بزم ِ شعر و سخن کا یوم پاکستان مشاعرہ، آنکھوں دیکھا حال

848

یوم پاکستان 23مارچ کے حوالے سے اس ہفتے شہر کراچی ادبی محافل کا مرکز بنا رہا- 23مارچ کی رات شہر میں دو عالمی مشاعروں نے شائقین اردو ادب کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا -ایسے میں شہر کی معروف ادبی تنظیم بزم شعر و سخن کی جانب سے 23مارچ کی شام کے ڈی اے آفیسرز کلب کے تعاو ن سے یوم پاکستان مشاعرے کا انعقاد ہو ا – کے ڈی اے آفیسرز کلب کا سبزہ زار سر شام ہی مشاعرے کے لئے تیار ہو چکا تھا –
مھمانان کی ایک بڑی تعداد مقررہ وقت پر مشاعرہ گاہ میں موجود تھی جو مصروف ترین شہر کراچی کی روایات کے برخلاف تھی -اس کی ایک خاص وجہ جو ہماری سمجھ میں آ ئی وہ یہ ہوسکتی ہے کہ بزم شعر و سخن کی جانب سے ماضی میں منعقد کے جانے والے دونوں بڑے مشاعرے اپنے مقررہ وقت کے قریب قریب ہی شروع ہوچکے تھے –
یوم پاکستان مشاعرے کی صدارت معروف شاعر جناب جا ذب قریشی صاحب نے فرمائی – دیگر شعرا کرام میں اعجاز رحمانی ، انور شعور، اجمل سراج، ، رونق حیات ، آفتاب مضطر، تاجدار عادل ، عنبرین حسیب عنبر ، ڈاکٹر نزہت عباسی، احمد صفی( لاہور ) ، عمار اقبال ( لاہور ) احمد یاسرسعید ، خالد محمود میر، نجیب ایوبی ،میم شین عالم ( حیدرآباد ) ، فیاض علی فیاض اور تنویر سخن نے اپنے دلکش اور شاندار کلام سے سامعین سے بھرپور داد و تحسین حاصل کی –
یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی بھی مشاعرے کی کامیابی یا ناکامی میں ناظم مشاعرہ کا ہاتھ نمایاں ہوتا ہے ، مشاعرے کی نظامت شہر کی معروف ادبی شخصیت جناب شکیل خان کے ہاتھ میں تھی ، انھوں نے حسب سابق اپنی شاندار نظا مت اور دوران مشاعرہ بر موقع برجستہ انداز میں اسا تذہ کے منتخب اشعار اور اچھے جملوں سے شرکائے مشاعرہ کو اپنی گرفت میں لئے رکھا اور مشاعرے کے ماحول کو ایک لمحے کے لئے بھی نیچے نہیں آنے دیا –
بزم شعر و سخن کے حوالے سے میں یہ بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ ادبی تنظیم جس نے کراچی کے ادبی حلقوں کی توجہ اپنی جانب منبذول کروائی اس کیپس منظر میں گزشتہ چار سالوں کی محنت اور درجنوں کامیاب ادبی نشستیں شامل ہیں ، بزم کے سربرا ہ جناب طا رق جمیل صاحب کی ادب سے محبت اور وابستگی برسوں پرانی ہے ، مگر ان کے ساتھ چند ماضی کے رفیقوں کی متواتر کاوشوں کو کسو بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا – سرفراز جملانہ ، امتیاز احسن ملک ، عبید ہاشمی، خالد محمود میر، اسلام الدین ظفر ، اشہب سعید ، طاہر سلطان سمیت دیگر دوستوں نے واٹس ایپ پر شعر و ادب سے لگاؤ رکھنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کیا اور محض چند ماہ کی محنت شاقہ کے بعد ملک اور بیرون ملک میں اپنے سینکڑوں دوستوں کو بزم شعر و سخن کی لڑی میں پرو دیا – اور پھر برسوں پرانے تمام بچھڑے احباب پر مشتمل بزم شعر و سخن کے با ضابطہ قیام کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ تین سالوں میں تین کامیاب ترین مشاعرے منعقد کرکے اپنی منجملہ صلا حیتوں کا لوہا منوایا-
” عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں ” کے مصداق ا س بزم نے شہر کی روایتی گروہ بندی سے بالاتر ہوکر اپنے مشاعروں میں دائیں بائیں کی تخصیص کو فراموش کرتے ہوئے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شعرا کو اپنے مشاعروں میں مدعو کرکے یہاں کی گھٹی اور ٹکڑیوں میں تقسیم ادبی فضا میں محبت کے ایک تازہ ہوا کے جھونکے کو شامل کرکے ایک نئی جہت کا آغاز کیا –
اس مشاعرے کی روداد ان دوستوں کے لئے شاید اتنی اہم نہ ہو جنہوں نے اس مشاعرے میں شرکت کی ہے کیونکہ وہ تمام ہی شرکا یقینا اب تک اس مشاعرے کے سحر سے آزاد نہیں ہوئے ہوں گے ، تاہم ہو سکتا ہے یہ تذکرہ ان احباب کے لئے شاید ان کی عدم شرکت کا مداوا بن سکے جو بوجوہ شرکت نہیں کرسکے –
ساڑھے آٹھ بجے جب ہم کے ڈی اے آفیسرز میں داخل ہوئے تو پارکنگ کے لئے مختص جگہ تقریبا بھر چکی تھی ، گارڈز نے ہمیں بتایا کہ فلاں جگہ پر کچھ خالی جگہ موجود ہے ، چانچہ ہم نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور گاڑی ی پارک کرنے میں کامیاب ہوئے – آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ساڑھے آٹھ بجے ہی پارکنگ لاٹ کا بھر جانا کتنی حیرت کا با عث تھا -ورنہ شہر میں ہونے والی ادبی تقریبات بالعموم وقت مقررہ کے دو تین گھنٹوں بعد بمشکل شروع ہو پا تے ہیں –
ہم جیسے ہی مشاعرہ گاہ میں داخل ہوئے ، ہمیں استقبالیہ پر موجود ساتھیوں نے خوش آمدید کہا اور دائیں جانب ہال کے فرسٹ فلور پر پہنچا دیا جہاں جناب اسلا م الدین ظفر بھائی کی مستعد ٹیم نے شاندار پلاؤ سے شرکا کی توا ضع فرمائی – تقریبا سوا نو بجے ہم مشاعرہ گاہ میں موجود تھے اور خواتین و حضرات کی کثیر تعداد کو پنڈال میں موجود پاکر حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے کہ کیسا جادو ہے کہ پنڈال تقریبا ” ہاؤس فل ” ہو چکا تھا – تاہم فرشی نشستوں پر گنجائش موجود تھی – اور پھر مشاعرہ سننے اور لطف اندوز ہونے کا مزہ تو فرشی نشست پر گاؤ تکیے سے کمر لگا کر سننے میں ہی آتا ہے – پنڈال کو خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا – جھلمل کرتی روشنیوں اور دیدہ زیب استقبالی بیننرز نے مشاعرہ گاہ کو مزید دلکش بنا دیا تھا- سفید براق چاندنیوں ، سرخ قالین اور رنگین گاؤ تکیے مہمانوں کے منتظر تھے – پلک جھپکتے ہی پنڈا ل بھر گیا – کرسیا ں پہلے ہی بھر چکیں تھیں مزید کرسیوں اور فرشی نشستوں کا ہنگامی طور پر بندوبست کیا گیا اور ٹھیک ساڑھے نو بجے جناب خالد محمود میر ( جنرل سکریٹری بزم شعر و سخن) نے گلابوں سے سجے اسٹیج اور قد آدم بیک ڈراپ کے زیر سایہ اپنی نشست سنبھالی اور مشاعرے کے آغاز کی نوید سنائی اور یوں انھوں نے ابتدائی گفتگو کے بعد جناب طاہر سلطان صاحب کو اسٹیج پر مدعو کیا – جنھوں نے اپنی بزم کا ٹیرف کرواتے ہوئے مشاعرے کے انتظامات اور تیاریوں کے ضمن میں کچھ گفتگو فرمائی ، اقبال یوسف صاحب کی تلاوت کلام پاک سے مشاعرے کا آغاز کیا گیا اور نظم مشاعرہ شکیل خان کی آمد کا اعلان ہو ا، شکیل خان نے مسند صدارت سنبھلنے کے لئے جناب جاذب قریشی صاحب کو اسٹیج پر مدعو فرمایا اور ساتھ ہی دیگر شعرا کرم کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی –
اس مشاعرے میں تین نسلوں کی ترجمانی تھی سینئیر شعرا کرام ، اور پھر 1990 اور اس کے بعد کی دہائی کے شعرا اور پھر موجودہ جونئیر شعرا اسی طرح بزم شعر و سخن سے وابستہ میزبان شعرا کرا م کی نمائندگی تھی –
مشاعرہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا اور شعرا اپنے کلام سے سامعین کی ادبی پیاس کو بجھانے اور بیک وقت بھڑکانے کا کام جاری رکھے ہوئے تھے ، کب مشاعرہ شرو ع ہوا اور کب رات کے دو بج گئے معلوم ہی نہیں ہوا ، زندہ دل سامعین نے ہر اچھے شعر پر دل کھول کر داد دی اور اپنی والہانہ محبت کا کئی مرتبہ بھرپور تالیوں کی صورت میں بھی اظہا ر کیا –
دوران مشاعرہ جو سب سے زیادہ غور طلب بات یہ تھی کہ جناب طاہر سلطان صاحب نے تمثیلی انداز میں دبستان اردو کے تین ممتاز شعرا کرا م کو سامعین کے سامنے پیش کیا( جو انتقال فرما چکے ہیں مگر ان کا کلام اب تک ادب شناسوں کے دلوں میں اب بھی تازہ ہے) – اسکول کے بچوں نے خاص گیٹ اپ کے ساتھ جناب ساقی امروہی ، خمار بارہ بنکوی اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا کلام پیش کیا – جسے سامعین نے بہت پسند کیا – یہ وہ کوشش تھی جس کی بدولت اردو ادب آج کی نسل تک بآسانی منتقل کیا جاسکتا ہے –
مشاعرے کے اختتام پر مہمان خصوصی میٹروپولیٹن کراچی کے کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمن نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ
” مشاعرے کا انعقاد ہمارے اعلیٰ اقدار اور تہذیب کی علامت ہے”۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاشرے میں ادیب و شاعر مثبت احساس کی علامت ہوتے ہیں ہمارے آباو اجداد ہمیشہ علم و ادب کی پاسداری کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بزم شعرو سخن کے ساتھ مل کر اس روایت کو پورے شہر میں عام کریں گے۔ ہمارا مکمل تعاون رہے گا
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بزم شعر و سخن کے صدر طارق جمیل نے کہا کہ نوجوانوں اور بچوں کی اپنے تہذیبی اقدار سے روشناس کرانے کا فریضہ بزم ادا کررہی ھے مشاعرہ سے ہماری بچوں اور نوجوانوں میں اردو ادب سے وابستگی اور دلچسپی بڑھتی ھے
کے ایم سی ویلفیئر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری بلال منظر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کراچی کی رونقیں بحال کرنے کا تہیہ کر رکھا ھے شہر میں ادب زبان اور ثقافت کی ترویج کے لئے اپنے تمام وسائل استعمال میں لائینگے۔ انتظامی کمیٹی اور مشاعرے کے چیف آرگنائزر عبید ہاشمی ، جنرل سکریٹری خالد محمود میر ، طاہر سلطان ، سرفراز عالم جملانہ ، حمود الرحمن ، اقبال عاصی شیخ عدیل ، فہیم برنی ، حکیم عارف عبدللہ نفیس خان اور نور الدین نور نے بھی شرکا کا شکریہ ا دا کیا- مشاعرہ کے اختتام پر کے ایم سی کے علی حسن ساجد نے شعراء￿ کرام اور سامعین کا شکریہ ادا کیا اور تحائف پیش کئے- رات گئے یہ تقریب مشاعرہ اپنے ختم ہونے پر بے شمار حسین یادیں اور محبتیں چھوڑ گئی –

حصہ