راشدہ ماہین جواں فکر شاعرہ ہیں‘ محسن اعظم ملیح آبادی

386

ڈاکٹر نثار احمد نثار
معروف شاعرہ و ماہر تعلیم (اسسٹنٹ پروفیسر‘ فیڈرل اردو یونیورسٹی آف اسلام) راشد ماہین اسلام آباد سے ادبی تنظیم نیاز مندانِ کراچی کے عالمی مشاعرے میں شرکت کے لیے آئی تھیں ان کے اعزاز میں ڈاکٹر جمیل خاور نے کراچی جیم خانہ میں ڈنر و مشاعرے کا اہتمام کیا جس کی صدارت محسن اعظم ملیح آبادی نے کی۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے نظامت کی۔ اس موقع پر صاحب صدر اور مشاعرے کی ناظمہ کے علاوہ راشدہ ماہین‘ رونق حیات‘ سید فیاض علی فیاض‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ وقار زیدی‘ سعد الدین سعد‘ احمد سعید خان‘ نعیم انصاری اور تنویر سخن نے اپنا کلام پیش کیا۔ جمیل خاور نے کہا کہ ادبی تنظیم نیاز مندانِ کراچی قابل مبارک باد ہے کہ جس نے ایک شان دار عالمی مشاعرہ منعقد کیا انہوں نے مزید کہا کہ ادبی سرگرمیاں ہمارے لیے آکسیجن کا درجہ رکھتی ہیں۔ معاشرے میں قلم کاروں کے ذریعے مثبت پیغام دیا جارہا ہے اس عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ محسن اعظم ملیح آبادی نے کہا کہ راشدہ ماہین کی شاعری میں خواتین کے مسائل بیان ہو رہے ہیں انہوں نے انتہائی بے باکی کے ساتھ نسائی موضوعات پر سیر حاصل اشعار کہے ہیں یہ زندہ دل شاعرہ ہیں ان کی ترقی کا سفر جاری ہے۔رونق حیات نے کہا کہ راشدہ ماہین ایک جینوئن شاعرہ ہیں انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے ادبی منظر نامے میں اپنی شناخت بنائی ہے ان کے اشعار تغزل سے بھرپور ہوتے ہیں۔ راشدہ ماہین نے کہا کہ وہ اہلِ کراچی کی محبتوں کی مقروض ہیں مجھے یہاں کے لوگوں سے محبتیں ملیں اور میری شاعری کو بھی پسند کیا گیا میں نیاز مندان کراچی کی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے عالمی مشاعرے میں مدعو کیا‘ میری حوصلہ افزائی کی اور میرے اعزاز میں شعری نشستیں سجائیں۔ راشدہ ماہین کے اعزاز میں ایک نشست ایوانِ ادب کی شاہدہ عروج نے اپنی رہائش گاہ میں سجائی جس میں رونق حیات صدر تھے‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار نے نظامت کی۔ اس موقع پر شاہدہ عروج نے کہا کہ ہم کراچی میں راشدہ ماہین کو خوش آمدید کہتے ہیں یہ بہت ،خوش فکر و خوش مزاج شاعرہ ہیں ان کے اشعار دلوں میں اتر جاتے ہیں ان کا ترنم بہت اچھا ہے‘ ان کے یہاں غزل اپنی پوری توانائی کے ساتھ جلوہ گر ہے میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ رونق حیات نے صدارتی خطاب میں کہا کہ راشدہ ماہین نوجوان نسل کی نمائندہ ہیں یہ ایک ادبی و علمی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں شاعری کے ساتھ ساتھ یہ جہالت کے اندھیروں میں علم و فن کے چراغ روشن کر رہی ہیں‘ ان کا لب و لہجہ‘ ان کے مضامین انہیں دوسری ہم عصر شاعرات سے ممتاز کررہا ہے۔ مشاعرے میں رونق حیات‘ راشدہ ماہین‘ ڈاکٹر نثار‘ ضیا شہزاد‘ نور شمع نور‘ راشد حسین راشد‘ وقار زیدی‘ کشور عدیل جعفری‘ سعد الدین سعد‘ وقار زیدی‘ تنویر سخن‘ شاہدہ عروج خان نے اشعار پیش کیے۔

ادارۂ فکر نو کے زیر اہتمام نظمیہ مشاعرہ

گزشتہ دنوں ادارۂ فکرِ نو کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے تعاون سے نظمیہ مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں پروفیسر جاذب قریشی صدر تھے‘ رفیع الدین راز مہمان خصوصی‘ سعید الظفر صدیقی مہمان اعزازی اور ظفر محمد خاں ظفر مہمان توقیری تھے۔ رشید خاں رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے محمد علی گوہر نے خطبہ استقبالیہ دیا اور عاشق شوکی نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ اختر سعیدی نے کہا کہ وہ سب سے پہلے کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے کنوینر علاء الدین خانزادہ اور ان کے شریک کار زیب اذکار حسین کے انتہائی شکر گزار ہیں کہ انہوں نے نظمیہ مشاعرے کے لیے اسٹیج فراہم کیا جب کہ آج کا نظمیہ مشاعرہ سعید الظفر صدیقی کی تحریک پر منعقد کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزل کے مشاعرے مسلسل ہو رہے ہیں خدانخواستہ یہ غزلیہ مشاعروں کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ غزل کے ساتھ ساتھ نظم کو بھی فروغ دیا جائے۔ یہ نظمیہ مشاعرہ 23 فروری کو ہونا تھا لیکن ناگزیر وجوہات کی بنا پر مقررہ تاریخ پر نہ ہوسکا اور ہم سے پہلے ادبی تنظیم نیاز مندان کراچی کی جانب سے نظمیہ مشاعرہ ہو گیا۔ ہم نے نیاز مندان کراچی کے مقابلے میں یہ مشاعرہ نہیں کیا۔ ہماری نظر میں ادب کی ترویج و ترقی کے لیے جو بھی ادارے کام کر رہے ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ آج کا نظمیہ مشاعرہ بہت کامیاب ہے ہر شاعر نے اپنی بہترین نظم پیش کی۔ صاحب صدر نے کہاکہ غزل کے دو مصرعوں میں مضمون سمونا ہوتا ہے جب کہ نظم میں یہ آسانی ہے کہ اس کا کینوس وسیع ہوتا ہے آپ نظم کے اندر ہر مضمون باندھ سکتے ہیں لیکن الفاظ کی نشست و برخواست کا خیال رکھتے ہوئے پنچ لائن مضبوط ہونی چاہیے۔ آج کا مشاعرہ سن کر مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ شاعری آگے بڑھ رہی ہے۔ اس مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی‘ مہمان توقیری اور ناظمِ مشاعرہ کے علاوہ زیب اذکار‘ فیروز ناطق خسرو‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ اختر سعیدی‘ فہیم شناس کاظمی‘ انور انصاری‘ سلیم فوز‘ عزمی جون‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ کشور عدیل جعفری‘ سحر تاب رومانی‘ مظہر ہانی‘ نعیم سمیر‘ جمیل ادیب سید‘ شکیل وحید‘ آئرن فرحت‘ خالد میر‘ گل انور میمن ‘ تنویر سخن‘ شجاع الزماں‘ انجم ضیائی‘ عبدالصمد تاجی‘ کاشف علی ہاشمی‘ علی کوثر‘ عاشق شوکی‘ چاند علی اور عینا میر نے اپنی نظم پیش کی۔ زیب اذکار نے کہا کہ کراچی پریس کلب میں تواتر کے ساتھ ادبی و علمی پروگرام ہو رہے ہیں کیوں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ شعرائے کرام معاشرے کے نباض ہوتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی حوصلہ افزائی کریں۔

ادب کے فروغ میں قلم کاروں کا اہم کردار ہے‘ پیرزادہ قاسم

شہر کے ایک معروف تعمیراتی ادارے اے ون گروپ نے اپنے پراجیکٹ آر جے مال میں کتابوں کا بازار بہ عنوان ’’اردو بازار‘‘ کے افتتاح کے موقع پر ایک محفل مشاعرے کا اہتمام کیا۔ مشاعرے کے انعقاد کے لیے اے ون گروپ سے آل سندھ پیرنٹس ایسوسی ایشن نے بھی تعاون کیا جس نے اپنے اراکین اور سربراہ محمودالرب کے ذریعے مشاعرے کے انعقاد میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ ایک منظم اور بہترین مشاعرہ تھا جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کی۔ مہمان خصوصی مشہور شاعر انور شعور تھے جب کہ مہمان اعزازی لاہور سے تشریف لائے شاعر عباس تابش تھے۔ نظامت کے فرائض سلمان صدیقی نے انجام دیے۔ مشاعرے کی خاص بات سامعین کی بڑی تعداد کی شرکت اور آخری مرحلے تک ان کی موجودگی تھی۔ مشاعرہ گاہ کو بہت خوب صورتی سے سجایا گیا تھا۔ اسٹیج کی پشت پر ایک بڑی اسکرین نصب تھی جس پر مشاعرے کی کارروائی دکھائی جارہی تھی۔ جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں صدر محفل ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی‘ مہمان خصوصی انور شعور‘ مہمان اعزازی عباس تابش‘ ناظم تقریب سلمان صدیقی کے علاوہ خالد معین‘ آفتاب مضطر‘ زاہد حسن‘ ڈاکٹر نثار احمد نثار‘ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر‘ حکیم ناصف‘ عظیم حیدر سید‘ توقیر تقی‘ کاشف حسین غائر‘ روبینہ تحسین بینا‘ یاسمین یاس‘ آئرن فرحت‘ احمد سعید خان‘ اسد قریشی اور یاسر سعید شامل ہیں۔ اس موقع پر اہم کاروباری شخصیات‘ شہر کے معززین اور مختلف اداروں کے عہدیدار بھی موجود تھے ۔

غزلیں

کامران نفیس

دعا مانگی ہے جس کی ہے یقیں ویسا ملے گا
ہمیں جو ہے میسر اُس سے بھی اچھا ملے گا
ہم ایسے تو نہیں مل پائیں گے یک دم کسی کو
محبت سیکھ لو تب کوئی ہم ایسا ملے گا
اگر صحرا سے باہر آ گیا وہ آبلہ پا
ہماری ہی گلی میں ناچتا گاتا ملے گا
کبھی فرصت ملے تو دیکھنا جلتا ہوا دل
جہاں تم چھوڑ آئے تو وہیں جلتا ملے گا
نہیں معلوم تھا وہ دوست اپنا جانِ محفل
کسی دن راہ میں چلتے ہوئے تنہا ملے گا
بسر کر دو گے ساری زندگی تم دور رہ کر
مگر پھر رنج بھی تو زندگی بھر کا ملے گا

اسد اقبال (بحرین)

لوگ کیا کیا بیچتے ہیں زَر کے بدلے
جانے کتنے گھر لٹے زیور کے بدلے
یہ نہیں معلوم اُن کے شہر میں آج
زخم کے کیا دام ہے خنجر کے بدلے
ہم تو ایسے زخم خوردہ ہیں کہ جن سے
سر لیا ہے مفلسی نے گھر کے بدلے
کوئی کہہ دے جا کے اربابِ وفا سے
کچھ نہیں مانگا ہے ہم نے سر کے بدلے
اس طرح شر ختم ہو سکتا ہے اک دن
آپ کارِ خیر کیجے شر کے بدلے
یہ بصیرت کا تقاضا ہے کہ آنکھیں
پیش کی جائیں حسیں منظر کے بدلے

افشاں سحر

یونہی اداسی ہے اُس کا خیال تھوڑی ہے
مجھے ستائے کسی کی مجال تھوڑی ہے
بس اب تو جی نہیں کرتا ہے مسکرانے کا
وگرنہ زندگی اتنی وبال تھوڑی ہے
دکھوں نے حوصلہ جینے کا ہم کو بخشا ہے
کسی کا کوئی بھی اس میں کمال تھوڑی ہے
وہ لوٹ آئے بھی تو فرق کچھ نہیں پڑتا
ہمارا ہجر میں اب ویسا حال تھوڑی ہے
ہمیں ملی نہ محبت تو کیا ہوا کہ سحرؔ
جہاں میں آج محبت کا کال تھوڑی ہے

حصہ