فاطمہ خان
مملکتِ خدادا، پاکستان نظریہ اسلام کے تحت وجود میں آیا۔ جس کی بنیاد اسلام کے رہنما اصول تھے۔ نظریہ کسی بھی قوم کے استحکام کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی و خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے۔ مسلمانانِ ہند برسوں غلامی کے طوق پہنے ہوئے تھے، جب علامہ اقبال کے تصور کے آئینے میں قائداعظمؒ نے نظریہ اسلام کے پیرہن میں نظریہ پاکستان پیش کیا۔ نظریہ پاکستان در حقیقت نظریہ اسلام ہے۔ اسلام دراصل مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس میں اللہ نے معاشی، معاشرتی، مذہبی، سیاسی، ثقافتی زندگی گزارنے سے متعلق رہنمائی فرمائی ہے اور یہی دستور و آئین جو اسلام کا ہے وہی پاکستان کا بھی ہے۔
نظریہ پاکستان کے اہم عناصر کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اقتدارِاعلی اس کا بنیادی ستون قرار پاتا ہے۔ مسلمانانِ ہند نے ایک الگ وطن حاصل کیا تا کہ ایک اللہ کی عبادت کر سکیں۔ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر زندگی بسر کر سکیں۔ نظریہ پاکستان کی بقا کا دوسرا اہم ستون اقتدارِ اعلی کا تصور ہے۔ حاکمیت صرف اس ذاتِ پاک کی عطا کردہ ہے تا کہ اس کے بنائے ہوئے نظام کو دنیا میں رائج کیا جائے۔ انسان اس دنیا میں اللہ کا نائب بن کر آیا ہے، یہ جاہ و جلال عارضی اور اس ذات کا تفویض کردہ ہے۔ مسلمان جب دائرہِ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس بات کا اعتراف کرتا ہے ’’لاالہ الااللہ ‘‘ یعنی کوئی معبود نہیں ماسوائے اللہ کے۔
ہم نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ نظریہ اسلام ہی درحقیقت نظریہ پاکستان ہے تو اس بات میں شک وشبہ نہیں کہ واحدانیت اور اقتدارِ اعلی کا حقیقی مالک اللہ تبارک وتعالی ہے۔ جیسے جیسے تاریخ کی ورق گردانی کریں تو اقتدارِ اعلی کا مالک دنیاوی حکمرانوں کو تصور کیا جاتا رہا ہے اور اسی لیے دنیا جنگ وجدل میں مبتلا رہی۔ اگر اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے تو امن کے پنچھی ہواوں میں جھومتے نظر آئیں گے۔ جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے۔
نظریہ پاکستان کی بقا میں اخوت، معاشرتی عدل و انصاف اور روداری جیسی صفات بھی اپنا کردار ادا کر سکتیں ہیں۔ پاکستان مسلم اکثریت کے علاقوں کو ملا کر بنایا گیا۔ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور بلوچستان مسلم اکثریتی علاقے ضرور تھے لیکن ان علاقوں کے بسنے والے مختلف زبانیں بولنے والے تھے۔ جن کا رہن سہن، رسم ورواج جدا جدا تھے لیکن ان میں ایک چیز مشترک تھی جو کہ دینِ اسلام ہے۔ دین ِ اسلام کے مطابق زندگی گزارنے اور اسلام کے نام پر یہ تمام منفرد خصوصیات کے حامل لوگ ایک پرچم تلے جمع ہوئے۔ ان کے اتحاد نے پاکستان کی بنیادیں مضبوط بنائیں۔ علامہ اقبال نے مسلم امہ کے اتحاد کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی شاعری میں بارہا اس کی اہمیت پر زور دیا۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
آج معاشرتی مسائل میں سرفہرست لسانی مسائل ہیں جو ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں، جس سے پاکستان کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے اور نظریہ پاکستان بھی ماند ہوتا چلا جارہا ہے۔ موجودہ دور افراتفری کا دور ہے، سب اسی دوڑ میں دوڑے چلے جا رہے ہیں اور اقدار اپنی افادیت کھو رہی ہیں۔ پاکستان کی بقا کے لیے ہمیں پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان کی حدود سے باہر نکل کر سوچنا ہو گا۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا یہی اس کی سلامتی کا ضامن ہے اگر مسلمان دین ِ الٰہی کو پسِ پشت ڈال دیں تو زوال کا شکار ہو جائیں گے۔
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیروجواں بے تاب ہو جائے
قائداعظم نے21 مارچ 1948 میں ڈھاکا کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ
’’میں چاہتا ہوں آپ پنجابی، سندھی، بلوچی، پٹھان اور بنگالی بن کر بات نہ کریں۔ یہ کہنے میں آخر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی، سندھی یا پٹھان ہیں، ہم تو بس مسلمان ہیں‘‘۔
قائدؒ کی دوراندیشی قابلِ تحسین ہے کہ آپ نے وقت کی ضرورت اور علاقائی تعصبات سے عوام کو آگاہی دی۔ پاکستانی قوم منتشر ہے اور اسے پھر سے متحد ہونے کی ضرورت ہے تا کہ نظریہ پاکستان اپنی افادیت برقرار رکھے۔
پاکستان کی بقا میں ایک اور اہم عنصر جمہوریت کا فروغ بھی ہے۔ جمہوریت ایک ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں عوامی رائے کا خیال رکھا جاتا ہے۔ عوام کے منتخب نمائندے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالتے ہیں۔ جمہوری اقدار کو فروغ دیا جاتا ہے۔ معاشرے میں توازن پیدا ہوتا ہے اور یوں پاکستان کی بنیادیں مظبوط ہوتی ہیں۔ ملک ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ افراتفری کی صورتحال ختم ہوتی ہے۔
نظریہ پاکستان کی بقا کا براہ راست تعلق نوجوان نسل سے ہے۔ پاکستان کی آزادی میں لاکھوں نوجوانوں نے قربانیاں دیں۔ آزادی کے جس پیڑ کی چھائوں میں آج ہم سکھ کا سانس لیتے ہیں، انہیں نوجوانوں نے اس پیڑ کی آبیاری اپنے لہو سے کی۔ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں، رشتہ داروں کی قربانیاں پیش کیں۔ دن رات وطن کی خاطر ایک کر ڈالے تب جا کر یہ ننھا سا پودا حالات کی آندھیوں سے لڑتا، ڈگمگاتا ہوا آج ایک تناور درخت کی صورت میں موجود ہے۔
علامہ نوجوانوں کو انقلابی تصور کرتے تھے اسی لیے اپنی بہت سی نظموں میں نوجوانوں کو تحریک دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
کبھی اے نوجوانِ مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا ہے تو ٹوٹا ہوا تارا
ایک اور جگہ کہتے ہیں:
عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
نوجوان نسل کا اپنے نظریے سے مربوط رہنا از حد ضروری ہوتا ہے۔ نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلام کی بقا اسی بات میں پوشیدہ ہے۔ اسلام سے وابستگی ہی نظریہ پاکستان کی بقا کا عنصر ہے۔ اسلام ہی وہ منزل ہے جس کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا۔ اگر اسلام سے دوری روا رکھی جائے گی تو نظریہ پاکستان اپنی موت آپ مر جائے گا۔ قرآن پاک اس ضمن میں انسان کی بھرپور رہنمائی کرتا ہے۔
نظریہ پاکستان ایک سوچ ہے، ایک انداز ہے جس کے مطابق ہم نے اپنی نسلوں کی تربیت کرنی ہے۔ بڑے لوگ اپنی قوموں کو بڑے نظریے دیتے ہیں۔ ہمیں بھی ایک نظریہ ملا ہے جس کو روحانی عطا کہا جاتا ہے۔
نظریہ پاکستان کی بقا کے لیے ہمہ وقت ان تمام عناصر کی تکمیل ضروری ہے۔ پاکستان تا قیامت قائم رہے اور اسی آب وتاب کے ساتھ اسلام سے وابستہ رہے۔