اوریا مقبول جان
گزشتہ دو دہائیوں سے دنیا بھر کے پھیلتے ہوئے میڈیا کو اپنے قبضے میں رکھنے، اپنی مرضی کی اطلاعات لوگوں تک پہنچانے، اپنے خیالات و نظریات کو لوگوں کے ذہن میں پختہ کرنے، اور پوری دنیا کو ایک جیسے کلچر، طرزِ زندگی، ثقافت، یہاں تک کہ کھانے پینے اور پہننے کے ذوق تک ایک جیسا کرنے کے لیے عالمی سودی، مالیاتی، سیکولر کارپوریٹ نظام کے کرتا دھرتائوں نے اسے خرید کر ایک چھتری کے نیچے جمع کرنا شروع کیا۔ یوں تو جدید ’’آزاد‘‘ میڈیا شروع دن سے اشتہارات دینے والوں کا غلام ہے، لیکن اسے مکمل طور پر غلام بنانے کے لیے اس کی ملکیت کو بھی اپنے ہاتھ میں رکھنا ضروری تھا۔ اس مقصد کے لیے بڑی بڑی کمپنیاں بنائی گئیں جو ہر طرح کے میڈیا ہائوسز کو خرید کر اپنے زیراثر کرنے لگیں۔ ان کمپنیوں نے صرف ٹیلی ویژن چینلز اور اخبارات کو ہی اپنے زیراثر نہیں لیا، بلکہ فلم، ویڈیوز، کارٹون، ویڈیو گیمز… غرض کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہ چھوڑا گیا جس کے ذریعے عوام تک کسی بھی قسم کی اطلاع پہنچ سکتی ہو، خواہ وہ انٹرنیٹ پر شائع کیے جانے والے اسٹیکرز ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا کا میڈیا صرف اور صرف پانچ بڑی کمپنیوں کی ملکیت ہے۔
اس وقت سب سے بڑی کمپنی نیشنل امیوزمنٹ (National Amusement)، دوسری کمپنی ڈزنی (Disney)، تیسری کمپنی ٹائم وارنر (Time Warner)، چوتھی کمپنی کوم کاسٹ (Comcast)، اور پانچویں کمپنی نیوز کارپوریشن(News Corporation) ہے۔ یہ پانچویں اور آخری کمپنی جو آج سے چند سال پہلے دوسرے نمبر پر تھی اس کا سربراہ روپرٹ مرڈوک (Rupert Murdock) ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے ان تمام کمپنیوں کو یکجا کرنے اور میڈیا کو ایک فکر اور سوچ کے تحت منظم کرنے کے لیے دنیا کے کارپوریٹ سرمایہ داروں اور اُن کے پیچھے جعلی کاغذی کرنسی کے ہیرپھیر سے دنیا کی معیشت پر قابض بینکاروں کو تیار کیا۔ یوں صرف چند سال میں آسٹریلیا کے ساحلوں سے لے کر لاس اینجلس کے پُررونق بازاروں تک میوزک، فلم، کارٹون، ویڈیو گیمز، اخبارات، رسائل، اشتہارات، ٹیلی ویژن چینل، غرض سب کے سب ان کے شکنجے میں آگئے، ان کی زبان بولنے لگے اور جدید مغربی تہذیب و اقدار کی چھاپ کو پوری دنیا پر ایک آہستہ آہستہ دیے جانے والے زہر کی صورت سرایت کرنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آپ کو پاکستان جیسے ممالک میں بھی دانشوروں کا ایک وسیع حلقہ ایسا مل جائے گا جن کے نزدیک معیارِ تہذیب، معیارِ اخلاق، معیارِ ترقی، یہاں تک کہ معیارِ حق میں جدید مغربی تہذیب ہی ہوگی۔
یہ سب کچھ حاصل کرنے کے لیے روپرٹ مرڈوک نے اپنے ماتحت اداروں کو چار بنیادی اصول بتائے، جن کی روشنی میں میڈیا کو اپنی مصنوعات (Products) بنانی چاہئیں۔ ان ’’مصنوعات‘‘ میں تبصرہ نگاروں کے الفاظ اور نیوز اینکرز کا لباس تک شامل کیا گیا۔ اس نے پہلا اصول یہ بتایا کہ دنیا بھرکا میوزک جو صدیوں پرانے سست، پُرسکون اور ذہن کو پاکیزگی اور ترفع کی جانب لے جانے والے آلات ِموسیقی پر مشتمل ہے اُسے بدل کر الیکٹرونک (Electronic) اور تیز رفتار کردو۔ اس لیے کہ جب تک لوگ ہیجان انگیز موسیقی کی عادت نہیں ڈالیں گے وہ اس تیز رفتار کارپوریٹ نظام کا حصہ نہیں بن سکیں گے۔ اس ہیجانی طبیعت کی وجہ سے ان کے ہاں سوچنے کا وقت کم ہوگا اور یوں وہ میڈیا پر دیے گئے اشارات (Signals) پر عمل کرنے کے لیے فوراً مائل ہوجائیں گے۔
اس کا دیا گیا دوسرا اصول یہ تھا کہ دنیا بھر میں سازشی نظریات (Conspiracy Theories)کو عام کردو تاکہ لوگوں کو اپنی قوتِ بازو اور سوچ پر اعتماد نہ رہے۔ وہ میڈیا پر چلائی گئی کہانیوں پر ایمان کی حد تک یقین کرنے لگیں۔ مثلاً جو کرتا ہے امریکا اور عالمی طاقتیں کرتی ہیں، عوام کی جدوجہد فضول ہے۔ تیسرا اصول یہ دیا گیا کہ کسی بھی قوم کے اندر اگر اخلاقی اصولوں کی پاسداری دیکھو یا اُن کے کسی رہنما اور لیڈر کو مخلص اور دیانت دار محسوس کرو تو ایسی قوم اور ایسے رہنما اور لیڈر کو بدنام (Malign)کرنے کے لیے ان کے بارے میں اسکینڈل بناکر اچھالو، تہمتیں لگائو تاکہ وہ قوم اپنی نظروں میں خود ہی گر جائے اور لوگ اپنے اس رہنما اور لیڈر سے منہ پھیر لیں۔ چوتھا اور آخری اصول یہ تھا کہ عریانی اورفحاشی کو آہستہ آہستہ لوگوں میں ایک میٹھے زہر کی طرح سرایت کرو، یہاں تک کہ انہیں ایسا کچھ برا نہ لگے۔ جو لوگ آج عورت کے برہنہ بازو نفرت سے ہی دیکھنا شروع کردیں گے تو پھرایک دن انہیں یہ برے نہیں لگیں گے، یوں انہیں ٹانگیں اور سینہ بھی آہستہ آہستہ دکھایا جاسکتا ہے، اور یوں ایک دن ایسا آجائے گا کہ انہیں اپنے اردگرد عریانیت یا نیم عریانیت کوئی اچنبھے کی چیز نہیں لگے گی، اور فحاشی، فحش گوئی اور فحش میڈیا میٹریل تفریح کا ذریعہ اور سکون کا باعث بن جائے گا۔ یہی وہ رہنما اصول تھے جن پر آج کے جدید میڈیا کی بنیاد رکھی گئی، اور پھر میڈیا بھی وہ، جسے صرف چند افراد کنٹرول کرتے ہیں، اور وہ اس کنٹرول میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتے۔
یہ رہنما اصول میرے ملک کے بہت سے ایسے دانشوروں کے دل کی مراد ہیں جو اپنی علمی دنیا کی بساط پر مسلمانوں کو دنیا کی بدترین اور بداخلاق قوم دیکھنا پسند کرتے ہیں، اور پاکستانی عوام سے انہیں اس قدر نفرت اور بغض ہے کہ اگر کوئی جھوٹ میں بھی پاکستانیوں کی برائی کردے تو اسے بغیر تحقیق کے سچ مان کر اس کی ترویج کرنے لگتے ہیں۔ اسی قبیل کے ایک دانشور نے ایک شام حالتِ نشاط (Elatedness) میں ٹیلی ویژن چینل پر مغرب کی توصیف میں فرمادیا کہ ’’وہاں عریانی بھی ستر ہے‘‘۔ کبھی پاکستان میں مُردہ خاتون سے زیادتی کا معاملہ سامنے آیا تو وہ اسے آج بھی بار بار دہراتے ہیں اور پاکستانی قوم کو بدنام کرتے ہیں۔ حالانکہ نفسیاتی معالج اس فعل کو Neerophilia کہتے ہیں، اور یہ امریکا اور یورپ میں اس قدر عام ہے کہ باقاعدہ ایسے مریضوں کے لیے علیحدہ اسپتال موجود ہیں۔ اس بدترین جرم کی تاریخ وکٹر آرڈیسن (Victor Ardisson) سے آغاز پاتی ہے جس نے سو سے زیادہ مُردہ عورتوں سے زیادتی کی تھی، اور آج کے مہذب یورپ اور امریکا کے نفسیاتی مریضوں میں یہ اکثر پائی جاتی ہے۔ اسی طرح گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ایک جھوٹی خبر کو بنیاد بناکر یہ تصور عام کیا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام فحش فلمیں زیادہ دیکھتے ہیں۔ اس جھوٹ کا تذکرہ میرے ملک کے اکثر مغرب سے مرعوب اور مسلمان اور پاکستان کو بدنام کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دینے والے دانشور بار بار کرتے رہتے ہیں۔ یہ خبر آج سے نو سال قبل 2010ء میں فوکس (Fox) نے نشر کی تھی اور گوگل کا سہارا لیا۔
آپ اندازہ کریں کہ اس خبر کے نشر ہونے کے چند گھنٹے بعد، گوگل نے اس کی واضح تردید جاری کی تھی اور کہا تھا کہ:
Story about Pakistan, contain inaccuracies because the sample size is too small for the results to be statistically sound
’’پاکستان کے متعلق اس کہانی میں سقم ہیں کیونکہ بہت کم لوگوں کی آراء کی بنیاد پر ایسی بات کی گئی ہے جو حقائق کے اعتبار سے درست نہیں۔‘‘
اس کے بعد دنیا کے میڈیا پر ایک طوفان آیا جو بار بار آتا رہا اور دنیا کی مختلف تحقیقات میں لوگ یہ ثابت کرتے رہے کہ وہ کون کون سے ملک ہیں جہاں فحش فلمیں زیادہ دیکھی جاتی ہیں۔ اس دوران سامنے آنے والے تمام ممالک کے نام ترتیب وار یہ ہیں: امریکا، سنگاپور، فلپائن، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا، برطانیہ اور بھارت۔ یہ ترتیب اسی سال یعنی 2010ء کو منظرعام پر آگئی تھی اور اس ترتیب کو دنیا کی لاتعداد سائٹس پر آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن میرے ملک کے ان دانشوروں کی ان پر نظر نہیں پڑتی، اس لیے کہ اس سے ان کی تسکین نہیں ہوتی۔ انہیں تو بس موقع ملنا چاہیے پاکستانی قوم کو بدنام کرنے کا۔ ان کی موجودگی میں کیا روپرٹ مرڈوک کو ہمیں بدنام کرنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟