بسنت

386

آمنہ آفاق
’’نعمان… نعمان! بیٹے نیچے آئو دیکھو دادی امی بلا رہی ہیں‘ کب سے چھت پر چڑھے ہو میرے بچے‘ نیچے آئو۔‘‘ سعدیہ بیگم نعمان کو بلا بلا کر تھک چکی تھیں مگر نعمان پتنگ بازی کی دوڑ میں سب پر سبقت لے جانے کے چکر میں اپنی پیاری امی کی آواز پر کان تک نہیں دھر رہا تھا۔
’’امی آپ کو معلوم ہے ناں میں ابھی نہیں آسکتا‘ میرا مقابلہ چل رہا ہے۔‘‘ نعمان نے اوپر سے ہی آواز لگائی اور اپنے کھیل میں مگن ہوگیا۔
رات کے کھانے پر سب اکٹھے بیٹھے تھے جب دادی امی نے نعمان کو متوجہ کیا ’’نعمان بیٹا مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔‘‘
’’جی دادی امی…‘‘ نعمان نے نہایت ادب سے کہا۔
’’بیٹا! شام میں مجھے آپ سے ضروری کام تھا مگر آپ میرے بلوانے پر بھی نہیں آئے۔‘‘ دادی امی نے نرمی سے کہا۔‘‘
’’آئی ایم سوری دادی جان دراصل اس وقت میں اپنے دوستوں کے ساتھ پتنگ اڑانے میں مصروف تھا۔‘‘ نعمان نے شرمندگی سے جواب دیا۔
’’جانتی ہوں بیٹا لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ بسنت ہمارا تہوار نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں دادی جان مجھے تو نہیں معلوم مگر یہ تو ہمارے ملک میں منایا جاتا ہے۔‘‘ نعمان نے معصومیت سے جواب دیا۔
’’جی بیٹا یہ دراصل ہماری ذمے داری ہے کہ ہم سب کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھائیں‘ بسنت اصل میں ہندوئوں کا تہوار ہے‘ یہ بھارتی مہینے ماگا کی 5 تاریخ کو منایا جاتا ہے‘ ہندو اسے کلا یا گانا بجانے کی دیوی کی شان میں مناتے ہیں اس دن ہندو پیلے رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں اور مندروں میں جاکر پوجا کرتے ہیں۔‘‘
’’کیا وادی دادی جان؟‘‘ نعمان نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ دیں۔
’’جی بیٹا! آپ جانتے ہیں ناں اسلام بڑا واضح دین ہے۔ جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اُن میں سے ہوگیا۔ یہودی 10 محرم کا روزہ رکھتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم 9 اور 10 محرم کا روزہ رکھو یا 10 اور 11 کا تاکہ یہودیوں کے طریقے کار سے الگ ہو جائو یعنی اتنی احتیاط برتی جائے پھر بھی ہماری نسلیں ان غیر مسلموں کے تہوار کو بڑے جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہیں۔‘‘
’’ واقعی بہت افسوس کا مقام ہے۔‘‘ نعمان کے ابو نے بھی بات میں اپنا حصہ ڈالا اور بولے ’’دیکھو بیٹے ہم مسلمان ہیں‘ اللہ پاک نے ہمیں بھی بہت قیمتی اور انمول تہوار دیے ہیں جسے ہم عیدالفطر اور عیدالاضحی کہتے ہیں۔‘‘
’’جی بابا! یہ عیدیں تو مجھے بے حد پسند ہیں بہت مزا آتا ہے عید پر نئے کپڑے‘ جوتے‘ تحفے‘ مٹھائیاں‘ کچوریاں اور بقرعید پر تو اور بھی زیادہ اسپیشل…‘‘ نعمان کے منہ میں پانی بھر آیا۔
’’اچھا ایک بات بتائو بیٹا‘‘ دادی جان نے پھر سے بات کا آغاز کیا ’’کیا تم نے کبھی یہ دیکھا یا سنا ہے کہ کسی یہودی یا ہندو نے عید منائی یا بقرعید پر گائے وغیرہ کی قربانی کی؟‘‘
’’نہیں دادی جان ایساتو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔‘‘ نعمان نے جواب دیا۔
’’تو پھر بیٹا ہم کیوں ان غیر مسلموں کی تقلید پر تقلید کے جارہے ہیں‘ یہ بسنت‘ نیو ائر‘ ویلنٹائن ڈے ہو یا مدر‘ فادر ڈے ہر تہوار ہی ان دشمنان دین کا ہے‘ پھر کیوں ہماری نسلوں کو ان سے آشنا کرایا جارہا ہے کیوں کہ بیٹا یہ لوگ ہماری نسلوں کو ان تفریحات اور رنگینیوں میں الجھا کر دینی تعلیمات سے دور کردینا چاہتے ہیں… اور دیکھو تو بیٹا…‘‘ دادی امی آبدیدہ ہوگئیں تو سعدیہ نے سلسلہ کلام جوڑا ’’یہ بسنت جیسے تہوار میں پتنگ بازی کے لیے مختلف قسم کے تاروں کا استعمال کیا جاتا ہے جو کتنی ہی معصوم جانوں کی ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے اور کھیل ہی کھیل میں کتنی ہی جانیں چلی جاتی ہیں تو پھر ہم کیوں ان تہواروں کو اپنا کر لوگوں کے غموں کا سبب بنیں اور دین سے دوری کا عملی نمونہ پیش کریں۔ آخر غیر مسلموں کے تہوار اپنا کر اپنے رب کو ناراض کیوں کریں؟‘‘ سعدیہ بیگم کے اس طرح سوال کرنے پر نعمان نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔
’’تو پھر بیٹا کیا آپ اب بھی بسنت کا تہوار منانا چاہیں گے؟‘‘ دادی جان نے سوال کیا۔
’’نہیں دادی جان! کبھی نہیں‘ میں بسنت ہی نہیں بلکہ ہر وہ تہوار جو غیر مسلموں کا ہے‘ نہیں منائوں گا اور اپنے دوستوں کو بھی ایسا کرنے سے روکوں گا۔‘‘ نعمان نے پر عزم لہجے میں جواب دیا۔
’’شاباش دادی کی جان! مجھے تم سے یہی امید تھی۔‘‘ دادی جان نے پیار سے نعمان کو گلے سے لگا لیا اور کمرے میں موجود تمام لوگ مسکرا دیے۔

حصہ