اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کی خوشی قربان نہ کریں

1264

افروز عنایت
میرے گزشتہ کالم کا عنوان تھا ’’اپنے علم اور تجربات سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائیں‘‘۔ اس کے برعکس زیر مطالعہ کالم میں ایسے لوگوں کے بارے میں تحریر کررہی ہوں جو اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کو استعمال کرتے ہیں یا دوسروں کو نقصان اور تکلیف بھی پہنچا سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی گھٹیا عمل ہے جو دوسرے کی دنیا خراب، اپنا اعتبار کھونے اور اپنی آخرت خراب کرنے کے مترادف ہے۔ آس پاس بغور نظر دوڑائیں تو یقینا آپ کو بھی ایسے مفاد پرست لوگ نظر آئیں گے جن کی وجہ سے دوسروں کی زندگی میں زہر گھل چکا ہوگا۔ لیکن دیر یا سویر ایسے لوگوں کی قلعی اکثر کھل جاتی ہے۔
٭…٭…٭
شبانہ نے اپنے بیٹے کی شادی ایک لوئر مڈل کلاس مگر پڑھی لکھی قبول صورت لڑکی سے کروائی۔ کچھ ہی عرصے میں ماں نے دیکھا کہ بیٹا تو بہو کی محبت کا دم بھرنے لگا ہے۔ اس صورت حال سے بجائے خوش ہونے کے، وہ جل بھن گئی۔ دونوں میاں بیوی اکثر گھومتے پھرتے، کھاتے پیتے… غرض کہ بقول شخصے لیلیٰ مجنوں تھے۔ شبانہ کو یہ سب کچھ ناگوار گزر رہا تھا، وہ اکثر بیٹے کو زن مرید ہونے کے طعنے دینے لگی اور شعیب (بیٹے) کو بہو کے خلاف بھڑکاتی رہتی۔ پہلے بیٹا تمام کمائی ماں کے ہاتھ پر رکھتا تھا، اب بیوی بچوں پر خرچ کرتا۔ وہ زیادہ سے زیادہ وقت بیوی بچوں کے ساتھ گزارنے لگا۔ اس صورتِ حال سے شبانہ کے ذہن میں منفی خیالات جنم لینے لگے کہ جس طرح بھی ممکن ہو، بیٹا بیوی پر سے توجہ ہٹا کر دوبارہ اس کی طرف لوٹ آئے۔ شبانہ نے اپنے میاں کو بھی ہم نوا بنالیا۔ دونوں بیٹے کے کان بھرتے اور اُس کی بیوی کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے۔ آخر وہ اپنی سازش میں کامیاب ہوگئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ بیوی جو شوہر کے دل پر راج کرتی تھی، اُس سے شوہر ایسا بدظن ہوا کہ بات طلاق پر پہنچی۔ اس طرح نہ صرف بہو کا سکون غارت ہوا بلکہ شعیب بھی بے سکون اور چڑچڑا رہنے لگا۔ دھوبی کا کتا نہ گھر کا، نہ گھاٹ کا… شعیب بیوی سے تو دور ہوا، لیکن ماں باپ سے بھی دور دور رہنے لگا۔ ماں نے جب بیٹے کو ہاتھوں سے نکلتے دیکھا تو دوسری چال چلی، اور بیٹے پر زور دیا کہ اپنے بچوں کی وجہ سے اس عورت سے نباہ کرو۔ کچھ شرائط کے بعد شوہر بیوی کو رکھنے پر راضی ہوا۔ اس طرح سازشی چالوں کے ذریعے بیٹے کو اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر ایک ہنستے بستے گھر کی دیواریں کمزور کردیں۔ اب وہ بہو پر احسان جتاتی رہتی ہے کہ میرا شکریہ ادا کرو کہ میں نے بیٹے کو طلاق دینے سے روکا، ورنہ تم برباد ہوچکی ہوتیں۔
٭…٭…٭
سکینہ: تمہیں مجھ بیچاری بہن اور بھانجیوں پر ذرا ترس نہیں آرہا ہے۔ ہاں بھئی… تمہیں غریب بہن کی بیٹیاں کیسے بھائیں گی! میں ماں جائی ہوں، تمہاری بیٹیوں کی وجہ سے بیمار رہنے لگی۔ ذرا ترس نہیں تمہارے دل میں کہ کم از کم دو کو تو اپنی بہو بنا لو۔
ریحانہ: آپا، میں پہلے اپنی بیٹیوں سے فارغ ہوجائوں۔ میں آپ کو منع نہیں کررہی۔ میری بیٹیاں بھی تو جوان ہوگئی ہیں، میں پہلے ان کی شادی کروں گی، پھر دیکھتے ہیں۔
٭…٭…٭
سکندر: سلام آپا سکینہ، کیسی ہیں آپ؟
سکینہ: ہاں سکندر بھائی الحمدللہ میں تو ٹھیک ہوں،آپ کیسے ہیں، آج ہم غریبوں کی یاد کیسے آئی؟
سکندر: (قہقہہ لگا کر) آپا آپ سے ضروری کام تھا۔
سکینہ: ہاں… ہاں بولو بھائی، کیا کام پڑ گیا مجھ سے؟
سکندر: میں خود راشد سے بات کرتا، وہ میرا بچپن کا یار ہے اور دور پرے کی رشتے داری بھی ہے… میں اپنے بیٹے کے لیے ان کی بچی کا رشتہ چاہتا ہوں۔
سکینہ: (خوشی سے) ارے یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ تم دونوں تو ماشاء اللہ خوشحال، آسودہ گھروں سے ہو، میرے خیال میں ریحانہ اور راشد بھی راضی ہوجائیں گے، پھر کیسی پریشانی؟
سکندر: وہ آپا دراصل میری بھی چھ بچیاں ہیں، میں چاہتا ہوں کہ میری دو بچیوں کا رشتہ بھی راشد کے دونوں بیٹوں سے ہوجائے، بے شک میں اپنے دوسرے بیٹے کے لیے بھی ان کی دوسری بیٹی کا رشتہ کرنے کے لیے تیار ہوں، اور پہلے ہم ان کی بیٹی کو بیاہ کر لائیں گے۔
سکینہ کو معلوم تھا کہ ریحانہ اور راشد کبھی بھی وٹے سٹے پر راضی نہیں ہوں گے، لیکن اس نے سکندر کو دلاسہ دیا کہ میں ضرور اپنی بہن کو اس بات پر راضی کرلوں گی، تم فکر نہ کرو۔
٭…٭…٭
سکینہ نے اپنے شوہر سے کہا کہ راشد اور ریحانہ قطعی اس بات پر راضی نہیں ہوں گے، اس طرح ہماری بیٹیوں کی شادی بھی رک جائے گی، جبکہ ریحانہ کی شرط ہی یہ ہے کہ میں اپنی دونوں بچیوں کی شادی کرنے کے بعد ہی تمہاری بیٹیوں کو بیاہ کر لائوں گی۔ آخر دونوں میاں بیوی نے اپنے مفاد کے لیے سوچا کہ ہم سکندر کو یہی کہیں گے کہ ابھی راشد اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے، پھر کچھ عرصے کے بعد تمہاری دونوں بیٹیوں کو بہو بنا کر لے جائے گا۔ اس طرح ہمارے لیے کچھ تو راستہ صاف ہوجائے گا۔
سکندر کے بیٹے کا رشتہ راشد کی بیٹی کے ساتھ ہوگیا۔ راشد کو معلوم ہی نہ تھا کہ اس کی سالی نے سکندر سے کہا ہے کہ راشد نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تمہاری دونوں بیٹیوں کو بیاہ کر لے جائے گا۔ شادی کے بعد کچھ عرصے تو معاملہ صحیح چلتا رہا، سکندر اور اس کے گھر والے انتظار میں رہے کہ عنقریب ہماری دونوں بچیوں کا رشتہ راشد کے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹوں سے ہوجائے گا۔ جب ایک سال گزر گیا، راشد کی دوسری بیٹی کی بھی شادی ہوگئی تو سکینہ آپا نے بہن اور بہنوئی سے اپنی بچیوں کے رشتے کے لیے تقاضہ کیا جو آخرکار منظور کرلیا گیا۔ جب یہ بات سکندر کے گھر والوں کے کانوں میں پڑی تو ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے بہانے بہانے سے بہو کو اذیتیں دینی شروع کردیں جو کہ ناقابلِ بیان اور ناقابلِ برداشت تھیں۔ وہ حیران تھی کہ یہ یکایک کیا ہوگیا! دونوں بھائیوں کی شادی کے بعد اُس پر یہ بات آشکار ہوئی۔ کسی سسرالی رشتے دار نے بتایا کہ تمہارے دونوں بھائیوں کا رشتہ تو تمہاری دونوں نندوں سے طے ہوچکا تھا، پھر یہ کیا ہوا کہ تم لوگوں نے کہیں اور رشتہ کرلیا!
خیر قسمت میں جو لکھا تھا وہی ہوا، لیکن اس کی سزا بے چاری بہو (نصرت) کو شاید ساری زندگی بھگتنی پڑے گی۔ اس طرح سگی خالہ نے اپنی بیٹیوں کے بھلے کے لیے بھانجی کو اذیت میں ڈال دیا۔
٭…٭…٭
مسز طارق: زرینہ ذرا پانی کی موٹر چلا دینا، میری ماسی کام کرنے آئی ہے۔
زرینہ: (گرائونڈ فلور والی) بھابھی صبح ایک گھنٹہ موٹر چلائی ہے۔ اب تو نیچے ٹنکی میں بہت کم پانی ہے، میں نے سوچا تھا رات کو چلائوں گی تاکہ صبح میں کام آسکے۔
مسز طارق: بھئی تمہیں تو معلوم ہے ہم سارے گھر والے صبح گھر سے نکل جاتے ہیں اور واپسی دوپہر کے بعد ہی ہوتی ہے، معلوم نہیں کیا بات ہے دو مہینے سے پانی کی تنگی ہورہی ہے، کیا پانی کم آرہا ہے یا…؟
زرینہ: بھابھی پانی تو صحیح آرہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح ایک دن چھوڑ کر آرہا ہے، جو تینوں گھروں کے لیے کافی ہوتا تھا، لیکن اب معلوم نہیں کیا مسئلہ ہے!
٭…٭…٭
مسز طارق: (شوہر سے) پانی کا بڑا مسئلہ ہوگیا ہے، بچے روز رات کو دو تین کین پانی باہر سے بھر کر لاتے ہیں تب صبح کو سب منہ ہاتھ دھو کر نکلتے ہیں… ٹنکی میں جو تھوڑا پانی بچ جاتا ہے وہ اوپر نہیں چڑھ سکتا۔ گرائونڈ فلور والے تو ڈول کے ذریعے نکال کر کام چلا لیتے ہیں۔ رہے اوپر والے… تو… ان کی تو فیملی بھی ہم دونوں گھروں سے زیادہ ہے، آئے دن اُن کے یہاں مہمان رہنے کے لیے آتے رہتے ہیں۔ شروع میں جب وہ شفٹ ہوئے تو پانی کا بڑا رونا روتے تھے، اب بڑی خاموشی ہے۔کہیں انہوں نے ایکسٹرا ٹنکی تو چھت پر نہیں بنوالی، جس میں وہ اپنے لیے پانی اسٹور کرلیتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمیں پانی کم ملتا ہے؟
طارق صاحب: بیگم، بدگمانی اچھی بات نہیں ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے! اجمل صاحب کی فیملی بھی بڑی نیک اور دین دار ہے، وہ ایسا غلط کام نہیں کرسکتے جس سے دوسرے پڑوسیوں کو تکلیف ہو۔ ہوسکتا ہے کہیں پانی کی لائن میں اوپر شگاف آگیا ہو جس سے پانی ضائع ہورہا ہو۔
٭…٭…٭
اجمل صاحب اور طارق صاحب کے جواں سال بیٹوں میں بڑی گہری دوستی تھی۔ ایک دن دونوں گھروں کے ٹیلی فون کے تار ٹوٹ گئے تو اجمل صاحب کے بیٹے نوید نے طارق صاحب کے بیٹے عمران سے کہا کہ چل کر چھت پر دیکھتے ہیں کہ واقعی تار ٹوٹے ہیں! اگر کوئی دوسری خرابی ہے تو کمپلین کریں۔
چھت پر جانے کا راستہ ایک ہی تھا۔ وہ دوسری منزل کے گھر کے اندر سے ہی چھت پر جاتا تھا۔ لہٰذا عمران اور نوید چھت پر پہنچے تو عمران ایک ایکسٹرا بڑی ٹنکی کو دیکھ کر حیران ہوگیا۔ یہ ٹنکی… ایکسٹرا…
نوید: یہ تو تین مہینے سے ہم نے لگوائی ہوئی ہے، آپ لوگوں کو نہیں معلوم؟
عمران: یار ہمیں کیسے پتا چلتا! آپ لوگوں نے تو اس بات کو چھپایا، اور اس کی وجہ سے تین مہینوں سے ہم دونوں گھر، خصوصاً ہم انتہائی تکلیف میں گزارا کررہے ہیں۔
عمران نے جب گھر میں آکر اپنے والدین کو یہ بات بتائی تو انہیں بہت دکھ و افسوس ہوا کہ اپنی سہولت اور آرام و سُکھ کے لیے انہوں نے بغیر اطلاع کے ایک غلط کام کیا ہے۔ طارق صاحب کی بیوی نے زرینہ (گرائونڈ فلور والی) سے کہا کہ کم از کم آپ صبح کو زیادہ دیر موٹر نہ چلایا کریں، دوپہر کو بھی چلایا کریں تاکہ میں بھی آفس سے واپسی پر پانی کے کچھ کین وغیرہ بھر کر انتظام کرسکوں۔
٭…٭…٭
دینِ اسلام تو ہمیں ایثار کی تعلیم دیتا ہے، جہاں بندہ اپنے آپ کو تکلیف میں رکھ کر دوسروں کو آرام پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارا مذہب راستوں سے تکلیف دہ چیزیں اور کانٹے ہٹانے پر اجرِ آخرت کی نوید دیتا ہے۔ لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ کچھ لوگ اپنے مفاد کے لیے دوسروں کے راستوں میں کانٹے بکھیر دیتے ہیں، خصوصاً دفتروں اور کاروباری مراکز میں اپنا آپ منوانے کے لیے سامنے والوں کو دوسروں کی نظروں سے گرانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ خصوصاً ناپ تول میں کمی یا غیر معیاری اشیاء دھوکے سے بیچ کر دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ تعلیماتِ اسلامی پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم ایک دوسرے کے حقوق ادا کرسکتے ہیں، بلکہ ایک دوسرے کو سہولتیں بہم پہنچا سکتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کی زندگی پر نظر ڈالیں تو بے شمار ایسی مثالیں نظروں کے سامنے آئیں گی جہاں آپ سب نے اپنے مفاد پر دوسروں کے مفاد کو ترجیح دی۔ ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ہماری ذات سے کسی بندے کی حق تلفی نہ ہو اور اسے تکلیف نہ پہنچے۔ حضرت عثمانؓ کا بڑا پیارا قول ہے کہ ’’جس نے لوگوں کا حق نہ جانا اُس نے خدا کا حق نہ جانا‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ڈر جس کے دل میں ہوگا ، وہی بندہ اُس کے بندوں کے حقوق کی پاسداری کرے گا۔ رب العزت کو وہی بندے پسند ہیں جن کے دلوں میں دوسروں کے لیے نیک خواہشات ہوں، جو رب کی رضا کی خاطر دوسروں کو سہولیات پہنچاتے ہوں۔ لیکن جو اپنے مفاد کے لیے اللہ کے بندوں کو تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں ایسے بندے اللہ کی رضا سے محروم ہوجاتے ہیں، معاشرے میں بھی وہ اپنا مقام کھو دیتے ہیں۔ گرچہ وقتی طور پر انہیں دنیاوی فائدہ حاصل ہوجاتا ہے، لیکن ایک مومن کی نظر اس دنیاوی فائدے پر مرکوز نہیں ہوتی، وہ تو آخرت کے فائدے کا متمنی ہوتا ہے۔ اس لیے اس معاشرے کو مستحکم کرنے کے لیے، اس کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے، اللہ کی رضا اور آخرت کے اجرِ عظیم کے لیے ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنے آس پاس کے لوگوں کو اپنے مفاد کی خاطر اذیت سے دوچار نہ کریں۔ اگر ہم انہیں آرام و سُکھ نہیں پہنچا سکتے تو دکھی بھی نہ کریں، انہیں اذیت و تکلیف نہ پہنچائیں۔ اسلام تو اتنا پیارا مذہب ہے کہ دکھی انسان کی مدد کرنے اور اسے حوصلہ دینے کی تلقین کرتا ہے۔ الحمدللہ ہم مسلمان ہیں، دینِ اسلام نے ہمیں بھائی چارے اور انسانیت کی خدمت کی تعلیم دی ہے، نہ کہ دوسروں کے راستوں میں کانٹے بکھیرنے کی۔ کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ بے شک یہ قدم میرے لیے تو مفید ہے لیکن کہیں اس سے میرے سامنے والے کو تکلیف، الجھن یا پریشانی تو نہیں لاحق ہورہی! اور یہ میرا مشاہدہ ہے کہ جو اس چیز کا خیال رکھتا ہے اللہ رب العزت اُس کے راستے کی رکاوٹیں اور پریشانیاں اُس سے دور کرتا ہے۔ جو زمین والوں کو سُکھ پہنچاتا ہے، رب کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اپنے ایسے بندوں کو سُکھ پہنچاتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دوسروں کو سہولتیں اور آرام پہنچانے کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جاتے تھے، دوسروں کے آرام کے لیے روپیہ پیسہ بے دھڑک خرچ کرتے، اور بعض اوقات تو دوسروں کے سُکھ و آرام کے لیے انہیں خود بھوکا پیاسا رہنا پڑتا تھا۔ اللہ رب العزت نے ان کے اس طرزعمل کو پسند فرمایا اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ ہمیں بھی اللہ رب العزت ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس کے برعکس زمین پر رہنے والوں کے ساتھ زیادتی و ناانصافی کرنے والوں کو رب العزت اپنی رضا سے محروم کردیتا ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’بلاشبہ الزام تو اُن لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘

حصہ