سکھائے کس نے اسمٰعیل کوآدابِ فرزندی

1248

قدسیہ ملک
امریکی ریاست کیلی فورنیا کا مشہور واقعہ ہے۔ ایک خاتون تھی، اس کا ایک بیٹا تھا۔ خاتون نے بہت محنت مشقت کرکے بچے کی پرورش کی۔ وہ بچہ بڑا ہوا تو اس نے ایک کتا پالا۔ وہ اس کتے کے ساتھ ہی وقت گزارتا۔ کبھی ماں کے پاس بیٹھنا تو دور کی بات، اسے دیکھتا بھی نہ تھا۔ ماں بیٹے کو دیکھنے کے لیے ترستی رہتی، لیکن بیٹا اپنا سارا وقت اس کتے کے ساتھ گزارتا۔ ایک دن ماں نے بیٹے سے شکایت کی کہ تم میرے پاس آتے نہیں ہو، تھوڑی دیر میرے پاس بیٹھ جایا کرو۔ تو بیٹے نے جواب دیا: میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں جو آپ کے ساتھ گزاروں۔ ماں نے غصے میں آکر بیٹے پر مقدمہ کردیا کہ بیٹا مجھے وقت نہیں دیتا، مجھ سے بات نہیں کرتا، ہر وقت کتے کے ساتھ لگا رہتا ہے، عدالت حکم دے کہ یہ اپنے وقت کے تین حصوں میں سے ایک حصہ اپنی ماں کے ساتھ گزارا کرے۔ اب سنیے کہ عدالت نے کیا کہا۔ عدالت نے کہا کہ نوجوان بالغ ہے اور وہ اپنا اچھا برا جانتا ہے، یہ جس طرح رہے، ہم اس پر کوئی حکم عدالت کی طرف سے صادر نہیں کرسکتے۔
یہ تو بات ہوگئی مغربی دنیا کی۔ آئیے دیکھتے ہیں مشرقی دنیا کی کیا صورتِ حال ہے۔
مشرقی دنیا کی صورتِ حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ آج کل ہر ماں کا یہی دکھڑا ہے کہ میری اولاد میری بات نہیں سنتی۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے کہ اولاد والدین کی باتوں کو اہمیت نہیں دیتی؟ والدین نافرمان اولاد کا رونا روتے ہیں؟ والدین اگر بچوں کو اُن کے بچپن سے ہی ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل جیسے مواد سے ایک حد تک دور رکھتے تو آج بدزبانی نہ ہوتی، بے حیائی نہ ہوتی۔ ہماری نسلِ نو کو میڈیا کے غلط استعمال سے بچانے کی اگر شروع سے کوشش کی جاتی تو ایسا ممکن ہی نہ ہوتا کہ اولاد بڑی ہوکر اللہ کی نافرمان، نبیؐ کی نافرمان، یا والدین کی نافرمان ہوتی۔ مثل مشہور ہے کہ ’’جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے‘‘۔ لہٰذا والدین کی خدمت و فرماں برداری اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا یہ نقد صلہ بھی ان شاء اللہ ضرور ملے گا کہ ان کی اولاد فرماں بردار اور حسن سلوک کرنے والی ہوگی۔ اگر ہم اپنے اسلاف کو دیکھیں تو والدین کی خدمت اُن کی اوّلین ترجیحات میں شامل تھی۔ حضرت معین الدین چشتیؒ کا واقعہ ہم سب جانتے ہیں کہ کس طرح وہ پوری رات اپنی ماں کے پلنگ کے سرہانے گلاس اٹھائے کھڑے رہے۔ حضرت اویس قرنیؒ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنی بوڑھی والدہ کی خدمت ہی کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکے تھے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدہ کا فرماں بردار اور خیرالتابعین فرمایا، نیز یہ بھی فرمایا کہ وہ اگر کسی بات پر قسم کھالیں تو اللہ اُن کی قسم پوری فرمائے گا۔ اسی طرح ان کے مستجاب الدعوات ہونے کی بشارت دیتے ہوئے یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ وہ تمہارے پاس آئیںگے، تم میں سے جس کی ملاقات بھی ان سے ہو وہ ضرور ان سے مغفرت کی دعا کروائے (تفصیل کے لیے دیکھیے صحیح مسلم)۔ یہ مقام و مرتبہ انہیں ظاہر ہے والدہ کی خدمت و فرماں برداری کی وجہ سے ملا تھا۔ اسی طرح حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا واقعہ ہم سب کی یادداشت میں محفوظ ہے، اسی واقعے سے متاثر ہوکر علامہ اقبال نے کہا تھا:

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمٰعیل کو آدابِ فرزندی

یہ تفصیلی واقعہ بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر کئی کتب احادیث میں منقول ہے: پچھلے زمانے میں تین افراد کہیں جارہے تھے، اچانک بارش شروع ہوگئی۔ انہوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ کچھ ہی دیر میں ایک چٹان اوپر سے لڑھک کر اس طرح گری کہ غار کا راستہ بند ہوگیا۔ اب ان لوگوں کے باہر نکلنے کی کوئی صورت نہیں تھی، کیونکہ وہ مضبوط چٹان راستے سے ہٹانا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ انہوں نے باہم مشورہ کرکے اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور وہ مضبوط چٹان راستے سے ہٹ گئی اور وہ لوگ باہر نکل آئے۔ ان تین افراد میں سے ایک نے اپنے بوڑھے والدین کی خدمت ہی کے حوالے سے دعا کی تھی۔
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اجرو ثواب میں زیادہ تیز رفتار بھلائی (والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک والی) نیکی اور صلہ رحمی ہے، اور سزا میں تیز رفتار برائی سرکشی (ظلم و زیادتی اور بدکاری) اور قطع رحمی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ/ مسند ابی یعلی)
والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک رزق و عمر میں اضافے کا سبب ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے، اُسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے اور رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کرے۔ ایک حدیث میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو، تمہاری اولاد تمہارے ساتھ حسنِ سلوک کرے گی۔
اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے: ’’ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور اکرام و احترام کے ساتھ پیش آئے، بے ادبی نہ کرے، تکبر نہ کرے، ہر حال میں ان کی اطاعت کرے، اِلا یہ کہ وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو پھر ان کی اطا عت جائز نہیں‘‘۔
سورہ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے: (تر جمہ) ’’ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور ساتھ یہ بھی بتادیا ہے کہ اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور ڈالیں کہ تُو ایسی چیز کو میرا شریک ٹھیرائے جس کے معبود ہونے کی کوئی دلیل تیرے پاس نہ ہو، تو ان کا کہنا مت ماننا۔‘‘
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کسی نے دریافت کیا کہ ماں باپ کے ساتھ حسنِِ سلوک کس طرح کیا جائے؟ تو انھوں نے فرمایا: تُو ان پر اپنا مال خرچ کر، اور وہ تجھے جو حکم دیں اُس کی تعمیل کر، ہاں اگر گناہ کا حکم دیں تو مت مان۔
امام بی بی نے اپنے بیٹے کی اولین تربیت درست خطوط پر کی تو وہ علامہ اقبال بن کر شاعری اور فلسفے کی دنیا میں امر ہوگئے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہمیں ملتی ہیں جہاں مائوں نے اپنے بچوں کے کردار کو ایسی لازوال پُختگی دی کہ آگے چل کر انہی بچوں کے قول و فعل تمام نوعِ انسانی کے لیے قابلِ تقلید مثال بن گئے، جیسے جارج واشنگٹن، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر وغیرہ۔ سیکھنے کی بات یہ ہے کہ عورت پر صرف گھر اور شوہر ہی نہیں بلکہ بچوں کی بہترین ذہنی نشوونما اور کردار سازی کی بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
ڈاکٹر رخسانہ جبین لکھتی ہیں: سب سے پہلے ماں اور باپ کو اپنے ایمان وعمل کا تجزیہ کرنا ہے۔ اس کی اصلاح کرنی ہے۔ اپنے آپ کو صحیح اور سچا مسلمان بنانا ہے۔ رول ماڈل بننا ہے۔ کیونکہ بچے کی تربیت کا آسان طریقہ اپنا بہترین کردار بچے کے سامنے رکھنا ہے۔ نمازی ماں کے بچے ناسمجھی کی عمر میں بھی جاء نماز لے کر اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں، اور گالیاں دینے والے والدین کے بچے گھٹی میں گالیاں ہی سیکھتے ہیں۔ اس لیے ذرا ان نکات پر غور کریں:
٭ ہمارا ایمان کس درجے کا ہے؟
٭فکرِ آخرت کتنی ہے؟
٭اپنے انجام سے کتنے خوف زدہ رہتے ہیں؟
٭حُب ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس درجے کی ہے؟ ٭عبادات کی کیفیت کیا ہے؟
٭نمازیں کس پابندی اور کتنے خشوع سے ادا ہوتی ہیں؟
٭قرآن پاک سے تعلق کتنا ہے؟
٭دیگر عبادات اور انفاق فی سبیل اللہ کس قدر ہے؟
٭بچوں اور اہلِ خاندان سے معاملات کیسے ہیں؟
٭میاں بیوی کے تعلقات کیسے ہیں؟
یقینا جھوٹ بولنے والی، غیبت کرنے والی ماں کی اولاد کا حُسنِ خلق سے آراستہ ہونا بہت مشکل ہے۔ (الا ماشاء اللہ!)
ماں کا لباس حیادار ہوگا تو بچے بھی حیا سے آراستہ ہوں گے۔ باپ غیرت مند ہوگا تو اولاد بھی ویسی ہی ہوگی۔ ان شاء اللہ
والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کریں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تبارک وتعالیٰ ہر ذمہ دار سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھے گا کہ اس نے ان کے بارے میں اپنی ذمہ داری کو نبھایا، یا ضائع کردیا، حتیٰ کہ بندے سے اس کے اہل و عیال کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا۔
اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک، زندگی کی خوشی اور مستقبل کی امید ہے، انسان کے گھر کی رونق اولاد سے ہے، ان کی زندگی میں لذت و سرور اولاد ہی سے ہے، بلکہ شرعی طور پر اولاد ایک ایسا ذخیرہ ہے کہ انسان کے اِس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے ( کہ ان کا فیض انہیں پہنچتا رہتا ہے): صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جارہا ہو، نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔
جن کے والدین (دونوں یا ان میں سے کوئی ایک) اِس دنیا سے رخصت ہوگئے ہوں ان کے ساتھ اب حُسنِ سلوک یہ ہے کہ ان کی وصیت کو نافذ کرے، ان کے ذمے کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کرے، شرعی حصص کے مطابق میراث کو تقسیم کرے، خود دینی تعلیم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے، ان کے لیے دعا کرے، اللہ سے ان کے لیے رحمت و مغفرت طلب کرے، ان کی طرف سے صدقہ کرے، ان کی طرف سے نفلی حج و عمرہ کرے، کہیں کنواں کھدوائے یا لوگوں کے پینے کے پانی کا انتظام کرے، دینی کتابیں خرید کر وقف کرے، مسجد بنوائے، مدرسہ بنوائے یا دینی علم حاصل کرنے والے مہمانانِ رسول کی ضروریات کو پورا کرنے میں تعاون کرے، والدین کے قریبی رشتے داروں اور تعلق والوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے، نفلی اعمال کرکے ان کے لیے ایصالِ ثواب کرے، اپنے علاقہ، ملک اور دنیا بھر میں مظلوم مسلمانوں کی حالتِ زار کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مال کے ساتھ ان کی خبرگیری کرے۔
اللہ تعالیٰ تمام اہلِ ایمان کو اپنے والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے کی توفیق سے نوازے، آمین، ثم آمین۔
(جاری ہے)

حصہ