محمد یوسف ملک
حامد کے گھر پر اس کے کزنز کی محفل جمی ہوئی تھی۔ سعد ،علی ، شہزاد ،حارث کراچی سے عثمان چچاکے گھر مع سازو سامان چھٹی منانے پہنچے ہوئے تھے۔ یہ پانچوں میٹرک پاس کر چکے تھے ۔ گاوٗ ں میں کسی قریبی عزیز کی شادی تھی ۔ جو لاہور سے تین گھنٹے کی مسافت پر تھا ان کے والدین نے بچوں کو لاہور عثمان چچا کے گھر چھوڑکر ساتھ جا نے کا ارادہ کیا ۔بچوں کے لیے اس سے بڑھ کر کیا بات ہو سکتی ہے! حارث کے بیگ سے بلا اور گیند،سعد کے بیگ سے فٹ بال نکلی۔ شہزاد اور علی کے بیگوں سے مختلف کھیل کے سامان بر ٓمد ہوئے۔ اگلے دن سویرے چچاچچی اورامی ابوکی ٹرین تھی۔حامد عثمان چچا کا بیٹا ہے عبداللہ حامد کا چھوٹا بھائی ہے۔ان سب سے بڑھ کر شرارتی ہے ۔جس کا پسندیدہ مشغلہ شرارتیں کرناہے چنانچہ اس کو والدین اپنے ساتھ ہی لے گئے تھے۔
جیسے ہی وہ سب روانہ ہوئے تمام لڑکوں کا کھیل شروع ہوا جو کسی وقفے کے بغیر چلتا رہا !کھانے پینے کا ہوش کسی کو نہیں تھا ۔کھیل سے تھکتے تو درخت پر چڑھنے اترنے کا شغل شروع کر دیتے ۔ بہت دیر بعد جب پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے تو سعد اور علی نے بر گرآ ڈر کیا ۔حامد کی فر مائش پرساتھ میں پیزا بھی منگوایا گیا ۔ کھا پی کر اور نئی طاقت کے ساتھ انہوں نے چاچا سے اپنے گھرقائد اعظم کے بارے میں پروگرام کروانے کے بارے میں پوچھا ۔ چچاشادی کی تقریب میں مصروف تھے۔انہوں نے اپنی جان چھڑانے کے لیے اجازت دے دی ۔ اجازت ملنے کی دیر تھی کہ کاروائی شروع ہوگئی ۔’’ـــ فرمودات قائد‘ ‘نامی کتاب سے سعد ، شہزاد اور حارث نے پوسٹر پر ڈرائنگ اور قائد اعظم کے بارے میں معلومات لکھیں ۔ان کے ساتھ قائد اعظم کی تصویر بنا کر اسے پینٹ بھی کیا ۔ بچوں کی دلچسپی کے لیے گیمز بھی سوچے گئے ۔ پروگرام کی تیاری کے ساتھ ساتھ اطلاع کے لیے دعوت نامے تیار کیے جو علی نے گھروں میں جاکر دیے ۔ حامد نے پروگرام کی تیاری مثلا مایئک اور ٹینٹ اور شرکاء کی تواضع کے لیے انتظام وغیرہ وغیرہ۔
پرو گرام کا آغاز تلا وت کلام پاک سے ہوا۔اس کے بعد حدیث پھر نظم پھر قائد کے اقوال پھرتقاریر پیش کی گی۔ ۔اور اول دوئم اور سوئم کو انعامات دیے گیے۔اور دوسروںکی حوصلہ افزائی کی گئی۔او رشر کا ء کی تواضع کی گئی اور پانچوں بھائیوں نے قائد اعظم کے بارے میں کوئز لیا ۔ حاضرین نے حوصلہ افزائی کی اور مہمان خصوصی نے کہا کے بچوںکے پروگرامز ہونے چاہیے تاکہ بچوں کی معلوما ت میں اضافہ ہو سکے۔ اس سے ان بھائیوں کا حوصلہ بڑھا ۔ پروگرام کے آ خر میں دعا کی گئی کہ اللہ اس پاکستا ن کو قائداعظم اور علامہ اقبال کی چاہت جیسا بنا دے۔ اگلے دن انہوں نے اپنے والدین کو اس پروگرام کی ویڈیو دکھائی۔جس پر ان کے والدین نے شاباشی دی۔ان کا گروپ کا نام فایئو تھا۔ان کی ٹیم کا مقصد بچوں کے پروگرام کر نا تھا۔یہ بعد میںبچوں کی تنظیم بزم ساتھی کا حصہ بن گئی ۔
مسکرائیے
٭ استاد بچوں سے گرامر کے لحاظ سے بتائو کہ یہ کونسا زمانہ ہے۔
’’بچے نقل کررہے ہیں‘‘
ایک بچہ: جناب یہ امتحان کا زمانہ ہے۔
٭٭٭
٭ استاد شاگرد سے سوچ کر بتائو اگر میں آپ کے والد کو 500 روپے دوں جبکہ انہیں 200 روپے کی ضرورت ہے تو وہ مجھے کتنے روپے واپس کریں گے۔
شاگرد: ایک روپیہ بھی نہیں سر۔
استاد (غصے سے): تم حساب نہیں جانتے۔
شاگرد: سر آپ میرے والد کو نہیں جانتے۔
٭٭٭
٭ استاد (شاگرد سے): اورنگ زیب کی وفات کے بعد کیا ہوا۔
شاگرد: اسے بڑی شان و شوکت سے دفنایا گیا۔
استاد: نالائق …
شاگرد: یاد آیا پہلے غسل دیا گیا ہو گا۔
٭٭٭
٭ سردر جی اپنے بیٹے سے اوئے تو گھبرا مت تو شیر کا پتر ہے۔
بیٹا: ارے بابا جی! کلاس میں ٹیچر بھی یہ ہی پوچھتی رہتی ہیں کہ تم کس جانور کی اولاد ہو۔
٭٭٭
٭ ایک آدمی نے کسی بچے سے پوچھا۔
میاں منے ڈاک خانہ کہاں ہے۔
بچہ: جی وہ تو ہمارے گھر کے سامنے ہے۔
آدمی: اور تمہارا گھر کہاں ہے۔
بچہ: جی ڈاک خانے کے سامنے۔
آدمی تنگ آکر بولا بھئی یہ دونوں کہاں ہیں۔
بچہ: جی آمنے سامنے۔