افشاں نوید
جسم کے کسی حصے کا آپریشن ناگزیر ہوجائے تو ڈاکٹر ہفتوں مختلف لیبارٹریوں سے رپورٹس نکلواتے ہیں، ڈاکٹروں کے پینل سر جوڑ کر بیٹھے ہیں، آپریشن کا دن اور وقت طے پاتا ہے ما قبل اور ما بعد کے حفاظتی اقچدامات بتائے جاتے ہیں۔ اگرچہ ناگزیر حالات میں جسم پر نشتر زنی کی جاتی ہے مگر پہلے لواحقین سے دستخط لیے جاتے ہیں، انسانی جان اتنی ہی قابل احترام ہے۔ اس لیے کہ انسان اس دنیا میں اللہ کا نائب ہے۔ اس کا خلیفہ قابل تعظیم ہے۔
زندگی اللہ تعالیٰ کا سب سے مقدس اور قیمتی عطیہ ہے۔ ہر شریعت نے انسانی جان کی حفاظت کے لیے حدود و قیود مقرر کر رکھی ہیں۔ دنیا بھر میں ریاستیں انسانی حقوق کی حفاظت کو ترجیح اوّل سمجھتی ہیں۔
وطن عزیز میں جتنے سانحات رونما ہوتے ہیں محسوس یوں ہوتا ہے کہ ریاست ماں کے بجائے عالم سوکن ماں کا کردار ادا کررہی ہے۔ قاتل کبھی سردار نہیں لٹکائے جاتے، مقتولوں کو کبھی پیسے کالالچ دے کر، کبھی ڈرا دھمکاکر خاموش کرادیا جاتا ہے آج جس عدم تحفظ کے سمندر میں ہم بغیر چپو کی کشتی میں سوار ہیں۔ یہ 72سال کی خراب حکمرانی اور غیر ذمہ داری کا نتیجہ ہے۔
ریاست کے پاس لاکھ زرخیز زمینیں، سونے کی کانیں، غیر ملکی زرمبادلہ کے پہاڑوں کے برابر بھی ڈھیر ہوں لیکن وہ ریاست کنگال ہے جس پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے ریاستی ادارے عدم تحفظ کے نشان اور سماجی ترقی کے راستے کے سرخ سگنل بن جائیں، ڈاکٹر کاسفید کوٹ تحفظ کی علامت ہے۔ انسان دوستی کی دلیل ہے، اس کے مسیحا ہونے کا پیغام ہے، ریاست کے محافظ اداروں کی وردیاں عوام کے لیے حفاظت کی سمبل ہوتی ہیں، یہ وردیاں ایک خاموش پیغام ہوتی ہیں کہ ریاست میں ہر ایک کے حقوق محفوظ ہیں۔ ریاست انسانی جان کی قدر و قیمت جانتی ہے۔ انسانی حقوق پر دست درازی کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔
چاہے سانحہ باوجوڑ ہو یا ماڈل ٹائون، سانحہ گیارہ مئی ہو یا سانحہ ساہیوال یہ سب عوام کو ایک ہی بات باور کراتے ہیں کہ ادارے مضبوط ہیں اور عوام کمزور۔ یہاں ریاست فرد کی آزادی سلب کرتی ہے، اس سے زندہ رہنے کا حق تک چھین لیتی ہے لیکن فرد کے پاس داد رسی کے لیے کوئی راستہ نہیں بچتا اس لیے کہ حکومت ہمیشہ مقتولوں کے بجائے قاتلوں کی صفت میں کھڑی نظر آتی ہے۔
ساہیوال میں CTD اہلکاروِں نے بربرت کی جومثال قائم کی اس کا نوحہ اپنی جگہ مگر اس حادثے سے بڑا سانحہ حکومت کے سنگدلی سے بولے گئے جھوٹ تھے۔ جھوٹ پر جھوٹ بھول کر حکومت نے قاتلوں کے دفاع کا فرض منصبی بہت خیر و خوبی سے ادا کیا۔ انصاف سسکتا رہا، بلبلاتا رہا۔ ڈرامہ یہ رچایا گیا کہ گاڑی میں اغوا کار تھے جو بچوں کو اغوا کرکے لے جارہے تھے۔ دہشت گردوں کو ہلاک کرکے بچے بازیاب کرالیے گئے۔ چاروں دہشت گرد مارے گئے، گاڑی سے کود کش جیکٹس، گولہ بارود اور اسلحہ برآمد ہوا۔ آئی جی پنجاب کے دفتر سے پریس ریلیز جاری ہوتا ہے کہ دہشت گرد گاڑی اور موٹر سائیکلوں پر سوار تھے۔ پولیس نے پیچھا کیا فائرنگ کے تبادلہ ہوا، دہشت گرد اپنی فائرنگ سے مارے گئے۔ موٹر سائیکلوں پر سوار دہشت گرد فرار ہوگئے۔
یہ کیسے دہشت گرد تھے جن کے پاس اصل شناختی کارڈ تھے، گاڑی کا لائسنس تھا، اصل نمبر پلیٹ کی گاڑی میں تھے، یہ ہے قانون پسند دہشت گردی، کیا دنیا میں کہیں تربیت یافتہ پولیس ایسے آپریشن کرتی ہے؟ گاڑی روکی جاسکتی تھی، گھیرا ڈال کر وارننگ دی جاتی ہے۔ پولیس ہینڈز اپ کراکے حراست میں لے لیتی۔ کیا کہیں ٹارگٹڈ آپریشن اس طرح ہوتے ہیں وہ تو شکر ہے کہ یہ بیان جاری نہیں ہوا کہ داعش کے خلاف بڑا آپریشن کامیاب، خطرناک ملزم ذیشان مارا گیا۔ تین مزید دہشٹ گرد ہلاک، سی ٹی ڈی اہلکاروں کے لیے نقد انعامات اور تعریفی اسناد۔ اگلے دن کے اخباروں میں ہیروز کی طرح ان کی تصاویر شائع ہوتیں، اگر سوشل میڈیا نے بھانڈا نہ پھوڑ دیا ہوتا۔
آزاد جموں و کشمیر میں روز نوجوان شہداء کے لاشے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، ساہیوال کے سانحے نے ثابت کردیا کہ اب اپنے ہی چوکی، ناکے اور چیک پوسٹیں کشمیر اور فلسطین کی طرح غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔
جے آئی ٹی کی جو بھی رپورٹ ہو ان تین زندہ بچ جانے والوں کے لیے زندگی کس قدر دشوار ہوگی جنہوں نے اپنے والدین اور بہن کو گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھا۔ تحقیقات قاتلوں کے بجائے مقتولوں سے کی جاتی ہے۔ ان پر مزید عذاب کے کوڑے برسائے جاتے ہیں۔ چینلز اپنی ریٹنگ میں اضافے کے کیے کوشاں ہوجاتے ہیں۔ پیمرا اپنے جال پھینکتی ہے۔ بے سہارا، زخمی دل، لٹے پٹے خاندان سے اپنی مرضی کے بیانات دلوائے جاتے ہیں، وہ پارلیمنٹ جہاں ’’اپنے نمائندے‘‘ منتخب کرکے بھیجتی ہے جن کو اپنا نجات دھندہ سمجھتی ہے وہ مظلوم کے بجائے ظالم کی صف میں نظر آتے ہیں۔ یہاں لاٹھی والوں کی بھینسیں ہوا کرتی ہیں۔ دل خون ہوتا ہے جب حکومت قاتلوں کی پشت بان بن کر رہیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ عوام کو کچھ ’’برطرفیوں‘‘ کے لالی پاپ دے کر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیسا طرفہ تماشہ ہے کہ ادارے مضبوط ہوں اور عوام کمزور۔ عوام کے منتخب نمائندے ان کا دست و بازو بننے کے بجائے جب حکمرانی کا تاج پہن لیتے ہیں تو قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ عوام ہمیشہ اس لیے دونوں کے ذریعے یہ نشیمن بناتے ہیں کہ کوئی آگ لگا دے اور ان ہی کے نشیمنپر بجلیاں گرادے۔ قاتلوں سے کون حساب لے ان کے جرم کا، یہاں مطالبہ مقتولین کے خاندانوں سے ہوتا ہے کہ وہ ثابت کریں کہ وہ دہشت گرد نہیں ہیں۔
یہ کیسی خلیج ہے جو وسیع تر ہوتی جارہی ہے، ایک طرف ڈاکٹرز، چانسلرز، اساتذہ اور صحافیوں کو ہتھکڑیاں لگا کر رسوا کیا جارہا ہے جب کہ دوسری طرف حکومت گلو بٹوں کی محافظ۔ کل تک سانحۂ ماڈل ٹائون پر جو کہتے تھے کہ ’’اگر ایسا سانحہ دنیا کے کسی مہذب ملک میں رونما ہوتا تو نہ صرف متعلقہ وزیر بلکہ وزیر اعظم تک استعفیٰ دے دیتا۔ ایک لمحہ نہیں لگتا… شہباز شریف کو شرم آنی چاہیے اب تک عہدے سے چمٹا ہوا ہے‘‘۔ چھ ماہ کے اقتدار میں ویسا ہی سانحہ پی ٹی آئی کے دور میں رونما ہوتا ہے اور وقت آئینہ دکھا رہا ہے کہ کون اپنے کہے کی لاج رکھتا ہے؟؟ مدینہ جیسی ریاست کے دعوے دار بے غیرتی کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ ایسے واقعات ساری دنیا میں ہوتے ہیں۔
حکمرانوں کی بے حسی کی انتہا ملاحظہ کیجئے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اس معصوم بارہ برس کے عمیر سے ملنے اسپتال پہنچے تو ان کے ہاتھوں میں گلدستہ تھا۔ وہ تو شکر ہے کہ بچہ سورہا تھا ورنہ اس کو گلاب کی سرخی میں اپنے والدین کے لہو کی آمیزش محسوس ہوتی اور شاید وہ بے ہوش ہوجاتا۔ گلدستہ سرہانے رکھ کر سوتے ہوئے عمیر کے ساتھ فوٹو شوٹ کراکے نہ معلوم وزیر اعلیٰ نے قوم کو اور دکھی خاندان کو کیا پیغام دیا۔
تصویر میں بوکے پر نظر پڑی تو مجھے ذہن میں وہ پھول گھوم گئے جو میں نے ڈاکٹغر عافیہ صدیقی کی والدہ عصت صدیقی کے سرہانے سائیڈ ٹیبل پر رکھے دیکھے تھے۔ ان کی شدید علالت کے بعد جو بہ گھر واپس آگئیں تو ہم ان کی قیادت کو ان کے گھر گئے، کئی خوبصورت بوکے اور ان پر لگے ٹیگ دیکھے، کوئی وزیر اعظم کی طرف سے تھا کوئی وزیر اعلیٰ کی طرف سے۔ کوئی کسی وزیر کی طرف سے ایک ماں جس کا نشیمن اجاڑ دیا گیا ہو اس کے گلشن کے پھول بے دردی سے نوچ لیے گئے، ہوں اس ماں کو ان پھولوں کے ذریعے کیا پیغام دینا مقصود تھا؟… وش کارڈز پر درازیٔ عمر کی دعائیں تحریر تھیں، میں سوچنے لگی جینے کے سارے اسباب چھین کر درازیٔ عمر کی دعائیں کون شقی القلب دے سکتا ہے؟؟
ننھے عمیر کے سرہانے رکھے گلاب شرمندہ شرمندہ سے تھے۔ ہماری یادداشتوں سے دیگر کی طرح یہ سانحہ بھی محو ہوجائے گا۔ تقریر، تحریر اور بیانات پھر فائلوں کی نذر ہوجاتے ہیں یہ سانحات
عوام منتظر ہیں کہ پورے ملک کو ہلا ڈالنے والے اس سانحے کی کھلی عدالتی تحقیق کا اہتمام کیا جائے، حقائق بلا کم و کاست سامنے لائے جائیں اور ذمہ دروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔