شریکِ مطالعہ

598

نعیم الرحمن
سید کاشف رضا ادبی جریدے ’’آج‘‘ میں سفرنامے اور تراجم کے بعد منفرد ناول ’’چار درویش اور ایک کچھوا‘‘ لکھ کر خود کو صاحبِ طرز ادیب اور ناول نگار منوا چکے ہیں۔ سید کاشف رضا نے کتابی سلسلہ ’’کراچی ریویو‘‘ کے پہلے ہی شمارے کے ذریعے بطور مدیر بھی اپنا لوہا منوالیا ہے۔ یہ کتابی سلسلہ ’’آج‘‘ کی سسٹر پبلی کیشن ہے۔ اداریے میں سید کاشف رضا لکھتے ہیں کہ ’’ادبیات اور فنونِِ لطیفہ کے ایک قاری کی حیثیت سے یہ کتابی سلسلہ میرے اور میرے دوستوں کی جانب سے اپنے مطالعات میں دیگر احباب کو شریک کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ ایک ضیافت ہے جس میں جتنے احباب شریک ہوں گے اس کی مسرت بڑھتی چلی جائے گی۔ لیکن مطالعات کا مقصد صرف لطف کشید کرنا نہیں ہوتا، زندگی مسرت سے کہیں زیادہ بامعنی ہے۔ ہمیں مل جُل کر اسے سمجھنے کی کوشش کرنی ہے۔ کتابیں اور تخلیقات ہمیں زندگی کی تفہیم کی جتنی نئی راہیں سُجھائیں گی، ہم اُن میں ایک دوسرے کو شریک کریں گے۔ کیا معلوم زندگی کی تفہیم کا کون سا ٹکڑا کسی دوست کے لیے ہم سے زیادہ بامعنی نکل آئے۔ اس کتابی سلسلے کا ہر شمارہ کسی ایک ادیب اور تخلیق کار کو خراجِ تحسین پیش کرنے لے لیے خاص طور پر مختص ہوگا۔ مقامی ادبیات اور فنونِ لطیفہ کے مطالعات کو بھی اہم حیثیت دی جائے گی۔ پہلے شمارے میں ممتاز تُرک ادیب اورحان پامک کے لیے ایک گوشہ مخصوص کیا گیا ہے۔‘‘
مطالعۂ کتب کے ساتھ کتابوں پر باتیں بھی ہمیشہ اہم رہی ہیں۔ ادبی جرائد میں تبصرۂ کتب بھی شامل ہوتے ہیں اور بہت سے قارئین کو انہی تبصروں کے ذریعے نئی کتب کے بارے میں علم ہوتا ہے۔ ماضی میں محمد کاظم اور محمد خالد اختر نے تبصرۂ کتب کو ادبی صنف کا درجہ دلا دیا۔ مصنف اور اُن کی تصنیفات کے بارے میں اچھے ادبی جریدے کی اردو میں عرصے سے کمی محسوس ہورہی تھی۔ محمد سلیم مجوکا ’’بک ڈائجسٹ‘‘ شائع کررہے ہیں، لیکن اس کا تازہ شمارہ ایک عام ادبی جریدہ ہے۔ اس میں کتابوں کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ ایسے میں سید کاشف رضا اور ان کے دوستوں نے ’’کراچی ریویو‘‘ کے ذریعے ایک بڑا خلا پُر کیا ہے۔ 128 صفحات کے پرچے کی قیمت 200 روپے انتہائی مناسب ہے۔ پورے شمارے میں صرف کتابوں اور مصنفین سے متعلق مضامین ہیں جو قاری کو مزید مطالعے پر اُکساتے ہیں۔
’’کراچی ریویو‘‘ کا پہلا شمارہ حال ہی میں انتقال کرنے والے افسانہ نگار اور دانش ور نیر مسعود، اور معروف ترجمہ نگار محمد عمر میمن کے نام معنون کیا گیا ہے، جس کا آغاز نوبیل انعام یافتہ تُرک ناول نگار اورحان پامُک کے گوشے سے ہوا ہے۔ گوشہ کی ابتدا اورحان پامُک کے 28 صفحات کے طویل انٹرویو سے ہوئی ہے جس کا ترجمہ شیخ نوید نے کیا ہے۔ 2006ء میں پامُک کو نوبیل ادبی انعام ملنے کے بعد سے پاکستان میں اُن کے بارے میں جستجو پیدا ہوئی۔ شہرزاد نے پامُک کا ناول ’’سفید قلعہ‘‘ اور جمہوری پبلشرز نے ’’سرخ میرا نام‘‘ کے تراجم شائع کیے۔ ’’آج‘‘ اور ’’دنیا زاد‘‘ میں بھی اُن کی تحریریں شائع ہوئیں، لیکن اس انٹرویو سے قاری کو اورحان پامُک کے بارے میں بہت سی نئی باتوں کا علم ہوا۔ بائیس سال کی عمر میں پامُک پینٹر بننا چاہتے تھے جس میں اُنہیں اہلِ خانہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ پھر انہوں نے ناول نگار بننے کا فیصلہ کیا۔ ان کا پہلا ناول ’’جودت بے اور اس کے بیٹے‘‘ 1982ء میں شائع ہوا۔ اب تک پامُک دس ناول تحریر کرچکے ہیں جن میں ’سفیدقلعہ‘، ’کتابِ سیاہ‘، ’حیاتِ نو‘ اور ’سرخ میرا نام‘ شامل ہیں۔ ناول لکھنے کے طریقۂ کار کے بارے میں پامُک کہتے ہیں کہ ’’کتاب کو ابواب میں تقسیم کرنا میرے سوچنے کے انداز کے لیے بہت ضروری ہے۔ ناول لکھتے وقت اگر مجھے کہانی پہلے سے معلوم ہو، اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے، تو پھر میں اسے ابواب میں تقسیم کردیتا ہوں اور پھر ان تفصیلات سے متعلق تفکر کرتا ہوں جو ان ابواب میں لانا چاہوں گا۔ میں لازمی طور پر پہلے باب سے آغاز نہیں کرتا، تاکہ اسے ترتیب سے لکھوں۔ جب میں لکھنے میں رکاوٹ کا شکار ہوجاتا ہوں، جو کہ میرے لیے سنگین نہیں ہوتی، تو میں وہاں سے لکھنا شروع کردیتا ہوں جہاں سے مجھے سوجھتا ہے۔ میں پہلے سے پانچویں باب تک لکھتا ہوں، پھر اگر مجھے مزا نہ آئے تو میں چھلانگ لگا کر پندرہویں باب پر پہنچ جاتا ہوں اور وہاں سے لکھائی جاری رکھتا ہوں۔ لیکن اختتامی باب ہمیشہ آخر میں لکھتا ہوں اور یہ یقینی ہے۔ میں خود سے پوچھتا ہوں کہ اختتام کیا ہونا چاہیے، میں اختتام صرف ایک مرتبہ کرسکتا ہوں۔ اختتام کی طرف، خاتمے سے پہلے، میں رُک کر ابتدائی ابواب کو دوبارہ لکھتا ہوں۔‘‘
اس شمارے میں محمد کاظم کا ایک غیر مطبوعہ تبصرہ بھی شامل ہے جو انہوں نے نیر مسعود کی کتاب ’’منتخب مضامین‘‘ پر کیا ہے۔ نیر مسعود کی کتاب میں کئی اور کتابوں پر نہایت بصیرت افروز تبصرے موجود ہیں۔ مرزا اطہر بیگ کے پہلے ناول ’’غلام باغ‘‘ اور عرفان احمد عرفی کے افسانوی مجموعے ’’پاؤں‘‘ پر تبصرے ناول نگار رفاقت حیات، رحمن عباس کے ناول ’’روحزن‘‘ پر تبصرہ شیخ نوید، اختر رضا سلیمی کے مختصر اور پُراثر ناول ’’جندر‘‘ پر خضر حیات نے تبصرے کیے ہیں۔ ’’ایک کتب فروش کی بپتا‘‘ گارڈین کی آن لائن بکس کے ایڈیٹر سیان کین نے کیا ہے۔ ایران کے مشہور ہدایت کار، اسکرین رائٹر، شاعر، فوٹو گرافر اور فلم پروڈیوسرکی 6 مشہورِ عالم فلموں کا بھرپور جائزہ ٹو ڈوینڈ روف، آجارومانو نے لیا ہے، جس کا ترجمہ سید کاشف رضا نے کیا ہے۔ مرحومین فلپ روتھ، محمد عمر میمن، کیٹ ملیٹ، اور کلدیب نیر پر مختصر اور پُراثر مضامین بھی شمارے کی زینت ہیں۔ آخر میں اسٹیفن ہاکنگ کی دو کتابوں اور انقلابِ روس پر لولژے نیتسن کے رزمیہ ناول پر تبصرے شامل کیے گیے ہیں۔ کراچی ریویو کا نقشِ اوّل ہی اپنی دھاک بٹھانے میں کامیاب ہوگیا ہے جس کے لیے سید کاشف رضا، ان کی پوری ٹیم اور ’’آج‘‘ کے مدیر اجمل کمال مبارک باد کے مستحق ہیں۔
…٭…
نظر امروہوی کا شمار اردو کے قادرالکلام غزل گو شعرا میں کیا جاتا ہے۔ انہیں جگرؔ اسکول کا آخری شاعر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ قیامِِ پاکستان سے قبل نظر امروہوی آل انڈیا ریڈیوکے مقبول نعت خواں تھے۔ آخری عمر انہوں نے گوشہ نشینی ہی میں گزاری۔ نظر امروہوی کا انتقال 17 جنوری 2014ء کو ہوا۔
نظر امروہوی تو منفرد شاعر تھے ہی، اُن کے صاحبزادگان کا ذکر کریں تو ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘ کی عملی تفسیر نظر آتے ہیں۔ بڑے بیٹے اقبال نظرکا رجحان شروع ہی سے نثر کی جانب رہا۔ ابتدا افسانوں سے کی، پھر اسٹیج اور ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھے، ایک افسانوی مجموعہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ آج کل سہ ماہی ادبی جریدہ ’’کولاژ‘‘ نکال رہے ہیں، جس کے انتہائی وقیع گلزار نمبر نے دنیا بھر میں تحسین حاصل کی۔ جہلم بک کارنر نے اس نمبر کو ’’گلزار نامہ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں بھی شائع کیا۔ انجم ایاز بیک وقت مجسمہ ساز، پینٹر، اسٹیج اور ٹی وی ڈراموں کے ہدایت کار ہیں۔ کئی عالمی اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔ جاوید نظر نے شہرت بطور کرکٹر حاصل کی۔ بطور کرکٹ کوچ آسٹریلیا جا پہنچے، لیکن خون کا اثر پھر بھی موجود رہا۔ شعر و ادب سے ان کا ناتا ہمیشہ قائم رہا۔ ان تینوں صاحبزادوں نے 9 فروری کو’’کراچی اسکول آف بزنس اینڈ لیڈرشپ‘‘ میں اپنے والد نظر امروہوی کی یاد میں ایک خوب صورت شام سجائی، جس میں جامعہ کراچی کے سابق وائس چانسلر، سائنس دان، شاعر اور دانش ور پیرزادہ قاسم سمیت بے شمار ادیبوں اور فنکاروں نے شرکت کی۔ اس شان دار تقریب میں اقبال نظر اور جاوید نظرکی تصانیف شرکا کو پیش کی گئیں، جبکہ انجم ایاز نے اپنے شاہکار مجسموں کا خوب صورت تعارف کرایا۔
جاوید نظرکی مختصرکتاب’’کچھ کہنا ہے‘‘ شاعری، خاکوں اور افسانوں کا مجموعہ ہے۔ وہ پیش لفظ میں کہتے ہیں کہ ’’میری تعلیم تو درس گاہوں میں ہوئی لیکن تربیت خالصتاً گھرکے علمی اور ادبی ماحول کی مرہونِِ منت ہے۔ والد نظر امروہوی ایک صاحبِ طرز غزل گو تھے۔ ان کی زندگی لڑکپن سے مرتے دَم تک شعرگوئی میں گزری، بڑے بھائی اقبال نظر کا رجحان شروع سے نثر کی طرف رہا، آج کل وہ سہ ماہی ادبی جریدہ ’’کولاژ‘‘ شائع کرتے ہیں۔ چھوٹے بھائی ایاز انجم ہمہ صفت انسان ہیں۔ وہ مجسمہ ساز، پینٹر، خطاط، اسٹیج اور ٹی وی ڈراموں کے ہدایت کار ہیں۔ میں کبھی اپنے باکمال خانوادے پر نظر ڈالتا ہوں تو اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ طبیعت میں شعری حلاوت تو بچپن سے تھی مگر اس کا اظہار پچھلے چودہ پندرہ برسوں میں ہوا۔ آسٹریلیا آنے کی وجہ کرکٹ کوچنگ ہے۔ زیرِ نظر کتاب میں اب تک جو کیا ہے، آپ کے سامنے دھرا ہے، چھپوانے کا اصل مقصد شہرت یا داد حاصل کرنا نہیں، اس لکھے کو محفوظ کرلینا ہے جو گزرتی عمرکے ساتھ حافظہ خراب ہونے پر دھرا رہ جاتا ہے۔‘‘
جاوید نظرکے بارے میں بھارت کے مشہور شاعر، ادیب، ہدایت کار گلزار کا کہنا ہے کہ ’’ایک خوشبو کے گلے لگا تھا۔ سڈنی میں جپھی ڈالی تھی۔ میری بانہیں اب تک اُسی خوشبومیں بندھی ہیں۔ جاوید نظر پاکستان کا ایک ہونہار کرکٹر تھا، کبھی سڈنی جا کے بس گیا۔ پتا نہیں کیا نظر آیا یا کون نظر آیا کہ شعر کہنے لگا۔ بہت خوب صورت شعر کہتے ہیں جاوید، اور اُس اداسی کو بھی خوب صورت بنالیتے ہیں۔ چھوٹے بھائی کی طرح ہیں، کیوں کہ بڑے بھائی میرے دوست ہیں اقبال نظر۔ جاوید پراتنا ہی لاڈ آتا ہے جتنا اُس کے شعر پر

ٹرین آتی ہے مگر وہ خوبرو آتی نہیں
خالی اسٹیشن پہ یُوں ہی گھومتا رہتا ہوں میں‘‘

کتاب کے انتساب ’’اپنی اُن تخلیقات کے نام، جو ابھی منظرعام پر نہیں آئیں‘‘ سے اندازہ ہوتا ہے کہ جاوید نظر کا قلم رواں دواں ہے اور مزید تخلیقات سامنے آنے والی ہیں۔ ابتدا چند دعاؤں سے ہوئی ہے جس سے جاوید نظرکی مثبت سوچ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:
’’اللہ تعالیٰ مجھے قبولِ عام کی دست برد سے محفوظ رکھنا۔ میرے لکھے کو نام دینا اور مجھے بے نام رکھنا۔‘‘
’’اللہ تعالیٰ مجھے وہ استطاعت دینا کہ میں لغوی الفاظ کی محتاجی سے آزاد رہوں۔ پیرایۂ اظہار کے لیے جہاں تُو نے مضمون یکتا دیا ہے، الفاظ بھی وہ دے کہ لغت میں نہ ملیں۔‘‘
’’مجھے وہ بصارت دے کہ بصیرت کی دعا نہ کروں۔‘‘
’’خوشبو اور رنگ دے، ایسے کہ تاحیات رخشندہ رہیں۔ قبائے گدا دے کہ مستغنی رہوں۔‘‘
’’شجرِ بے سایہ دے، جائے بے اماں دے تاکہ محرومی کی یافت نصیب ہو اور پانے کی جستجو میرے حصے میں آئے۔‘‘
’’گزرتے لمحوں کا معلوم چھین کہ میں سکون سے مرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کچھ کہنا ہے‘‘ میں جاوید نظر نے اپنی امی، جنید جمشید، گلزار، اداکار قوی اور اداکارہ عظمیٰ گیلانی کے مختصر خاکے بھی تحریر کیے۔ ’’ہماری امی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’اُن دنوں اباکی تنخواہ ڈھائی سو روپے تھی۔ پچاس روپے مکان کے کرائے میں چلے جاتے اور باقی دو سو روپے میں مہینہ بھر گزارا کیا جاتا تھا۔ امی آٹھ بچوں کے ساتھ بڑے سلیقے سے ان پیسوں کو خرچ کیا کرتیں۔ بڑا کنبہ ہونے کے ناتے اور بے شمار ضروریات کے تحت یہ پیسے مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجایا کرتے تھے۔ بھائی صاحب کی تعلیم جاری تھی جس کی وجہ سے وہ ابھی نوکری کے قابل نہیں ہوئے تھے۔‘‘
یہ صرف جاوید نظرکی امی کی نہیں، ہم میں سے بیشتر کی ماؤں کی کہانی ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری کو اپنی ماں ضرور یاد آتی ہے۔ چند نظموں کے بعد کتاب میں جاوید نظرکے 6 افسانے بھی ہیں جو افسانے سے زیادہ جگ بیتیاں محسوس ہوتی ہیں۔ افسانہ ’’خودی کا سرِ نہاں‘‘ کا ایک اقتباس: ’’عمر نے بتایا کہ جس زمانے میں انہوں نے قرآن حفظ کیا تھا‘ اُس زمانے میں قرآن یا کسی قسم کا قرآنی نسخہ کسی شخص کے پاس سے برآمد ہوجاتا تو حکومت کی طرف سے اسے جیل میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اسی زمانے میں ایک حافظِ قرآن، جو حکومت سے چھپتے رہے اور پوشیدہ طریقے سے لوگوں کو زبانی قرآن سکھاتے رہے۔ اس کام کے لیے ہر کوئی ہمت نہیں کرتا تھا، کیوں کہ اگر کسی کو معلوم ہوجاتا تو وہ حکومت کو بتا دیتا تھا۔ لیکن عمرکے دادا نے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے یہ خطرہ مول لیا اور خفیہ طور پر اُس حافظِ قرآن سے حرف بہ حرف، آیت بہ آیت، اعراب کی پوری درستی کے ساتھ قرآن حفظ کرلیا۔ اپنے تمام ملنے والوں، یہاں تک کہ اپنے ماں باپ، بہن بھائی اور بیوی تک سے اس بات کو چھپائے رکھا۔ پھر جب حکومت کی سختیاں کم ہوئیں اور مسجدوں میں عبادت کرنے کی اجازت مل گئی تو اس مسجدکی امامت سنبھالی جو چالیس سال بند رہی تھی۔‘‘
جاوید نظرکی مختصر کتاب میں ادب اور شعرکی کئی اصناف موجود ہیں جو دل کو چھو لیتی ہیں۔ کرکٹر جاوید نظر سے مزید ادبی کتابوں کی امید ہے۔
افسانہ و ڈراما نگار اور مدیر ’’کولاژ‘‘ اقبال نظر نے اپنے سہ ماہی جریدے میں ’’درویش نامہ‘‘ کے عنوان سے منفرد تحریر کا آغاز کیا تھا۔ یہ اپنی طرز کی ایک الگ ادبی کاوش ہے جس پر کہیں رپورتاژ کا گمان ہوتا ہے، کہیں مصنف کی خودکلامی، کہیں افسانہ اور کہیں انشائیے کا رنگ جھلکتا ہے۔ اقبال نظر نے ’’درویش نامہ‘‘ کو کتابی صورت میں شائع کردیا۔ کتاب کا سائز بھی اس کی تحریر کی مانند بالکل مختلف ہے۔ تحریر کے ساتھ ایک زیریں لہر بھی ہے جو بعض جگہ ایک خواندگی میں سمجھ نہیں آتی۔ اکثر پیرے دوبارہ اور سہ بارہ پڑھنے پر ہر مرتبہ ایک نیا مفہوم پیش کرتے ہیں۔ ملک میں مُک مُکا کے رواج پر کیا خوب پیروڈی کی ہے:

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
’’پھر کریں گے مک مکا کتنی ملاقاتوں کے بعد‘‘
٭
’’مک مکا کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
٭
دو ہی لمحے زندگی میں مجھ پہ گزرے ہیں کٹھن
’’اک ترے مک مکا سے پہلے، اک تیرے مک مکا کے بعد ‘‘

کتاب کے ہر صفحے پر اقبال نظر نے بصیرت افروز باتیں انتہائی سادگی سے کی ہیں۔ لکھتے ہیں ’’دستہ گلوں کا ہویا فوجیوں کا، دونوں ہی خطرناک ہیں۔ فوجی تو پھر بھی محاصرہ اٹھا لیتے ہیں لیکن گل دستہ جہاں پڑاؤ ڈال دے، چھاؤنی تعمیر کیے بغیر نہیں رہتا۔ اور چھاؤنی کے بارے میں سب جانتے ہیں۔ ایک مرتبہ تعمیر ہو جائے تو ہٹ دھرمی سے اسی جگہ قائم رہتی ہے، مقام نہیں بدلتی، ہاں فوجی بدلتے رہتے ہیں۔ تیرا پاکستان ایک چھاؤنی ہی تو ہے،کبھی سویلینزکی چھاؤنی بن جاتا ہے، کبھی فوجیوں کی، اورکبھی غیر ملکیوں کی۔‘‘
اس مختصر پیرے میں بہت سی اَن کہی بھی بیان ہوگئی ہے جس کے لیے بصیرت درکار ہے۔ بعض جگہ معمولی تحریف کے ساتھ بات کو کہیں سے کہیں پہنچانے میں اقبال نظر کو ملکہ حاصل ہے، جیسے

تم سے ’’مل‘‘ کر زندہ ہیں
جان بہت شرمندہ ہیں

افتخارعارف کے شعر میں ایک لفظ کی تبدیلی سے کیا مزا پیدا کیا ہے، جواب نہیں ۔کتاب کے اقتباسات دیے جائیں تومضمون بہت طویل ہوجائے گا۔درویش نامہ صرف ایک بارپڑھنے کی نہیں باربارپڑھنے والی کتاب ہے، جو ہر بار قاری کو ایک نیا مزا دیتی ہے۔

حصہ