زاہد عباس
میری عادت ہے کہ افطار سے فارغ ہوکر تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، اپنے دوستوں کے ساتھ ضرور بیٹھتا ہوں۔ اس طرح نہ صرف دن بھر کی مصروفیات پر بات چیت ہوجاتی ہے بلکہ کسی نہ کسی نئے موضوع پر سہل انگیز گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے۔ معمول کے مطابق آج جب میں گھر سے نکلا تو ہر دوسرا شخص مجھے نور بھائی کے گھر کی جانب جاتا دکھائی دیا۔ اس طرح لوگوں کو اُن کے گھر کی جانب جاتے دیکھ کر میرے دل میں عجیب قسم کے خیالات آنے لگے… خدا خیر کرے، آخر ماجرا کیا ہے! بس یہی سوچتا ہوا میں بھی نور بھائی کے گھر کے سامنے جاپہنچا، جہاں لوگوں کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی۔ اس سے پہلے کہ میں کسی سے کوئی سوال کرتا، میری نظر نور بھائی پر پڑ گئی۔
’’نور بھائی، خیریت تو ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں سب ٹھیک ہے۔‘‘
’’تو پھر یہ لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہوئے ہیں؟ کوئی مسئلہ، کوئی پریشانی وغیرہ تو نہیں؟ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بے فکر ہوکر بتائیں، جو بن پڑے گا ضرور کروں گا۔‘‘
’’ارے نہیں، میرا کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ جاوید اور محسن آپس میں جھگڑ رہے تھے، اس لیے دونوں کو یہاں لے آیا ہوں۔ لوگوں کا تو تمہیں پتا ہی ہے، تماش بین ہیں، ذرا سی تُو تُو مَیں مَیں ہوجائے تو مجمع لگا کر تفریح لینے لگتے ہیں۔‘‘
’’لیکن جاوید تو بڑے ٹھنڈے مزاج کا آدمی ہے، وہ تو گھر سے بھی بہت کم نکلتا ہے، نہ ہی اس کی سنگت خراب ہے۔ ایسے انسان کا لڑائی جھگڑے سے کیا واسطہ! اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہ دونوں دوست بھی ہیں، ان کے درمیان آخر ایسا کیا ہوا جو نوبت یہاں تک آن پہنچی؟‘‘
’’جب تک حقیقت کا علم نہیں تھا، میری بھی رائے یہی تھی۔‘‘
’’کون سی حقیقت؟‘‘
’’جاوید نے کچھ رقم ادھار لے رکھی ہے، پہلے پہل تو میں بھی اسے لین دین کا معاملہ ہی سمجھتا رہا، آج ان دونوں کے درمیان ہاتھا پائی ہونے سے اصل بات کھل کر سامنے آگئی۔ جاوید نے سود پر رقم لی ہوئی ہے اور سود کی قسط ادا نہیں کررہا، محسن چونکہ اس کا ضمانتی ہے اس لیے وہ لوگ جن سے سود پر پیسہ لیا گیا محسن پر دباؤ ڈال رہے ہیں، ایسی صورت میں جھگڑا ہی ہونا ہے۔ دونوں محلے کے بچے ہیں، بس اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں ان کے درمیان ہونے والے تنازعے کو ختم کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کررہا ہوں۔‘‘
’’جاوید اور سود…! نہیں نور بھائی کسی نے ایسے ہی اڑا دی ہوگی۔‘‘
’’ارے نہیں میاں، وہ سودخور جس سے جاوید نے رقم لے رکھی ہے، دھمکیاں دے کر ابھی یہاں سے گیا ہے۔ ایک لاکھ روپے کی رقم، تین ماہ کے سود کی قسطیں 30 ہزار مع جرمانہ وصول کرنے کی بات کررہا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جب تک ایک لاکھ روپے قرض کی رقم واپس نہیں کی جاتی، ہر ماہ 10 ہزار روپے قسط ادا کرنی ہوتی ہے، جبکہ اصل رقم جوں کی توں ہی رہتی ہے۔ میرے لاکھ سمجھانے کے باوجود وہ اپنی ڈیمانڈ سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔ میں جانتا ہوں کہ جاوید غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، اور میں اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہوں کہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا اُس کے بس کی بات نہیں۔ اگر جانے انجانے، یا نادانی میں اُس سے یہ غلطی سرزد ہوگئی ہے تو اس سے پہلے کہ بات مزید خراب ہو، یا خدانخواستہ کوئی بڑا واقعہ ہوجائے، ہمارا فرض ہے کہ ایسے خطرناک لوگوں سے اس بے وقوف کی جان چھڑا دی جائے۔‘‘
نور بھائی کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی، وہ اس مسئلے کو حل کرانے کے لییانتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ ان کی باتیں سن کر مجھے بھی جاوید سے ہمدردی ہورہی تھی۔ اور کیوں نہ ہوتی؟ آخر کو وہ انتہائی شریف النفس انسان ہے، کسی کے لینے دینے میں نہیں، وہ اس گھنائونے کام میں کیسے پڑ گیا، خدا جانے۔ خیر نور بھائی کی باتیں سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ اُن کے بقول محلے میں سود کے کاروبار سے وابستہ افراد کا ایک بڑا نیٹ ورک کام کررہا ہے جو اس مکروہ دھندے کو بڑھاوا دینے کے لیے بے روزگار نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملا رہا ہے، محسن بھی ان نوجوانوں میں سے ایک ہے جسے پرسنٹیج کا لالچ دے کر ساتھ ملایا گیا ہے۔ ظاہر ہے جس نوجوان کو ماہانہ سود وصولی پر اس کا حصہ ملے گا وہ کیوں کر گمراہ نہ ہوگا! نور بھائی کے بقول یہ سودی کاروبار نہ صرف ہمارے محلے، بلکہ سارے ہی شہر میں ہیضے کی وبا کی طرح پھیلتا جارہا ہے۔ خیر خاصی دیر سمجھانے کے باوجود اس سود خور سے جاوید کی جان نہیں چھڑائی جا سکی۔ وہ بضد تھا کہ مجھے اپنی پوری رقم مع جرمانہ چاہیے، بصورتِ دیگر جاوید کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اپنے ارادوں سے وہ انتہائی خطرناک دکھائی دے رہا تھا، اسے رمضان المبارک جیسے بابرکت مہینے کی بھی کوئی پروا نہ تھی، اُس کے نزدیک ہر ایک سوال کا جواب فقط پیسہ ہی تھا۔ ہاتھ میں تسبیح لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کی باتیں کرنے والا وہ شخص اندر سے کسی جانور سے کم نہ تھا۔
شاید سود کے کاروبار سے منسلک تمام لوگ ایک ہی مٹی سے بنائے گئے ہوتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک واقعہ ہمارے دوست ثانی سید نے سنایا کہ ایک زمانے میں ان کے والد کی ورکشاپ تربت میں ہوا کرتی تھی، وہاں ایک شخص گل خان آیا کرتا تھا، وہ اپنی سائیکل کو زنجیر ڈال کر ان کے ورکشاپ میں چھوڑ جاتا۔ جب بھی وہ تربت آتا، اپنی سائیکل لے کر پورے شہر سے سود کی رقم وصول کرتا۔ ایک مرتبہ ثانی سید نے اسے اس کاروبار سے روکتے ہوئے کہا ’’گل خان تم پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہو اور سود کا کاروبار بھی کرتے ہو، تمہیں خدا کا خوف نہیں؟‘‘ اس پر گل خان بولا ’’اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف کردے گا سوائے نماز کے، بس اسی لیے میں نماز بھی پڑھتا ہوں۔‘‘
دیکھی آپ نے اِس کاروبار سے وابستہ افراد کی ذہنیت! یعنی ان کے نزدیک نماز، روزہ اپنی جگہ، اور سود جیسا بدترین کاروبار اپنی جگہ… جبکہ سود کو اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک میں سود کا کاروبار عروج پر پہنچ چکا ہے۔ سود کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح حکم دیا ہے۔ سود کو قرآنِ کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے وہ لفظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں۔ سورۃ البقرہ آیت 278۔279 میں فرمان خداوندی ہے:
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ باقی سود رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو۔ اگر تم نے نہ چھوڑا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے، اور اگر توبہ کرلو تو اصل مال تمھارا تمہارے واسطے ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘
یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ مثلاً زنا کرنے اور شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ مشہور صحابیِِ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفہ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے، اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔ (تفسیر ابن کثیر)
جبکہ سورہ البقرہ 275 میں فرمان ہے ’’جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس کی (باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیاتو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔‘‘
خدا کی جانب سے دئیے گئے واضح احکامات کے باوجود ہمارے معاشرے میں سود ایک کاروبار کی طرح پھیلتا ہی جارہا ہے، جس کے سبب معاشرے کا ہر تیسرا شخص اس گھنائونے کاروبار سے منسلک لوگوں کا ڈسا ہوا ہے۔ انتہائی دکھ کی بات ہے کہ اسلام میں ممانعت ہونے کے باوجود یہ کاروبار ہر آنے والے دن کے ساتھ عروج پکڑ رہا ہے، اور سودی کاروبار کرنے والا مافیا مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جارہا ہے، اس قدر طاقتور کہ ان کے خلاف کوئی بھی محکمہ یا اعلیٰ افسر کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے گریزاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مافیا، ضرورت مند افراد کو ورغلا کر معمولی رقم کے عوض اپنے جال میں پھانس لیتا ہے اور ان کے گھر بار، یہاں تک کہ ان کی عزتوں سے کھلواڑ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ اس مافیا کی جانب سے کی جانے والی ایسی حرکتوں کے باوجود ہمارا قانون ان کے خلاف واقعی اندھا قانون ہی ثابت ہوتا ہے۔ اگر اس مافیا کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہو بھی جائے تو وہ ردی کی ٹوکری کی نذر ہوجاتی ہے۔
اس ساری صورتِ حال میں حکومت کو چاہیے کہ شہر میں پھیلتے اس غیر قانونی اور شریعت کے مطابق حرام کاروبار میں ملوث سود خوروں کے خلاف جنگی بنیادوں پر کریک ڈائون کرے، اور انہیں قانون کے کٹہرے میں لاکر کیفرکردار تک پہنچانے کا سامان کرے، تاکہ نہ صرف بے گناہ افراد کو ان کے چنگل سے آزادی مل سکے، بلکہ وہ موت کے منہ میں جانے سے بھی بچ جائیں۔