غم کا علاج

397

بلال شیخ
ظلم، دھوکے بازی، فتنہ فساد، قتل و غارت ہمیشہ سے انسانوں میں عام رہے ہیں اور انسانیت کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ جو محبت کرے وہ معصوم اور جو بے وفائی کے زخم سہے وہ مظلوم کہلاتا ہے۔ ایک انسان اپنے رشتوں،دوستوں اور عزیزوں سے نیکی کر کے بھی ان کی بے رخی کا نشانہ بن جاتا ہے اور یہ بے رخی وہ اپنے دل میں دبالے تو غم پیدا ہوتا ہے جو اسے دنیا کے ہر معاملے میں باغی کر دیتا ہے اور باغی انسان پھر نہ تو اپنی زندگی کی پروا کرتا ہے اور نہ کسی کی۔ جب میرے ایک عزیز کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا تو میرے دل میں اس واقعے کی تکلیف بھی تھی اور سوال بھی تھا اور میں نے یہ سوال اپنے محسن اپنے استاد کے سامنے رکھ دیا۔
ہر بار کی طرح سوالوں نے مجھے جکڑا ہوا تھا میں نے ان سے پوچھا ’’انسان جب محبت کرتا ہے تو وہ اگلے کے دل کا حال نہیں جانتا، انسان جب نیکی کرتا ہے تو اس نیکی کا اجر نہیں مانگتا اور انسان جب بھی کوئی اصلاح کا کام کرتا ہے تو وہ اس کے بدلے میں کبھی ایسا نہیں مانگتا کہ اسے غم ملے یا اسے بے وفائی ملے مگر جب دنیا اچھے کو نچوڑ کر اس کی اچھائی سے فیض حاصل کر لیتی ہے تو اس کو غم کی بوری میں ڈال کر قبرستان میں پھینک دیتی ہے، انسان کا اس غم سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے مگر میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کیسے اس سے چھٹکارا حاصل کرے کہ وہ زندگی میں واپس آ سکے‘‘ میں خاموش ہوا تو وہ ایک لمبی سانس لے کر بولے۔
’’دنیا داری میں جہاں اچھائی ہے وہاں برائی بھی ہے یہ دونوںہر انسان میں پائی جاتی ہیں اور یہ دنیا میں اپنی اپنی جگہ احسن طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ ہر عمل کا صلہ آخرت میں ضرور ملتا ہے اچھائی کا ہو یا برائی کا غم میں انسان اپنا غم دوسروں کو بتا کر کم کر سکتا ہے مگر ختم نہیں کر سکتا‘‘ وہ رکے تو میں نے فوراً کہا ’’تو وہ غم کیسے ختم کر سکتا ہے‘‘ اس سوال کے بعد مجھے ایسا لگا کہ مجھے ایسا جواب ملے گا جو کہ دنیا کے سارے غموں کو دھو دے گا اور ایک ایسا ہتھیار میرے ہاتھ لگنے والا ہے جو میں ساری دنیا میں سپلائی کروں گا۔
وہ بولے’’جب بھی غم آ کر تمہیں اپنی گرفت میں لے لے اور بیان نہ کر سکو، ظالم اپنا ہو، درد دینے والا قریبی ہو، دوستی کا دعویٰ کرنے والا دشمنی پر اتر آئے، ہاتھ سے لے کر کھانے والا آنکھیں دکھانے لگے تو میرے بچے صبر کرنا‘‘ میں صبر کا لفظ سن کر حیران ہوا اور حیرانی سے ان کا چہرہ دیکھ رہا تھا اور وہ اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھے‘‘۔ صبر کوئی چھوٹی چیز نہیں ہے یہ بہت بڑا ہتھیار ہے اور صابر کو صبر تب ہی ملتا ہے جب وہ طلب کرتا ہے اپنے پروردگار سے تب اس کے غموں کے بدلے صبر جیسی نعمت سے نوازا جاتا ہے۔ قران میں بار بار صبر کی تلقین کی گئی ہے جب انسان صبر حاصل کر لیتا ہے تو اللہ اس کے ساتھ ہو جاتا ہے اور جب اللہ صابر کے ساتھ ہو جاتا ہے تو اس کے معاملے اس کے نہیں اللہ کے ہو جاتے ہیں اور پھر اس کے اندر برداشت کی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور صابر کے لیے قران میں خوشخبری بھی ہے۔ اولاد کا غم، رشتوں کے چھوٹ جانے اور معاشرے کے ظلم و ستم ان سب حالات میں انسان اگر کچھ نہ کر سکے تو صبر کرے اور یہی اس کے لیے بہتر ہے اور اسی میں اس کی فلاح ہے‘‘ میں نے ان کی بات کو اپنے ذہن کی لائبریری میں محفوظ کیا اور ان کو سلام کر کے وہاں سے چلا آیا۔
اس دن کے بعد میں صبر کے فلسفے کو سمجھ گیا تھا اور یہ جان گیا تھا کہ زندگی کے ہر امتحان میں کامیابی نہیں ملتی، شاباشی نہیں ہوتی، نتیجہ خوش نہیں ہوتا مگر صبر آپ کو آگے جانے اور نئے راستے تلاش کرنے میں مدد ضرور کرتا ہے۔ یقین مانیے جب انسان کو صبر کا نظریہ سمجھ آجائے تو اس کے لیے زندگی بہت بڑی کامیابی بن جاتی ہے۔ غم اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ صبر ایک دولت ہے ایک ایسا ہتھیار ہے جو زندگی کے ہر معاملے میں اس کے دل کی حفاظت کرتا ہے۔ جب بھی انسان صبر کو دوست بنا لے گا تو وہ اللہ کا دوست بن جائے گا ہر دکھ درد تکلیف کے بعد ایک نئی زندگی شروع کرے گا۔

حصہ