اوریا مقبول جان
آج سے ٹھیک سولہ ماہ قبل امریکی افواج کے ہیڈکوارٹر پینٹاگون میں گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع نے امریکی جنگی جنون کے لیے ایک نیا راستہ متعین کیا۔ سترہ سال تک امریکا اور یورپ کے جنگی دماغوں پر صرف اور صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ چھائی ہوئی تھی، لیکن جیمز میٹس نے کہا کہ اب ہماری اوّلین ترجیح روس اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنا ہے۔
گزشتہ تیس برسوں میں پوری دنیا پر تنِ تنہا حکومت کرنے والا امریکا اور یورپ کا اتحاد اب اپنی قوت کھو رہا ہے۔ جنوب میں بسنے والے کمزور و ناتواں ملک بھی اب آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ کیا زمانہ تھا جب افغانستان سے آخری روسی سپاہی قلاب والی سرحد عبور کرکے آنجہانی سوویت یونین واپس لوٹا تھا تو دنیا میں ایک شور مچ گیا تھا کہ اب صرف اور صرف امریکا کی حکمرانی ہوگی۔ صرف چند مہینوں بعد 1989ء میں جاپانی مؤرخ اور دانش ور فرانسس فوکویاما (Francis fukuyama) نے ایک مضمون تحریر کیا جس کا عنوان تھا End of History (تاریخ کا اختتام)۔
افغانستان میں سوویت یونین کی شکست نے کمیونزم کے نظریاتی قبلے روس پر ایسا اثر کیا کہ 1992ء میں اس عالمی قوت کا محل زمین بوس ہوگیا، ہتھوڑے اور درانتی والا سرخ پرچم اتر گیا اور لینن کا مجسمہ گرتے ہی لینن گراڈ پھر سینٹ پیٹرز برگ کہلانے لگا۔ فوراً بعد فوکویاما نے اپنے مضمون کو ایک ضخیم کتاب کی شکل دے دی اور یہ نتیجہ نکالا کہ دنیا میں اب نظریات کا ارتقا ختم ہوگیا ہے، انسان نے تمام نظام آزما لیے ہیں، اور اب صرف مغربی جمہوریت ہی دنیا بھر میں قابلِ قبول اور نافذالعمل طرزِ زندگی ہوگا۔ بادشاہت، فاشزم، مذہبی اقتدار اور کمیونزم جیسے نظریے اب تاریخ کے قبرستان کا حصہ بن چکے ہیں اور انسانی ذہنی ارتقا مکمل ہوگیا ہے۔ اُس دن کے بعد سے اب تک تمام کمیونزم، فاشزم اور مرعوب اسلام کے نظریاتی پرندوں نے امریکا کے تناور درخت پر بسیرا کرلیا۔ اب ہر وہ ملک، فرد یا گروہ جو مغربی جمہوری نظام کا مخالف تھا، دہشت گرد، شدت پسند، گمراہ اور فسادی کہلایا جانے لگا۔ ایک ہی طرزِ حکومت، ایک ہی سودی عالمی مالیاتی نظام اور ایک ہی عالمی قوت۔ لیکن یہ تیس سال، انسانی تاریخ کے خونیں سال تھے۔ کروڑوں بے کس و لاچار انسان لقمۂ اجل بنا دیے گئے، اور کوئی ان کے لیے آواز تک اٹھانے والا نہ تھا۔ حکومتوں پر بیٹھے ہوئے حکمران امریکا اور یورپ کی آشیرباد سے جسے، جس وقت اور جہاں چاہتے کچلتے رہتے۔ بوسنیا میں لاکھوں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا، روانڈا اور صومالیہ کے بازار، کھیت اور صحرا انسانی لاشوں سے پٹ گئے، سری لنکا میں تامل صفحۂ ہستی سے مٹا دیئے گئے، عراق میں کردوں پر کیمیائی ہتھیاروں کی قیامت گزر گئی۔ عالمی قوت کے تخت پر براجمان امریکا اور اُس کے اتحادیوں کو پھر بھی چین نہ آیا تو افغانستان میں اڑتالیس ملکوں کی فوجیں غنڈوں کی طرح چڑھ دوڑیں۔ عراق فتح کرلیا گیا۔ دونوں ملکوں کی سرزمین خون میں نہلا دی گئی۔ لیکن شاید اب بھی پیاس نہیں بجھی تھی۔ شام، مصر، یمن اور لیبیا میں آگ و خون کا بازار گرم کردیا گیا۔ صرف شام میں سات لاکھ لوگ زمین کا رزق بن گئے اور ساٹھ لاکھ بے گھر۔ برما سے آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمان ایسے نکالے گئے کہ پوری مہذب دنیا اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے باوجود اُن کا کوئی وطن نہ تھا۔ لیکن اب یہ پانسہ پلٹنے لگا۔ روس نے جارجیا اور کریمیا کے کچھ حصوں پر قبضہ کرکے انہیں اپنے ساتھ شامل کرلیا، اور یوکرین جو سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد ایک آزاد مغربی ملک بن چکا تھا، وہاں علیحدگی پسندوں کو مسلح کرکے آگ بھڑکا دی۔ اب روس ازاق (Azovc) کے سمندر پر جا بیٹھا اور برطانیہ کے بھگوڑوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی جمہوریتوں کے خلاف اس نے سائبر جنگ بھی شروع کردی۔
ادھر چین نے اپنے جنوبی سمندر میں آزادانہ کشتی رانی روکنا شروع کردی۔ یہاں تک کہ کینیڈا کے شہریوں کو پکڑ لیا اور اُن سے لمبی پوچھ گچھ کی گئی۔ لیکن ان تمام ممالک کو امریکا کو آنکھیں دکھانے کی جرأت اُسی وقت ممکن ہوئی جب وہی افغانستان، جو کل سوویت یونین کی طاقت کا قبرستان بنا تھا، آج اس واحد عالمی طاقت امریکا اور اُس کے اڑتالیس طاقتور حواریوں کی ذلت و رسوائی اور جگ ہنسائی کا سامان بن گیا۔ رہی سہی عزت کو بچانے کی بھیک مانگتا ہوا امریکا اسی روس… جس کو وہ کبھی 1992ء میں اقتصادی امداد کے پیکیج پیش کررہا تھا… کے سامنے درخواست گزار تھا کہ طالبان کو اپنے ہاں بلاکر ہمیں افغانستان سے عزت سے نکلنے کا موقع فراہم کرے۔
پاکستان، جسے کبھی دھمکی دی جاتی تھی، اُسے ’’امن کے راستے کا مسافر‘‘ کہا جانے لگا۔ دہشت گردی کے خلاف چھیڑی گئی سترہ سالہ جنگ اب امریکی ترجیح نہیں ہے۔ اب صرف ایک ہی ترجیح ہے کہ کیسے دنیا پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا ہے، اور کس طرح چین اور روس کو واپس اُن کے اپنے ملکوں تک محدود کردینا ہے۔ ہر جنگ کے لیے ایک بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ پہلی جنگِ عظیم میں بوسنیا کے شہزادے کے قتل کے بہانے سے لے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے افغانستان جیسے وسائل سے محروم ملک میں اسامہ بن لادن کی موجودگی ایک بہانہ تھا۔ اب کیا بہانہ بنایا جائے گا؟ سترہ سال ایران نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کے دوران امریکا سے اپنے خفیہ معاشقے کے مزے لیے تھے، اب اُسی ایران کو بہانہ بناکر ایک نیا میدانِ جنگ سجایا جارہا ہے۔ ایک سال قبل ایران سے وہ تمام معاہدے توڑ دیے گئے جو اُسے بظاہر اتحادی بناتے تھے، لیکن اسے عراق اور شام میں خفیہ طور پر کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا جاتا رہا۔ پاسداران اور حزب اللہ نے ان دونوں ملکوں میں امریکا کے شانہ بشانہ مسلمانوں کے خون کے دریا بہائے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اب اسرائیل کی سرحد سے لے کر آبنائے ہرمز کے ساحلی علاقوں تک ایران کا کوئی مدمقابل نہ تھا۔
آبنائے ہرمز، یہاں ایران کی بلا شرکت غیرے بادشاہت کیسے برداشت کی جا سکتی ہے! یہ دنیا کی ٹیکنالوجی کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنے والے تیل کی سب سے بڑی گزرگاہ۔ اس وقت روزانہ چار ارب ٹن خام تیل پیدا ہوکر دنیا کو سپلائی کیا جاتا ہے جس میں سے پچاس فیصد سمندر کے راستے اور باقی پچاس فیصد پائپ لائنوں کے ذریعے۔ اس پچاس فیصد میں سے 35 فیصد آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے جو روزانہ سترہ ملین بیرل تیل بنتا ہے۔ یہ آبنائے صرف اور صرف چالیس کلومیٹر چوڑی ہے، اور یہاں اگر ایک جہاز کھڑا کردیا جائے یا کھڑے کھڑے تباہ کردیا جائے تو یہ راستہ بند ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کا دوسرا راستہ ملائشیا اور انڈونیشیا کے درمیان آبنائے ملاکا کا ہے جو صرف ڈیڑھ میل چوڑی ہے، اور وہاں سے 15 ملین بیرل تیل روزانہ گزرتا ہے۔ اب آبنائے ہرمز پر امریکی جنگی جہاز آرلنگٹن پہنچ چکا ہے جس پر میزائل شکن پیٹریاٹ بھی نصب کردیے گئے ہیں، جبکہ دوسرا امریکی جنگی جہاز لنکن اسی جانب روانہ ہے۔ قطر کے امریکی اڈے پر بی 52 بمبار طیارے آچکے ہیں اور گزشتہ چھ دنوں سے ایران کی سرزمین سے ایک بیرل تیل بھی باہر نہیں جا سکا۔ ایسے میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو روس سے بھاگ کر یورپی یونین کے ہیڈکوارٹر برسلز پہنچا تاکہ جنگ کو مزید ہوا دی جائے، اور اگلے ہفتے جاپان میں جی ایٹ کانفرنس اس آگ میں مزید اضافہ کرسکتی ہے۔
کیا ایران پر حملہ ہوگا؟ یا پھر ایران کو سعودی عرب اور گلف کی ریاستوں سے لڑایا جائے گا؟ جس کا امکان اس لیے زیادہ ہے کہ ایران پہلے ہی ان سے چھیڑ چھاڑ جاری رکھے ہوئے ہے۔ دنیا اس جنگ کو تیسری عالمی جنگ کا آغاز کہہ رہی ہے۔ وہ جو اپنے حالاتِ حاضرہ بھی قرآن و احادیث کی روشنی میں پرکھتے ہیں انہیں علم ہے کہ میرے آقا مخبرِ صادق صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اسی بحری ناکہ بندی کی خبر دیتے ہوئے اسے آخری بڑی جنگ کا آغاز کہا تھا۔ حضرت کعبؓ سے روایت ہے ’’مشرقی سمندر دور ہوجائے گا اور اس میں کوئی کشتی نہ چل سکے گی، چنانچہ ایک بستی والے دوسری بستی نہ جا پائیں گے، اور یہ ملحم الکبریٰ یعنی جنگِ عظیم کے وقت ہوگا۔‘‘ (سنن وردۃالفتن)۔ ابھی صرف ایران کی کشتیاں رکی ہیں، جب مکمل ناکہ بندی ہوگی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا ملحم الکبریٰ کا وقت آن پہنچا ہے۔