ہاجرہ ریحان
’’بھابھی پتا ہے آپ پر کون سا کردار جچتا ہے؟‘‘ دیورانی صاحبہ نے شام کی چائے کے دوران شروع ہونے والی میرے آبا و اجداد کی کتابوں اور لائبریری کے بارے میں بات چیت کے درمیان مجھ سے پوچھا تھا۔ میں ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی۔
ہم سب دو زندگیاں جیتے ہیں۔ ایک وہ جو دنیا ہمیں دیتی ہے۔ گھر، خاندان، مذہب، ذات سب کچھ پہلے سے طے شدہ… یہ وہ زندگی ہے جو آنکھ کھلتے ہی ہمیں تھما دی جاتی ہے۔ دوسری وہ، جو ہم اپنے لیے منتخب کرتے ہیں، جس میں کچھ بھی طے شدہ نہیں ہوتا۔ اور اسی دوسری زندگی کی بدولت میں نے پہلی بار اپنے لیے انتخابات کی بھرمار دیکھی، چوائسز کا مزا چکھا، اور مزا آگیا۔
وہ ملکہ بہار تھی جس کو میں نے بابا جانی کی لمبی چوڑی لائبریری سے لیے گئے ایک بہت ہی ضخیم ناول سے اپنی دوسری زندگی کے لیے چُنا تھا۔ کتاب کا نام تھا ’’طلسم ہوشربا‘‘۔ وہ واقعی ہوشربا کتاب تھی۔
’ہوشربا‘… جنوں، دیو، پریوں اور بہت سے جادوگروں پر مشتمل ایک وادی، جس کا بادشاہ انسان تھا۔ امیر حمزہ نے آبِ حیات پی رکھا تھا، لہٰذا اپنی جاوداں زندگی اور بہت سی دوسری طاقتوں کے باعث وہ ہوشربا پر حکومت کرتا تھا۔ ہوشربا کے پہاڑوں کے انجان غاروں میں صدیوں سے بہادر شہزادے کے انتظار میں قید کاٹتی شہزادی تھی۔ اس سے ملنے والی، دلاسہ دینے اور اس کے خاندان کے بارے میں معلومات بہم پہنچانے والی سفید پروں والی پریاں ہوتی تھیں۔ بدصورت، ظالم، بدمعاش صیاد جن تھا۔ شہزادی کے فراق میں گھلتے بادشاہ باپ، ملکہ ماں، اور پھر ان کے ہی درمیان اچھے اور نیک نیت جنوں کے گروہ تھے جو امیر حمزہ کے ماتحت تھے۔ اُن میں کچھ ایسے تھے جو انسانوں کی مدد پر مامور تھے۔ ہر گروہ کو مخصوص کام سونپے گئے تھے۔ ان کا اپنا سپہ سالار تھا۔ تو ایسی ہی ایک سپہ سالار تھی ملکہ بہار… یعنی بہار کی ملکہ، جو کہ ہوشربا کے بادشاہ امیر حمزہ کی پہلی بیوی کی بہن تھی۔ ملکہ بہار کا اپنا اچھوتا انداز تھا، جس جگہ سے گزرتی پھول کھل جاتے، خوشبودار ہوائیں چلنے لگتیں اور آسمان دھیمی ہلکی ٹھنڈی بارش برسانے لگتا۔ جنگ میں ہتھیار کے طور پر صرف اپنی مسکراہٹ کا استعمال کرتی اور مخالف ساری عمر کے لیے اپنے ہوش و حواس کھو دیتا۔ اُس کی چال میں سبک رفتاری تھی اور اس کے لبوں کے ہلتے ہی ہر طرف پھولوں کی بارش ہونے لگتی تھی۔ وہ غصہ نہیں کرتی تھی، وہ دُھن کی پکی تھی اور ہر طرف اُس کی ہمدردی اور رحم دلی کے چرچے تھے۔ ہوشربا میں اُس کی سحر انگیز شخصیت کا صرف ایک ہی مخالف تھا، اور وہ تھی ملکہ صبا… جو کہ ہوا کی ملکہ تھی اور ہوا کی ہی مانند ہلکے مزاج کی تھی۔ امیر حمزہ کی چوتھی بیوی تھی۔ ملکہ صبا اپنے اختیار میں نہ صرف ہوا رکھتی تھی بلکہ اس کے پاس دریائوں اور سمندروں میں طوفان لانے اور بادلوں کو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ طلب کرلینے کی بھی طاقت تھی۔ ملکہ صبا کے اندر خدا نے بلا کی کشش اور خوب صورتی سمیٹ دی تھی، مگر اُس کے اندر صبر و تحمل نام کو نہیں تھا۔ ملکہ صبا اور ملکہ بہار کی عمروں میں خاصا فرق تھا اور کئی جگہ ملکہ بہار کے بردباری سے کیے گئے فیصلوں کو ملکہ صبا کے جلد بازی میں دیے گئے مشوروں پر فوقیت دی جاتی تھی۔ ملکہ صبا دل میں ملکہ بہار سے انتہائی جلن رکھتی تھی، مگر کیوں کہ ان سب کا کام مشکل میں پھنسے انسانوں کی بھلائی تھا، اس لیے دونوں ایسے مواقع پر ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیتی تھیں، مگر بعد میں دونوں کے درمیان چھوٹی موٹی چپقلش چلتی رہتی تھی جس سے پوری ہوشربا وادی پناہ مانگتی تھی، کیوں کہ ایسی صورت حال میں کہیں پھولوں کی بارش ہوتی، لوگ اپنے ہوش و حواس سے جاتے، تو کہیں چیختے چنگھاڑتے طوفان آجاتے اور کئی گھروں کو بہا لے جاتے۔ پھر امیر حمزہ بیچ بچائو کراتا اور ملکہ بہار عوام کی مشکلات کے احساس سے اپنی ہار مان لیتی۔ یوں ملکہ صبا کو چین آتا، اور ہوشربا میں کچھ دنوں کے لیے امن وامان قائم ہوجاتا کہ ملکہ صبا کو پھر سے کوئی بات بری لگ جاتی۔
میرا انتخاب ملکہ بہار تھی اور میں نے خود کو اپنے اردگرد کے لیے ایک خوش گوار اور دل کو ٹھنڈک دینے والی شخصیت میں ڈھال لیا تھا، حالانکہ میرے خاندان کے چرچے ایسے نہ تھے۔ میرے آبا و اجداد انڈیا کے بڑے جاگیردار نوابوں میں سے تھے۔ پاکستان میں بھی ان کی نوابی گو کہ اب چند زمینوں تک محدود ہوگئی تھی مگر بہرحال قائم تھی۔ ہمارے نام کے شروع میں نواب زادہ یا نواب زادی ضرور لگایا جاتا تھا، اور اسی مناسبت سے ہمارے گھر کا ہر فرد دنیا میں خود کو نمایاں کرنے سے کبھی چُوکا نہیں کرتا تھا۔ پہلے سے طے شدہ میری اس زندگی نے دنیا کی نظروں میں مجھے بھی ایک نازک مزاج، آرام طلب اور نکھٹو انسان کا روپ دے رکھا تھا، جب کہ میں ایسی ہرگز نہیں تھی، اسی وجہ سے شادی کے بعد سسرال میں ابتدائی کچھ مہینوں میں مجھ سے احتیاط برتی گئی تھی، مگر پھر میری ملکہ بہار جیسی شخصیت سے متاثر ہوکر مجھ سے سسرال میں موجود ہر شخص قریب ہوگیا تھا اور مجھے یہ اچھا بھی لگتا تھا۔
مگر میری تمام خوش اخلاقی اُس وقت دم توڑ دیتی جب میرے مدمقابل میری دیورانی آجاتی۔ یوں تو وہ مجھ سے نہ صرف رتبے بلکہ عمر میں بھی خاصی چھوٹی تھی، لہٰذا مجھے اُس کے ساتھ احسان کی روش رکھنی چاہیے تھی، مگر جہاں میں اُس کی ذرا سی بھی تعریف سن لیتی‘ میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔
اُس نے پہلی بار کھانا پکانے میں باورچن کی مدد کی اور میں نے اُس رات بدمزا کھانا کہہ کر کھانے سے انکار کردیا۔ ساس صاحبہ چونکہ بیمار تھیں اور بہت کمزور تھیں لہٰذا ہم دونوں بہوئوں کو ہدایت تھی کہ ایک ساتھ گھر سے غائب نہ ہوں، اس لیے میں جہاں سن لیتی کہ وہ ساس صاحبہ سے میکے، بازار یا کہیں بھی جانے کا پوچھ رہی ہے، جھٹ ساس صاحبہ کو اپنے جانے کا کہہ دیتی، اور بڑی بہو ہونے کے ناتے میری خواہش پہلے مانی جاتی۔ وہ سسرال میں سجاوٹ یا بہتری کا کام کرتی تو میں دس نقص نکال دیتی اور اس بات پر زیادہ خوش ہوتی کہ وہ میرے رعب کے باعث مجھے جواب بھی نہ دے پاتی۔ یہ چھوٹی چھوٹی چپقلش تک تو ٹھیک تھا، مگر پرسوں مجھ سے جو حرکت سرزد ہوئی اُس کے بعد ہی مجھے اپنی شخصیت اور رویوں پر سوال کرنے کا خیال ہوا۔
میں نے سن لیا تھا کہ وہ میکے جانے کی اجازت ساس صاحبہ سے لینے والی ہے، اس لیے ہمیشہ کی طرح اُس سے پہلے ہی ساس صاحبہ کو اپنے جانے کا بتاکر میں اپنی دوست کے ہاں چلی گئی اور پورا دن وہیں گزارا۔ واپسی پر مجھے شوہر صاحب لینے آگئے اور انہوں نے ہی راستے میں بتایا کہ اس کی والدہ کی طبعیت خاصی ناساز ہے جس کے باعث وہ میکے جانا چاہتی تھی مگر کیوں کہ تم اس سے پہلے ہی نکل گئی تھیں لہٰذا وہ پورا دن تمہارا انتظار کرتی رہی مگر ساس کو اکیلے چھوڑ کر جانے کا فیصلہ اس نے نہیں لیا۔ میں حد سے زیادہ شرمندہ ہوگئی۔ ماں کے لیے تو ہر کوئی حساس ہوتا ہے، کیسا لگے اگر میری ماں بیمار ہو اور مجھے انہیں دیکھنے جانے کے لیے کسی تیسرے کا انتظار کرنا پڑے۔ میں پوری رات احساسِ جرم سے جاگتی رہی، اور تیسرے دن جب وہ واپس آئی تو اس کو خوش دلی سے خوش آمدید کہہ کر اس کے ساتھ پہلی بار شام کی چائے پینے بیٹھی۔ وہ پہلے تو حیران ہوئی مگر پھر ہمارا مشترکہ کتابوں کا شوق معلوم ہونے پر جلد ہی گھل مل گئے۔ یوں طلسم ہوشربا کی بات نکلنے پر اس کے مختلف کرداروں کو اپنے اردگرد انسانوں سے جوڑنے لگے۔ اُس نے ایک بار پھر مجھے نظر بھر کر دیکھا اور زیر لب مسکراتے ہوئے گویا ہوئی:
’’بھابھی آپ پر ملکہ بہار کا کردار ایک دم فٹ آتا ہے۔‘‘
پہلے کبھی وہ ایسا کہتی تو میں بڑے فخر سے اس بات کو مان لیتی، مگر اب اُس کی نیک نیتی اور فیاضی پر مجھے پیار آگیا اور میں ہنس پڑی۔
’’ملکہ بہار تو تم ہو‘‘۔ میں نے پہلی بار صدقِِ دل سے اعتراف کیا، اور کچھ توقف کے بعد لگے ہاتھوں دوسرا اعتراف بھی کرلیا ’’اور میں… میں تو ملکہ صبا جیسی ہوں۔‘‘