روبینہ اعجاز
چھک چھک کر کے چلتی جائے
ریل گاڑی ہمیں گھمائے
شہر شہر یہ ہمیں گھما کر
ہر سو نظارے یہ دکھلائے
منظر سارے کتنے پیارے
کھیت کھلیان۔دریا ہیں نرالے
مالٹے درختوں میں لٹک رہے ہیں
سرسوں کے پودے لہک رہے ہیں
صبح وشام یہ چلتی جائے
اسٹیشن آئے تو رک جائے
رونق کیسی لگی ہوئی ہے
دنیا یہاں کی نئی نئی ہے
گرم پکوان کافی اور چائے
جو دل چاہے یہاں مل جائے
آرام سے سب کو بٹھا کر
چھک چھک کر کے چلتی جائے