قدسیہ ملک
حضرت موسیٰ ؑ سے متعلق مشہور واقعہ جس میں وہ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد جب اپنے رب سے ہم کلام ہونے کوہ طور پر گئے تو صدا آئی”اے موسی اب سنبھل کر کر، تیرے لئے دعا کرنے والے لب اب خاموش ہو گئے ہیں”۔ دعا دراصل مومن کا بہترین ہتھیار ہے۔ دعا اس وقت بہت اثر کرتی ہے جب ہم اپنے دل کے خلوص اور بغیر کسی شک و شبے کے ساتھ یکسو ہوکر اللہ کی بارگاہ میں اپنا مسئلہ بیان کریں اللہ سے ہی سے استعانت طلب کریں۔
میرے دادا مولانا عبدالعزیز صاحب جماعت اسلامی کے دیرینہ رکن تھے سے ہجرت کے وقت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے حکم پر انہوں نے حیدرآباد دکن ہی میں قیام کیا۔ پھر اس کے چند ماہ بعد دوران ہجرت اپنے جواں سالہ بھائی کو ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں شہید اور پھر ان کی لاش کے ٹکڑے ہوتے دیکھے ان کو دفنا کر اپنی زمینیں اپنے مکانات اور باغات سب کچھ چھوڑکر کراچی آئے۔ اور مولانا مودودی کی دی ہوئی اسی گز کی رہائش گاہ میں قیام کیا۔ جماعت کا کام پوری تندہی محنت اور محبت سے کیا اور وہیں انتقال ہوا۔ دادا سے جب بھی کوئی اپنے لئے دعا کروانے کو کہتا تھا تھا کہ کہ مولانا صاحب میرے لیے دعا کریں تو دعا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہاں میں بھی تمہارے لئے دعا کروں گا تم اپنے لیے خود بھی دعا کرو۔ اللہ تعالی بندے کی دعا کرنے سے خوش ہوتا ہے اور جو بندہ اپنے لیے دعا نہیں کرتا اللہ تعالی اس سے ناراض ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میرا بندہ مغرور ہوگیا ہے مجھ سے دعا نہیں کرتا۔ اس لیے اپنے لئے سب سے پہلے دعا کیا کرو۔
ابھی رمضان ہی کی بات ہے 21 ویں شب تھی مجھے رات میں باربار ایک آنٹی کا خیال آرہاتھا پھرمیں نے ان کے لیے اپنے دل سے دعا کی۔ اگلے دن میں نے میسج پہ بات انہیں بتائیں کہ میں نے آپ کے لئے دعا کی۔ یہ پیغام دے کرمیں بھول گئی بھی اس سے اگلے دن ان خاتون کا میرے پاس فون آیا اور وہ مجھ سے کافی دیر تک بات کرتی رہی اور وہ بار بار میرا شکریہ ادا کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی میں نے تمہارے لیے دل سے دعا کی ہے تم نے مجھ سے محبت کی میرے لئے دعاکی تم نے اللہ کی خاطر مجھے یاد رکھا میں بھی تمہارے لئے دعا کرتی ہوں۔ وہ بار بار میرا شکریہ ادا کررہی تھیں۔ اور میں شرمندہ ہورہی تھی۔ دعا صرف اور صرف اپنے لیے ہی نہ کریں بلکہ دعا اپنے چاہنے والوں اپنے رشتے داروں اپنے عزیزوں اپنے دوستوں بلکہ ان لوگوں کے لئے بھی دعا کریں جن سے آپ کی کسی قسم کی دشمنی ہے یا جن کو آپ پسند نہیں کرتے یا جو آپ کو پسند نہیں کرتے۔ دعا کے ذریعے اللہ تعالی دلوں میں گنجائش پیدا کر دیتے ہیں۔ دعا کی برکت سے اللہ تعالی دلوں میں نہ صرف یہ کہ محبتیں پیدا کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے ایسا قلبی تعلق استوار ہو جاتا ہے جو ہمیشہ یاد رہتاہے۔ دعا کو مومن کا ہتھیار ایسے ہی نہیں کہا گیا۔ آپ آزمالیں ہر مشکل، پریشانی، مصیبت اور آزمائش میں دعا کی برکت سے اللہ تعالی کوئی ایسی راہ نکال دیتے ہیں جس کا بندے نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔
اللہ کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے جب بھی کوئی مسلمان ایسی دعا کرے جس میں گناہ یا صلہ رحمی نہ ہو تو اللہ رب العزت تین باتوں میں سے ایک ضروری سے نوازتے ہیں یا تو اس کی دعا کو قبول فرما لیتے ہیں یا اس کے لیے آخرت میں ذخیرہ کر دیتے ہیں یا اس جیسی کوئی برائی سے ٹال دیتے ہیں صحابہ نے کہا پھر تو ہم بکثرت دعا کریں گے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا ”اللہ اس سے بھی زیادہ بخشنے والا ہے”۔
یہ بات ہمیشہ ذہن نشین ہونی چاہیے کہ قبولیتِ دعا کی یہ صورتیں ہیں:
• اللہ تعالیٰ بندے کی دعا قبول کرتے ہوئے اسے وہی عنایت کردے جس کی وہ تمنا کرتا ہے۔
• یا پھر اس دعا کے بدلے میں کسی شر کو رفع کردیتا ہے۔
• یا بندے کے حق میں اس کی دعا سے بہتر چیز میسر فرما دیتا ہے۔
• یا اس کی دعا کو قیامت کے دن کے لیے ذخیرہ کردیتا ہے، جہاں پر انسان کو اِس کی انتہائی ضرورت ہوگی۔
دعا کے لئے کچھ شرائط ضروری ہے جن میں سب سے پہلے اخلاص نیت چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے تم اسی کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو۔ اس کے علاوہ حرام سے اجتناب کرنا چاہیے اگر کوئی گناہ کیا ہے تو پہلے اس سے توبہ کرنی چاہیے عاجزی اور انکساری سے دعا مانگنی چاہیے جیسا کہ سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”اب تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑا کر اور چپکے سے بھی” دعا کے اندر زیادتی نہ کی جائے جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑگڑاکراور چپکے سے واقعی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو حد سے نکل جائیں۔
الحمدللہ اللہ کے فضل و کرم سے ماہ رمضان المبارک کی طاق راتیں ہمیں نصیب ہوئی ہم رحمتوں برکتوں اور مغفرت کے عشرے سے گزر کر اب نار جہنم سے نجات کے عشرے میں داخل ہوچکے ہیں اوراب اس میں شب قدر تلاش کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالی سے زیادہ سے زیادہ دعا مانگیں تاکہ اس کی رحمت جوش میں آئے دعا کی فضیلت کے بارے میں قرآن پاک کی روشنی میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں ’’اور اے پیغمبر اور جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو کہہ دو کہ میں تو تمہارے پاس ہوں۔ جب پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ان کو چاہئے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں آئے تاکہ نیک راستہ پائیں (سورہ بقرہ)۔‘‘
اس بات کا بھی خیال رہے کہ مال حرام سے مکمل اجتناب کیاجائے۔ کیونکہ حدیث میں آتا ہے مال حرام کے ایک لقمے سے 40 دن کی عبادتیں قبول نہیں ہوتیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے کچھ امور بھی بیان فرمائے، جن سے دعا کی قبولیت کے امکان زیادہ روشن ہوجاتے ہیں، مثلا: کہ وہ مسافر ہے، اللہ کا ہی محتاج ہے، لیکن اس کے باوجود دعا اس لئے قبول نہیں ہوتی کہ اس نے حرام کھایا، اللہ تعالی ہمیں حرام کے لقموں سے محفوظ رکھے۔
ایک حدیث جوحضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ کو یہ بات محبوب ہیں ہے کہ اس کے بندے سے دعا کریں اور مانگیں۔ اللہ تعالی سے اس کے کرم کی امید رکھتے ہوئے اس بات کا انتظار کرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کو اپنے کرم سے دور فرمائے گا اعلیٰ درجے کی عبادت ہے (جامع ترمذی)۔
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے ہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں (ترمذی)۔
دعا اور اللہ کا ذکرایک مکمل اور پختہ وسیلہ ہے۔ دعاء مؤمن کا ہتھیار ہے۔ جس طرح ایک مجاہد اپنے ہتھیار کو استعمال کرکے دشمن سے اپنا دفاع کرتا ہے۔ اسی طرح مؤمن کوجب کسی پریشانی مصیبت اور آفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو وہ فوراً اللہ کے حضو ر دعا گو ہوتا ہے دعا ہماری پریشانیوں کے ازالے کے لیے مؤثر ترین ہتھیارہے۔ انسان اس دنیا کی زندگی میں جہاں ان گنت و لا تعداد نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے وہاں اپنی بے اعتدالیوں کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے اس دنیاکی زندگی میں ہر آدمی کے مشاہدے میں ہے کہ بعض انسان فالج، کینسر، یرقان، بخار وغیرہ اوراسی طرح کئی اقسام کی بیماریوں میں مبتلاہیں ان تمام بیماریوں سے نجات وشفا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے ان بیماریوں کے لیے جہاں دواؤں سے کام لیا جاتا ہے دعائیں بھی بڑی مؤثر ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب اس خیر و برکت والی مقدس رات کوطاق راتوں میں تلاش کریں اوراللہ کی رضا وخوشنودی کے حصول میں لگے رہیں اور ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہ ہوں اور حسب توفیق ذکر و تلاوت، توبہ و استغفار، درود و نوافل، تسبیحات اور تہجد وغیرہ میں مصروف رہیں۔ اللہ سے خیر و سلامتی، فضل و کرم اور بخشش و مغفرت کی دعائیں مانگیں اس متبرک رات کے انوار و برکتوں سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں اور رب العزت کے احسانات اور انعام و اکرام کا شکر ادا کریں۔ خلوص دل سے دعا کریں کہ اے اللہ عفو و درگزر تیرا بہت بڑا کرم ہے تو معافی کو پسند فرماتا ہے ہم تیرے محتاج ہیں تیری رحمت و عافیت کے طلب گار ہیں تو ہماری مغفرت فرما ہمیں بخش دے، بندے اس رات میں دعا کریں اور فرشتے ان کی دعاؤوں پر آمین کہیں اور اللہ دعا قبول فرمائے، اس سے راضی ہوجائے، اس کو بخش دے تو بندہ کامیاب ہے اور یہ خصوصیت صرف شب قدر کو ہی حاصل ہے، رب العالمین ہم سب مسلمانوں کو شب قدر کے فیوض و برکات اور نعمتوں سے فیض یاب فرمائے۔آمین۔