہوا تو آدھی کا وقت تھا گرچہ لیکن اپنی بیوی کو زچگی میں مدد کے لیے بدو کی بیوی کے پاس (ان کی زوجہ حضرت ام کلثومؓ جو حضرت فاطمہ الزہرہ کی صاحبزادی تھیں) جنہوں نے اس اجنبی خاتون کی ولادت میں مدد تھی کی جب اس شخص کو آخر میں معلوم ہوا کہ آپ امیرالمومنین ہیں تو بڑا شرمندہ ہوا اور حیران بھی۔
اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز جنہیں عمر ثانی بھی کہا جاتا ہے ان کا طریقہ کار بھی یہی تھا۔ جب انہیں خلافت کے منصب سے نواز نے کے لیے تخت منصب پر کھڑا کیا گیا تو وہ اس تخت سے اتر آئے کہ کہیں دل میں غرور و تکبر نہ پیدا ہو کر میں اپنے فرائض منصب میں کمی بیشی کر بیٹھوں اور عوام الناس کو وہ فائدہ نہ پہنچا سکوں جو ان کا حق ہے یہ ان حکمرانوں کا ڈرو خوف تھا اللہ باری تعالیٰ سے، ہر عمل کے جواب دہی کے لیے کانپتے اور لرز کے تھے کہ ہم سے کہیں کسی کے ساتھ نا انصافی نہ ہو جائے کسی کا حق نہ ہم پر رہ جائے اپنا دن رات عوام کی فلاح و بہبود کے لیے امانت سمجھتے گرچہ ان میں سے کئی خلافت اور اسلام سے پہلے عیش آرام کی زندگی گزار چکے تھے لیکن جیسے ہی انہیں حکمرانی کے منصب سے نوازا گیا تو سب عیش چھوڑ کر انہوں نے اس منصب کو بھاری ذمہ داری سمجھا اور ایمانداری سے انجام دینے کے باوجود فکر مند رہنے لگے۔ اللہ کے حضور گڑ گڑاتے کہ یا رب العزت ہمیں توفیق دے کہ اس اہم ذمہ داری کو ایمانداری سے انجام دے سکیں کہیں ہم سے کوتاہی نہ سرزد ہوئے کہیں ہم اس منصب کی وجہ سے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرلیں اسقدر احتیاط برتتے کہ اگر ملزم اپنے گھر کا فرد ہی کیوں نہ ہوتا انصاف کے مطابق اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کرتے اور حق دار کو اس کا حق دلاتے اس کے باوجود راتوں کو اٹھ کر روتے کہ یا الٰہی ہمیں اپنے اختیارات کے صحیح استعمال کرنے کی توفیق عطا کر یہی تاکید اپنے عملداروں سے فرماتے کہ کہیں بھی کسی سے زیادتی اور نا انصافی نہ ہو اگر کسی عملدار کی طرف سے شکایت آتی تو بلا امتیاز اس کی تحقیقات کا حکم دیا جاتا کسی بھی نا مناسب اور نا اہل شخص کو اعلیٰ عہدے پر فائز نہ کیا جاتا چاہے وہ کتنا ہی حسب و نسب و اعلیٰ خاندان کا صاحب حیثیت شخص ہو۔ قابل بھروسہ اور اہل عملدار کو عہدہ سے نوازا جاتا۔
ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک شخص کو کسی جگہ کا حکم بتایا کسی نے عرض کیا کہ یہ صاحب تو حجاج بن یوسف کے زمانے میں اسی کی طرف سے بھی حاکم رہ چکے ہیں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے فوراً اسے عہدہ سے ہٹا دیا انہوں نے عرض کیا کہ میں نے حجاج بن یوسف کے ساتھ تھوڑے ہی زمانے کام کیا تھا عمر بن عبدالعزیزؓ نے فرمایا کہ برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ تو اس کے ساتھ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کی یہ احتیاط تھی کہ کہیں کوئی غلط بندے کو وہ عہدے سے نہ نواز دیں جو عوام الناس کے حق میں بہتر کار کردگی نہ انجام دے سکے۔
آج ہم اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں کہ آیا ہم اپنے منصف اور عہدے کے اختیارات کو صحیح استعمال کررہے ہیں کہیں ہم سے کوئی ایسا کام اور فیصلہ تو سرزد نہیں ہو رہا ہے جو عوام الناس کے حق میں نا انصافی کا موجب تھے جس کی بدولت کسی کی حق تلفی ہو رہی ہو یا ملک کے لیے خسارے اور نقصان کا باعث بن رہا ہو تو فوراً اپنے رب کی طرف رجوع کریں اور احتیاط برتیں سوچیں کہ اس دنیا میں تو رب العزت نے کچھ اختیارات ہمیں سونپے ہیں لیکن آخرت کے تمام اختیارات اسی کے ہاتھ میں ہیں جہاں کسی کے ساتھ ذرا برابر نا انصافی نہ ہو گی رب العزت ہم سب کو اپنے اپنے اختیارات کو انصاف کے ساتھ استعمال کرنے کی توفیق عطا کرے تاکہ جس معاشرے کی صحیح فضا قائم ہو سکے ملک بھی ترقی کر سکے اور سب سے بڑا انعام یہ کہ رب بھی راضی رہے۔

حصہ