رہنمائی

492

آمنہ آفاق
’’ایک ہی تو دوست ہے میری، اور آپ چاہتی ہیں کہ میں اس کو بھی چھوڑ دوں!‘‘ مسکان نے بڑی بے چارگی والا منہ بنا کر اپنی آپی کو جواب دیا۔
’’میری چندا! میں نے یہ کب کہا کہ تم اپنی دوستی ختم کردو، میں تو صرف اس کی رہنمائی کرنے کے لیے کہہ رہی ہوں۔‘‘ رخسار آپی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں تو اس طرح وہ برا نہیں مان جائے گی؟ اور مجھے زمانۂ قدیم کی بوڑھی سمجھنے لگ جائے گی۔ میں تو نہیں کہہ رہی اس کو ایسا۔ آپی اب زمانہ بدل گیا ہے، زمانے کے ساتھ چلنا سیکھیں آپ بھی۔‘‘ مسکان نے الٹا آپی کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’دیکھو مسکان اپنی دوست کو سب کے سامنے نہیں بلکہ اکیلے میں اپنی بات سمجھائو گی تو وہ ہرگز برا نہیں مانے گی، اور اگر تمہاری بات اُسے بری لگے تو معذرت کرلینا۔‘‘ رخسار آپی نے اس کا حوصلہ بڑھایا تو اس نے ثناء سے بات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ ’’یہ رخسار آپی بھی ناں ایک چیز کے پیچھے پڑ جائیں تو اس پر عمل کروا کر ہی دَم لیتی ہیں‘‘۔ اس نے دل میں سوچا اور اندر ہی اندر ایسے الفاظ کا چنائو شروع کردیا جن سے اس کی عزیز دوست کی رہنمائی بھی ہوجائے اور اس کو برا بھی نہ لگے۔
’’کیا سوچ رہی ہو مسکان؟‘‘ ثنا نے لنچ بریک میں اپنی پیاری سی دوست کو ٹھوڑی پر ہاتھ رکھے سوچوں میں گم دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا۔
’’ہونہہ! کچھ نہیں، ایسے ہی۔‘‘ مسکان نے ہڑبڑاتے ہوئے جواب دیا۔
’’ایسے ہی، ویسے ہی، کچھ بھی نہیں… میں بریک کے بعد سے تمہیں گم سم دیکھ رہی ہوں، کیا ہوا ہے؟ بتائو ناں۔‘‘ ثنا نے ضد کی تو مسکان نے کہا ’’بتائوں گی، ضرور بتائوں گی، پہلے یہ بتائو کل کہاں گئی تھیں گھومنے اکیلے اکیلے؟‘‘
ثنا کے چہرے پر گہری سی مسکراہٹ پھیل گئی ’’تمہیں پتا نہیں چلا، میں نے فیس بک پر تصاویر شیئر کی تھیں، تم نے نہیں دیکھیں کیا؟‘‘ ثنا نے برا مناتے ہوئے کہا۔
’’دیکھی تھیں، تم زیادہ تر جو بھی تصویر اَپ لوڈ کرتی ہو اس میں پیزا، کولڈ ڈرنک، برگر کے علاوہ ریسٹورنٹس کی وہ تمام مزے دار چیزیں ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر منہ میں پانی بھر آئے، یا اس کے علاوہ نت نئے فن لینڈز‘ پارکس وغیرہ۔ کہاں سے دریافت کرتی ہو بھئی؟‘‘ مسکان نے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھا تو ثنا نے جاندار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’بس ڈیئر میں چاہتی ہوں جہاں میں جائوں وہ جگہ تم لوگوں کو بھی گھما دوں، اور یقین کرو یہ جو معروف ریسٹورنٹس کے آئٹمز میں اَپ لوڈ کرتی ہوں اس پر اتنے یمی یمی کمنٹس آتے ہیں کہ مزا آجاتا ہے، بس اب مجھے ہر وقت ہوٹلنگ کرنے کا دل چاہتا ہے۔ وہاں جائوں، گھوموں، پھروں اور پھر تصاویر شیئرکروں۔ بس جیسے ہی کسی نئی جگہ کا پتا چل جاتا میں وہاں جاتی ہوں، بہت لطف اندوز ہوتی ہوں اور تم لوگوں کو بھی تو لطف حاصل کرواتی ہوں۔‘‘
’’ہاں! رخسار آپی نے بھی دیکھی تھیں، مگر پھر انہوں نے مجھے ایک حدیث سنائی تو میری سوچ بدل گئی۔‘‘
’’اچھا، کون سی حدیث بھئی؟‘‘ ثنا نے کولڈ ڈرنک کا سپ لیتے ہوئے پوچھا۔
’’وہی کہ اگر تمہیں کوئی بھی نیا پھل میسر ہو تو اُس کے چھلکے بھی باہر نہ پھینکے جائیں، مبادا تمہارا پڑوسی ان کو دیکھ کر رنجیدہ ہوجائے… اور یہاں ہم فیس بک کی دنیا میں اس حدیث کی بھرپور طریقے سے نفی کرتے نظر آتے ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے حالات ان کو نت نئے ذائقے چکھنے کی اجازت نہیں دیتے، یا وہ اپنے بچوں کو پارک میں نہیں لے جاسکتے، تو ایسے میں ایسی پوسٹس سے وہ لوگ بھی دکھی ہوتے ہوں گے ناں۔‘‘ مسکان نے ثنا کے تاثرات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’کم آن مسکان! زمانے کے ساتھ چلنے والی بنو، اگر ایک ایک بات کی تحقیق کرنے بیٹھے تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔‘‘ ثنا نے مسکان کی بات ہوا میں اڑا دی۔
’’زمانے کے ساتھ چلنے سے کس نے منع کیا ہے؟ زمانے کے ساتھ چلو مگر دین سے دوری اختیار نہ کرو۔ مجھے تم عزیز ہو، اس لیے جہاں مجھے ضروری لگا میں نے تمہاری اصلاح کی کوشش کی ہے، بس تم گھر جاکر سوچنا ضرور کہ یہ زمانہ وہاں ساتھ نہ دے گا جہاں صرف اعمال کی ضرورت ہوگی، اور اس کے ساتھ چلنے کے چکر میں کہیں ہم اپنی آخرت نہ برباد کرلیں۔‘‘
لنچ بریک ختم ہوچکا تھا، مسکان اٹھ کر جاچکی تھی، مگر ثنا وہیں بیٹھی رہ گئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ میری دوست کی رہنمائی نے مجھے کھائی میں گرنے سے بچا لیا‘ اللہ تیرا شکر ہے۔

حصہ