نامساعد حالات و تکالیف

471

افروز عنایت
پچھلے دنوں میں نے اپنی ایک تحریر میں ایک بچی کی طلاق کا ذکر کیا تھا جو بچہ نہ ہونے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئی۔ اس بچی سے دو تین دن پہلے بات کرنے کا اتفاق ہوا۔ اس کا حوصلہ و ہمت دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ بظاہر ہم سب سمجھ رہے تھے کہ وہ ٹوٹ کر جس طرح بکھری ہے مشکل سے سنبھل پائے گی، کیوں کہ وہ طلاق لینا نہیں چاہتی تھی، اس نے شوہر کو دوسری شادی کی اجازت بھی دے رکھی تھی۔ لیکن یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس کے حوصلے بلند ہیں، اس نے جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے۔ اسی کی زبانی اس کے موجودہ حالات شیئر کروں گی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مشکلات ہی انسان کو آگے بڑھنے اور جینے کے گر سکھاتی ہیں۔
’’طلاق کا پروانہ ہاتھ میں آیا تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ سسک سسک کر، رو رو کر اپنی حالت خراب کرلی، دنیا اندھیر لگنے لگی کہ کیسے سر اٹھا کر جیوں گی! میکہ جہاں بھائی اور بھابھیاں تھیں، شوہر کے ساتھ بڑے مان سے قدم رکھتی تھی، اب کیسے جائوں! عدت کا وقت رو دھوکر گزارا۔ پھر ایک پورشن کرائے پر لے کر اسکول میں ملازمت شروع کی۔ یہ اسکول کیا ہے سمجھیں کہ اللہ نے انگلی پکڑ کر راہ دکھائی ہے۔ یہاں عام پڑھائی کے ساتھ بچوں کو قرآن پاک بھی حفظ کرایا جاتا ہے، اس لیے اس ادارے کے تقدس کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ ٹیچرز کے لیے عبایا اور نقاب لازمی ہے۔ یہاں آکر مجھے یوں لگا جیسے رب نے مجھے ڈھانپ لیا ہو۔ یہاں کے ماحول نے مجھے اس طرح پناہ دے دی ہے کہ یہ سب مجھے ایک سحر لگ رہا ہے۔ ان بچوں اور اس ماحول میں رہ کر میں نے عربی کی چھوٹی چھوٹی دعائیں یاد کرلی ہیں جو اس سے پہلے کوشش کے باوجود نہ کرپائی تھی۔ یہاں کا ماحول، یہ بچے سب میرے وجود کا حصہ محسوس ہوتے ہیں۔ یہاں آکر میں اپنا وہ غم بھلا بیٹھی ہوں جو میرے لیے ناسور بنتا جارہا تھا۔
میں طلاق کا پروانہ لے کر کسی سے آنکھیں چار نہ کر پا رہی تھی، لیکن یہاں آکر مجھے عزت و احترام اور محبت ملی ہے۔ صحیح معنوں میں میری ذات کی پہچان تو اب ملی ہے۔ میری دوست مجھے کہہ رہی ہیں کہ دوسری شادی کرلو۔ لیکن ابھی نہیں… یہاں آکر میری ذات، میرے حوصلوں کو تقویت ملی ہے۔ آج مجھے احساس ہورہا ہے کہ میں جی رہی ہوں، میں مضبوط ہورہی ہوں۔ یوں لگ رہا ہے کہ پروردگار اس ٹھوکر کی وجہ سے مجھے سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ یہ میری زندگی کی ایک بہت بڑی آزمائش ہے، لیکن اس آزمائش اور مشکل نے مجھے جینے کے گر سکھا دیے ہیں۔ میں شادی ضرور کروں گی کیوں کہ جانتی ہوں اس معاشرے میں اکیلی عورت زیادہ نہیں چل سکتی، لیکن کچھ وقت میں اور اپنے آپ کو سمیٹنا چاہتی ہوں۔ اپنا آپ منوانا چاہتی ہوں۔ آج سے پہلے میں اپنے آپ کو ایک کمزور، ناتواں عورت سمجھ رہی تھی، لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ میں نے سائڈ میں اپنا بزنس بھی شروع کیا ہے، جو بہتری کی طرف جا رہا ہے۔‘‘
٭٭٭
یہ ایک حقیقت ہے کہ زندگی میں آنے والی تکالیف اور پریشانیاں یا تو انسان کو ختم کردیتی ہیں یا جینے کے گر سکھا دیتی ہیں۔ چاروں طرف کیچڑ اور گندگی ہو تو انسان چلنے میں دشواری محسوس ضرور کرتا ہے، لیکن اس دشواری کی بدولت اسے زمین پر قدم جمانے آجاتے ہیں۔ وہ جب اس کیچڑ سے سنبھل سنبھل کر، اپنے آپ کو گرنے سے بچاتے ہوئے نکل آتا ہے تو اسے ایک نیا حوصلہ ملتا ہے، توانائی ملتی ہے۔ میں اپنے چاروں طرف ایسے بہت سے لوگوں کو جانتی ہوں جنہوں نے اپنی زندگی میں آئی ہوئی تکلیفوں کو اللہ کی طرف سے آئی آزمائش جانا اور صبرو تحمل سے حالات کا مقابلہ کیا تو اللہ نے انہیں زندگی کا نیا مزہ چکھایا… ایسا مزہ، ایسا لطف جو انہیں اللہ کے قریب لے گیا۔ انہوں نے اپنے رب سے ناتا جوڑ لیا، جیسا کہ اوپر بیان کیے گئے واقعہ سے بھی ظاہر ہے، اسی طرح میرے ایک بہت پیارے عزیز جو ہم سب بہن بھائیوں کے لیے قابلِ احترام ہیں، ہمارے لیے والدِ محترم کا درجہ رکھتے ہیں، تھیلے سیمیا کی وجہ سے دو جوان بیٹوں کی موت کا صدمہ سہہ چکے ہیں۔ اللہ نے انہیں بیٹوں کی نعمت کے ساتھ دو بیٹیاں بھی عطا کیں۔ بچپن سے ہی دونوں بیٹے اس موذی بیماری کا شکار ہوگئے، لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری، وہ جانتے تھے کہ اس بیماری کا کیا انجام ہے، لیکن وہ گھر والوں کو ہمت و حوصلہ دیتے رہے۔ گرچہ ان دونوں جوان بیٹوں کی موت نے ان کی کمر توڑ دی ہے، وقت سے پہلے انہیں بڑھاپے کی طرف دھکیل دیا ہے، ایسے وقت میں ایک اللہ کا قرب ہی ہے جس کے سہارے وہ اپنے غم کو بھلائے ہوئے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت مسجد میں اور اللہ والوں کی صحبت میں گزرتا ہے جہاں انہیں سکون ملتا ہے۔ اس نئی دنیا میں وہ بہت خوش ہیں۔
٭٭٭
زندگی میں تکلیفیں آتی رہتی ہیں جس طرح منزل پر پہنچنے کے لیے راستوں میں اتار چڑھائو آتے ہیں۔ یہ اتار چڑھائو اور راستے کی تکلیفیں انسان کو بہت کچھ سکھا دیتی ہیں۔ ان کی زندگی کے اندر چھپی صلاحیتوں اور خوبیوں کا ظہور ان ہی راستو ں سے گزر کر ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ جو شروع میں ہمیں بالکل سادہ اور معمولی سے نظر آتے ہیں، اُن کے ساتھ رہنے والے دوستوں کو بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کن خوبیوں کے مالک ہیں، لیکن جب تکلیف دہ مراحل سے گزر کر وہ باہر آتے ہیں تو ان کی ایک نئی شخصیت لوگوں پر آشکار ہوتی ہے، جس طرح سونے کو کسوٹی پر پرکھ کر زیورات کا روپ دیا جاتا ہے۔ یعنی ان تکالیف کے بعد سُکھ و کامیابی مقدر ہوتی ہے۔ جیسا کہ سورۃ الطلاق میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے: ’’اللہ تنگی کے بعد آسانی و فراغت بھی کردے گا‘‘۔
کہیں ایک خوبصورت بات اس سلسلے میں نظروں کے سامنے سے گزری: ’’انسان جب سوچتا ہے تو اللہ خود ہی راستے بنا دیتا ہے اور مشکلیں آسان کردیتا ہے، تمہارا رب جس چیز کو تمہارے قریب کردے اس میں حکمت تلاش کرو، اور جس چیز کو تم سے دور کردے اس پر صبر اختیار کرو، اللہ کے فیصلوں کو سمجھنا انسان کی عقل سے بالاتر ہے۔‘‘
٭٭٭
بے شک رب ہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیا بہتر ہے، کیا نہیں… جس کا اندازہ بہت آگے جاکر ہوتا ہے۔ وہ رب بندے کو ٹھوکر ضرور دیتا ہے لیکن سنبھلنے کے لیے سہارا بھی دیتا ہے، اور یہ سہارا دراصل اس کا حوصلہ، چھپی صلاحیتیں اور خوبیاں ہی ہیں جن کے ذریعے وہ زندگی کی گاڑی آگے کی طرف دھکیلتا ہے۔ میری چند ایسی خواتین سے ملاقات ہوئی جن کو انتہائی گمبھیر مسائل کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان مسائل میں اُن کی ذات میں چھپی صلاحیتوں نے اُن کی کشتی پار لگائی، ان میں سے چند خواتین نے اپنا بزنس شروع کیا اور اس بزنس نے انہیں سہارا دیا۔ ایک بچی نے اپنی طلاق کے بعد اپنی تعلیم مکمل کی اور آج اعلیٰ عہدے پر فائز ہوکر دنیا کا دلیری سے سامنا کررہی ہے۔ اس بچی نے کہا کہ ہمیں ملنے والے غموں سے دنیا ختم نہیں ہوتی، ہاں اگر ہاتھ پر ہاتھ رکھے آپ دوسروں کی طرف سے ملنے والی امداد کے متمنی ہیں تو آپ اپنی رہی سہی عزت بھی گنوا سکتے ہیں، آپ کو خود سنبھل کر اٹھنا ہے، اگرچہ اس وقت اٹھنا انتہائی مشکل گھڑی ہے کہ چوٹ بھی ہو، درد اور تکلیف بھی ہو اور آنکھوں میں آنسو بھی… لیکن اگر اس وقت ہمت کرکے اٹھ گئے تو دراصل اس بھنور سے نکل پائے۔ ورنہ ہمیشہ ہاتھ پائوں ہی مارتے رہیں گے۔ لہٰذا ان سطور کے ذریعے میں خصوصاً ایسے لوگوں سے درخواست کروں گی کہ زندگی میں آنے والی تکالیف و مشکلات پر صرف آنسو نہ بہائیں بلکہ کوشش کریں، اپنے رب کو پکاریں۔ ایسے حالات میں آپ کا رب ہی تو ہے جو آپ میں اس بحران سے نکلنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ ورنہ آپ پستیوں میں گرتے ہی جاتے ہیں۔ ایک جوان بیوہ کو میں نے دیکھا، وہ کچھ ہنر بھی جانتی ہے، چاہے تو کچھ نہ کچھ ہاتھ پائوں چلا کر اپنے اور اپنے تین بچوں کے لیے کچھ کرسکتی ہے، لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ لکھ رہی ہوں کہ وہ دس گھروں سے ہر ماہ جاکر گھر کے اور بچوں کے خرچے کے لیے مانگتی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اسے چھوٹا موٹا کام کرنے کے سلسلے میں مدد دینا چاہی لیکن اس نے کہا یہ سب مجھ سے نہیں ہوگا۔ اب اس کی بڑی بچی چودہ پندرہ سال کی ہونے والی ہے، اسے یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ بعض اوقات تو لوگ اس سے معذرت بھی کرتے ہیں کہ ہم اس مہینے مدد دینے سے قاصر ہیں، لیکن پھر وہ دوسرے گھر پہنچ جاتی ہے کہ میری ضرورتوں کے لیے اس مہینے آپ کچھ زیادہ امداد کریں۔ اس کی اس بیچارگی پر دکھ اور افسوس بھی ہوتا ہے۔ بے شک ایسی غریب اور بیوہ خاتون کی مدد کرنا تمام اعزہ و اقرباء کا فرض ہے، لیکن اسے خود بھی اس بھنور اور بحران سے نکلنے کے لیے تگ و دو کرنی چاہیے۔ اس کے برعکس میں یہاں ایک اور خاتون کی مثال ضرور دینا چاہوں گی، افلاس کے دنوں میں عزیز رشتے دار اس کی مالی مدد کرتے رہتے تھے، لیکن اس نے گھر سے منسلک شوہر کی چھوٹی سی دکان کو خود سنبھالا اور کسی ایک بچے کو آگے بٹھا کر خود پردے کے پیچھے بیٹھ کر پرچون کی دکان ایک دو گھنٹے کے لیے سنبھال لیتی۔ جب بیٹا اسکول سے آتا تو باقی دن وہ دیکھ لیتا۔ اس طرح اُس کا کاروبار چلتا رہا۔ بچے نے میٹرک کرلیا تو مکمل طور پر مرحوم باپ کی دکان سنبھال لی۔ آج وہ عزت سے جی رہی ہے۔ رب العزت تمام انسانوں کو ان کے جائز کاموں میں آسانیاں فراہم کرے۔ اگر راستے میں مشکلات و پریشانیاں آئیں تو اسے رب کی رضا و آزمائش جان کر ثابت قدمی سے دنیا کی ان مشکلات کا سامنا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ رب العزت ایسے ہی لوگوں کو کامیابی اور عزت عطا فرماتا ہے جو اس کی مدد اور سہارے پر اپنے زورِ بازو سے مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ تیمور لنگ نے ایک چیونٹی سے یہ سبق حاصل کیا کہ وہ اناج کا ایک دانہ لے کر اپنے ٹھکانے پر پہنچنے کے لیے کئی مرتبہ لڑکھڑائی، دانہ اس کے منہ سے نکل گیا، لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور آخر دانہ منزل پر پہنچانے میں کامیاب ہوئی۔ تیمور اس کے حوصلے اور ہمت سے بہت متاثر ہوا اورنئی توانائی، حوصلہ اور ہمت سے اس نے دوبارہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی۔ اُس کے اس واقعہ سے تاریخ کے صفحات آج بھی روشن ہیں۔ اللہ رب العزت ہر ایک کو ایسا حوصلہ، ہمت و توفیق عطا کرے۔ بے سروسامان آئے مہاجرین نے اُس وقت تک انصار کی مدد لی جب تک اُن کے حالات نامساعد تھے، اس کے بعد انہوں نے خود جدوجہد کی اور مدینہ میں قدم جمائے۔ رب العزت بھی ایسے ہی بندوں سے راضی و خوش رہتا ہے اور کامیابی عطا فرماتا ہے۔

حصہ