نجات

463

نگہت یاسمین
گہرے بادلوں سے ڈھکے آسمان نے کرۂ ارض کو دھندلا رکھا تھا۔ گنجان انسانی آبادی کے علاقوں پر رات کے پچھلے پہر کا سناٹا طاری تھا ۔ اچانک کائنات کے گوشے گوشے سے نغمہ سرمدی پھوٹ پڑا۔ رب ذوالجلال اپنے پسندیدہ بندوں کی مناجات، آہ وزاری سننے کے لیے متوجہ تھے۔ ’’ہے کوئی نجات، مغفرت اور رحمت مانگنے والا‘‘۔ منادی کی گونج نے تمام مخلوقات کو حیرت زدہ کردیا، رب ِرحمان کے حمدیہ ترانے فضا میں تیرنے لگے۔ انسانی خدمات پر مامور ملائکہ اپنے رب کی رحمتوں، مغفرتوں کے تحائف لیے زمین پر جوق در جوق اتر رہے تھے۔ صحت، درازیِ عمر، رزق، علم، توفیق اور توبہ کے بھرے طباق لیے آسمانوں سے محوِ پرواز تھے۔
مگر ایسے میں اہلِ زمین کی کارکردگی پیش کرنے والے فرشتے دل گرفتہ اور ملول تھے۔ انسان شیطانوں کا روپ دھار چکا تھا۔ برما میں بودھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھوں کلمہ گو مسلمانوں کے سفاکانہ قتلِ عام پر آسمانوں تک سوگواری پھیل گئی۔ دمشق اور اس کے گرد ونواح میں امتِ مسلمہ جس ابتلاء سے گزر رہی تھی اس کا تصور بھی محال تھا۔ تاحدِّ نگاہ غارت گری کے سوا کچھ نہ تھا۔ اسلام کے قلعہ پاکستان میں امن اور انصاف سے محروم معاشرہ انتشار کی راہ پر گامزن تھا۔ جلیل القدر پیغمبر یوسف ؑکی سرزمین مصر انتہائی خونریزی کے بعد قدرے پُرسکون تھی۔ طلوعِ انقلاب کی خوش خبری کے سوا ہر سمت سے فسق و فجور کی اطلاعات ربِ کائنات کے حضور پیش کرنے میں خوف اور ادب مانع تھا۔
’’آنے والی مبارک ساعتوں میں، جشنِ نزولِ قرآن کی خوشی جو سات آسمانوں تک منائی جاتی ہے، اہلِ زمین پر طلوعِ ہلال کے ساتھ عذاب کا فیصلہ صادر نہ ہوجائے، امن اور خوشحالی کے بجائے فساد اور تنگی نہ مسلط ہوجائے، سبوح قدوس ایسا کبھی نہ ہو۔‘‘ملائکہ گڑگڑا رہے تھے۔
زمین میں ہر جگہ فساد برپا دیکھ کر کون خوش ہوتا، سوائے گروہِ ابلیس کے! سو ایسا ہی تھا۔ کائنات کے سیاہ گڑھوں میں ابلیس کے شاگردوں کا اجتماع برپا تھا۔ چھوٹے، منجھلے اور بڑے ہر شیطان کی باچھیں کھلیں جارہی تھیں، مگر صدارت کی نشست پر براجمان شیطانِ بزرگ سر پکڑے بیٹھا تھا۔ پھر انتہائی کریہہ آواز فضا میں پھیل گئی ’’یقینا تم سب کی کارکردگی شاندار ہے، مگر ابھی بہت کام باقی ہے…‘‘ پچھلی نشستوں سے ایک جلد باز ابلیس تن کر کھڑا ہوگیا ’’آپ کی فکرمندی بلا جواز ہے، میں گزشتہ دنوں استقبالِ رمضان کی تیاریوں کا جائزہ لے کر آرہا ہوں‘‘۔ ’’ایک مہینے کے لیے معمولات کون بدلے!‘‘ نوجوان لڑکی نے تذکیر پر ہاتھ ہلاکر جواب کیا دیا ہمیں فراغت کے لمحات بخش دیے۔ اس کے بعد تو سب کا خیال یہی بن گیا۔‘‘
اسٹیج سے چیخ بلند ہوئی ’’کوئی ہے جو اس… کو خاموش کرائے؟‘‘ شیطانی مجلس میں گالی گفتارکے سوا زبان کیا پیش کرتی! ماحول مزید پراگندہ ہوگیا۔ پھر مجمع چبوترے کے پیچھے اسکرین پر ابھرنے والی متحرک شبیہ میں گم ہوگیا۔ منظر میں بیچ سڑک پر اوندھے منہ گری فقیرن کو اٹھانے تیزی سے گزرتی گاڑیوں کے درمیان سے لڑکی آگے آئی،کچھ سواریوںکے بریک چرچرائے، کچھ تیز ہارن بجے، پھر مددگار لڑکی نقاہت کی ماری بھیک منگی کو کنارے لگا کر پیچھے سے آنے والی بس میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا۔
’’اللہ تیری حفاظت کرے‘‘۔ دعا کے الفاظ ضعیفہ کے سوکھے لبوں سے ادا ہوئے اور دھواں اڑاتی بس نادیدہ فرشتوں کے پروں تلے آگئی۔ بے صلہ نیکی کا بدلہ اس سے بڑھ کے اور کیا ہوتا۔
’’ارے یہ تو وہی لڑکی ہے! اف!!‘‘جلد باز شیطان کی مایوس سرگوشی بلند ہوئی۔ ’’مگر کوئی بات نہیں، اپنے اوقات ضائع کرنے میں طاق ہے‘‘۔ الفاظ کے ساتھ منظر بدل گیا ۔
لڑکی بستر پر بیٹھی آہستگی سے لیپ ٹاپ پر انگلیاں مار رہی تھی جیسے اس کا دل نہ چاہ رہا ہو۔ آج سڑک پرانسانی وجود کی کمزوری، بے وقعتی نے اسے الجھن میں مبتلا کردیا تھا کہ ایک اشتہار پر نظریں جم گئیں۔ اسلامی ریلیف کی طرف سے تباہ حال مسلمانوں کے لیے امدادی کاموں کی تفصیلات کے بعد مالی امدادکا مطالبہ تھا، ساتھ ہی رمضان کی مقبول ساعتوں میں رجوع ِقرآن کے ساتھ دعائوں کی استدعا۔ ’’آخر دنیا بھر میں صرف مسلمان ہی کیوں برباد و رسوا ہیں؟‘‘ اس کے ذہن میں نامور محقق کا تضحیک آمیز مباحثہ گونجا۔ مگر اسکرین پر موجود تصاویر کہانی کا دوسرا رخ بھی دکھا رہی تھیں۔ بے گور و کفن جھلسے لاشے، فضا میں منڈلاتے گدھ، بلکتے ہوئے بچے، جلی ہوئی جھونپڑیاں، گھُٹے ہوئے سروں والے عدم تشدد کے پرچارک بھکشوئوں کی فاتحانہ مسکراہٹ، حکمرانوں کی عیش پرستی اور ملّتِ کفر کے منصوبے۔
’’کیوں ناں اپنی اصل کی طرف لوٹ کے دیکھوں؟‘‘ اس کے دل نے بے دھڑک فیصلہ دیا۔
’’نہیں نہیں، پابندیوں کو کون برداشت کرے؟ اس وقت جاگو، اس وقت سوئو، یہ لباس نہ پہنو، فلمیں، کارٹون نہ دیکھو… اپنی کوئی مرضی نہیں چلتی‘‘۔ وسوسے نے سر اٹھایا۔ اندرونی کشمکش کے آثار چہرے پر جھلکنے لگے۔ پھرنہ جانے وہ کیا سوچ کر جھٹکے سے اٹھی اور ماں کے پاس چلی گئی، جھجھکتے ہوئے رمضان کے چاند کی بابت پوچھا، روزہ رکھنے کا عندیہ دیا۔ حیرت زدہ ماں نے اسے غور سے دیکھا اور لپٹالیا ’’میری بچّی‘‘۔
ادھر ظلمات کدہ سے ہولناک گریہ و زاری بلند ہوئی، جلد باز ابلیس بالوں کو نوچتا، سر میں خاک ڈالتا بالآخر زمین میں لوٹنے لگا۔
’’ہماری کوششیں یوں رائیگاںکب تک؟ شیطانِ اعظم دہائی ہے‘‘۔ ایک دوسرا ابلیس احتجاجاًَ کھڑا ہوگیا۔
’’کم عقلو! تمہارا خیال ہے کہ انسان ہمارے لیے آسان شکار ہے؟ سو جتن کرو، خوشنما جال بچھائو، پھر بھی وہ بچ نکلتا ہے۔ بیشک جلد بازی اس کی سرشت میں داخل ہے، مگر درِتوبہ کا کھلا ہونا اس کے حق میں ہے۔‘‘
’’جائو، چاروں طرف پھیل جائو۔ انسان کے گرد گھیرا تنگ کردو اور رحمت و نجات سے کوسوں دور کردو۔ ذرّے ذرّے سے موسیقی پھوٹے تاکہ وہ قرآن کی تلاوت کرنے اور سننے سے محروم رہے۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، شاید اگلے چوبیس گھنٹے بھی نہیں۔ ویران مسجدوں میں نمازیوں کی صفیں کھڑی ہوجائیں گی۔ نزولِِ فرقان کی خوشی میں بندشیں ہمارا مقدر ہیں۔‘‘ محفلِ ابلیس منتشر ہوگئی، مگر کرب و یاسیت کے ساتھ۔
ادھر ملائکہ بنی نوع ِانسان کے کرتوت رب کے آگے پیش کرتے ہوئے ہچکچا رہے تھے۔ روبرو ہاتھ باندھے نگاہیں جھکائے خاموش کھڑے تھے کہ ندائے الٰہی نے حاضر و غائب کو اپنی گرفت میں لے لیا:
’’خوف نہ کھائو… میرے بندوں کے احوال بیان کرو۔‘‘ قدوسی رکوع اور سجود میں چلے گئے۔
’’کیا میں تمہارے دفتر (ریکارڈ)کے بغیر نہیں جان سکتا! مجھے اپنے بندوں کی آہ وزاری، گداز کتنا پسند ہے‘‘۔ ملائکہ لرزگئے۔
’’بارِالٰہ، علیم وخبیر آپ کے بندے متفرق حالتوں میں ہیں۔ معاف کردیں تو آپ غفورالرحیم ہیں، جو حساب لیں تو قدیر ہیں۔ مزاروں، درگاہوں، تکیوں پر سجدہ ریز مخلوق شرک کی مرتکب ہورہی ہے۔ دنیا کی امامت سیاہ کار انسانوں کے ہاتھ میں ہے۔ انتہائی قلیل نوعِ بشر تیرے دین کی سربلندی کے لیے سرگرداں ہے، امتِ مسلمہ کی بے توقیری پر تڑپ رہی ہے، ظلم و جبر کے خلاف طاغوت کے آگے سینہ سپر ہے، اس پہر سر بہ سجود آپ کی رحمت کی طلب گار ہے۔ نجات کی خواہش مند ہے۔‘‘
’’تمہیں علم نہیں کہ میری رحمت غضب پر غالب ہے۔ سب کی مہلتِ عمل دراز ہو، شاید کہ وہ میری طرف پلٹ آئیں۔‘‘
’’بے شک ایسا ہی ہے‘‘۔ فضا مناجات سے معمور ہوگئی۔
’’اور جو میری رضا کے لیے جھولیاں پھیلائے ہوئے ہیں، اُن کی مناجات کو قبولیت کی سند ہے، ان کی کوششیں بار آور ہیں‘‘۔ غفلت پر ماتم کناں عالمِ ملکوت ربِّ رحیم کے اعلان پر مسرت و شادمانی سے جھوم اٹھے۔ آسمان بھی قدرت کی فیاضی پر پھوار برسانے لگا۔ ڈوبتے ستارے مسکرائے۔ روئے زمین پر اہل ِدل ابرکرمِ کو رحمت ِ ایزدی کا اشارہ جان کر آنسو بہاتے تسبیح وتقدیس میں مشغول ہوگئے۔

حصہ