شریکِ مطالعہ

2048

نعیم الرحمن
۔2018ء جاتے جاتے اردو ادب کی دو اہم اور منفرد خواتین ادیبوں کو ساتھ لے گیا۔ الطاف فاطمہ اردو کی اہم افسانہ و ناول نگار اور مترجم تھیں۔ انہوں نے نصف صدی سے زائد مدت میں ادب کو کئی بے مثال ناول، افسانوی مجموعے اور تراجم سے مالامال کیا۔ وفات سے قبل 90 سالہ الطاف فاطمہ کا آخری افسانوی مجموعہ ’’دید و ادید‘‘ شائع ہوا۔ پروین عاطف کے دو غیر معمولی اور منفرد سفرنامے اورکئی افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔ وہ کالم بھی لکھتی رہیں۔ انہوں نے اردو کے علاوہ پنجابی میں بھی لکھا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان کی ان دو معروف خواتین لکھاریوں کی وفات پر، جن کا کام نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے، کوئی خاص تحریری ردعمل سامنے نہیں آیا، بلکہ ویب سائٹس پر بھی ان کے بارے میں معلومات کا فقدان نظر آتا ہے۔ دونوں خواتین کا تعلق ایسے گھرانوں سے تھا جنہیں بجا طور پر ’’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔
الطاف فاطمہ 10 جون 1927ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئیں۔ ان کی پیدائش کا سن بعض جگہ 1929ء بھی لکھا گیا ہے۔ الطاف فاطمہ کے اجداد کا تعلق خیرآباد سے تھا، جو 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد ریاست پٹیالہ میں آباد ہوگئے۔ علامہ فضل حق خیرآبادی اور ہندوستان کی کسی بھی زبان میں لکھے جانے والے پہلے ناول ’’نشتر‘‘ کے مصنف حسین شاہ کا تعلق الطاف فاطمہ کے خاندان سے تھا، جن کا علمی و ادبی کام ان کو وراثت میں ملا۔ اردو زبان کے منفرد اور مقبول افسانہ نگار سید رفیق حسین، الطاف فاطمہ کے سگے ماموں تھے جنہوں نے جانوروں کی نفسیات پر افسانے لکھ کر شہرت حاصل کی۔ والد فضل امین، علی گڑھ کے فارغ التحصیل اور ریاست جاورہ کے چیف سیکریٹری تھے۔ اس قدر زرخیز ادبی ورثے کی حامل الطاف فاطمہ کی لازوال تحریروں کو اردو زبان و ادب فخر کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔
پاکستان بننے کے فوری بعد الطاف فاطمہ کا پورا خاندان لاہور میں آباد ہوگیا۔ انہوں نے ایم اے اردو، یونیورسٹی اورینٹل کالج سے کیا، اور بی ایڈ کے بعد درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئیں۔ ان کا پہلا افسانہ 1962ء میں ادبی جریدے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔ انہوں نے اپنا پہلا ناول ’’نشانِ منزل‘‘ بھی دورِ طالب علمی میں لکھا تھا۔ لیکن الطاف فاطمہ کو بے پناہ شہرت و مقبولیت یادگار ناول ’’دستک نہ دو‘‘ سے ملی۔ یہ ناول اردو نصاب میں شامل رہا ہے۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہوا، پی ٹی وی پر اس کی ڈرامائی تشکیل بھی کی گئی۔ الطاف فاطمہ ریڈیو کے لیے فیچر بھی لکھتی رہیں۔ ہارپرلی کے شہرۂ آفاق ناول To Kill A Mocking Bird کا ترجمہ الطاف فاطمہ نے ’’نغمے کا قتل‘‘ کے عنوان سے کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بنگالی، مراٹھی، تامل، گجراتی اور ہندی افسانوں… اور لاطینی، امریکی اور جاپانی خواتین کے افسانوں اور ایلسا مارسٹن کی مشرقِ وسطیٰ سے متعلق کہانیوں کو بھی اردو کے پیرہن میں ڈھالا۔
معروف افسانہ اورکالم نگار زاہدہ حنا، الطاف فاطمہ کے فن کی معترف ہیں اور ادبی پنڈتوں کی ان سے بیگانگی کا ذکر کس خوب صورتی سے کرتی ہیں ملاحظہ کیجیے: ’’عبور دریائے شور کی سزا پانے اور کالا پانی کاٹنے والے علامہ فضل حق خیر آبادی کا خون ہیں۔ وہی طنازی، وہی شانِ بے نیازی۔ اس لکھن ہاری نے کیا دھوپ چھاؤں تحریریں لکھی ہیں۔ حزن و ملال کے مجیٹھی رنگ میں رنگی ہوئی شیفتگی اور وارفتگی کے قصے، الاچہ اور طرحدار کے ریشمی تھانوں کی طرح آنکھوں کے راستے دل میں اترتی ہوئی کہانیاں… کہانیوں، ناولوں اور ترجموں کے انبار لگاتی ہوئی، بچوں کو بھولی بسری اور نئی نویلی کہانیاں سناتی ہوئی یہ گوشہ گیر لکھن ہاری نہ کلکٹر، نہ کمشنر، نہ کسی ادبی تحریک میں شریک، نہ تحسین باہمی کے کسی دائرے میں شامل، نہ مے سے کام، نہ مے پرستوں سے کلام، نہ سر کے گرد رسوائیوں کا ہالہ، نہ شانوں پر سرکاری انعام و اکرام کا دوشالہ، ایک ایسی جوگن بیراگن کی طرف ادب کے بادشاہ گر نظر بھر کر بھی کیوں دیکھتے! سو، الطاف فاطمہ اپنی لکھت گٹھری کاندھے پر دھرے، ناقدری کا کالا پانی کاٹ رہی ہیں۔ اردو ناول و افسانے کے پارکھ ان سے اگر سرسری گزرے تو یہ الطاف فاطمہ کا گھاٹا نہیں، اردو ادب کا زیاں ہے۔‘‘
زاہدہ حنا کی تحریر کا ایک ایک لفظ الطاف فاطمہ کے فن کی ناقدری پرنوحہ کناں ہے۔ ایک ایسی نثر نگار جس نے نصف صدی سے زیادہ اور 90 سال کی عمر تک کوچۂ ادب میں گزارے، لیکن انہیں وہ مقام نہیں ملا جس کی وہ حق دار تھیں۔ ادب کے لیے ان کا وسیع کام نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ الطاف فاطمہ نے چار ناول تحریرکیے۔ ’’نشانِ منزل‘‘، ’’چلتا مسافر‘‘، ’’خواب گر‘‘ کے علاوہ ان کا سب سے مقبول اور بے مثال ناول ’’دستک نہ دو‘‘ ہے۔ چاروں ناول اپنے موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے منفرد اور بہترین ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعوں میں ’’تارِ عنکبوت‘‘، ’جب دیواریں گریہ کرتی ہیں‘‘، ’’وہ جسے چاہا گیا‘‘ اور تقریباً نوے برس کی عمر میں شائع ہونے والا ان کا آخری مجموعہ ’’دید و ادید‘‘ شامل ہے جس میں ان کے چوبیس گم شدہ اور نئے افسانے شامل کیے گئے ہیں۔ ان افسانوں کی بازیافت کرنے والے محسنین کا ذکر الطاف فاطمہ اس دل نواز انداز اور لکھنوی تہذیب کے رچاؤ سے کرتی ہیں: ’’سچے اور مخلص جذبوں کے تحت کیے ہوئے احسانوں کا کوئی مول اور بدل نہیں، اور پھر ایسے لوگوں کے احسانوں کا جنہیں ہم نے دیکھا بھی نہیں، دیکھنا یا جاننا تو بڑی بات اُن کے نام اور کوائف سے آگاہی تک نہیں اور ان کے احسان کی اہمیت اور وقعت کہ گراں قدر اور بے بہا ہو… ہم سمجھتے ہیں اپنے جذبۂ استحسان کا اظہار چند رسمی اور مروجہ الفاظ میں لکھ یا بول کر ہم نے اپنا فرض اور ناخن کا قرض ادا کردیا اور ہم سپاس گزاری اور شکر گزاری کے ہر فرض سے عہدہ برا ہوجائیں گے۔ مگر ایسا ہے نہیں۔ ایسے غیر معمولی جذبوں اور احسانوں کا مول تو ہوتا ہی نہیں۔ یہ جذبہ تو ہمارے وجود سے چمٹ کر رہ جاتا ہے۔ ان کے یہ انمول جذبے ایک سریلے نغمے کی طرح اندر ہی اندر گونجتے اور ایک دل نواز کسک بن کر تروتازہ رہتے ہیں۔ سب سے پہلے تو میں پروفیسر اسحاق صاحب کی مقروض ہوں کہ ان کا احسان میرے تصور سے کہیں زیادہ مقدس اور بلند ہے۔ ’’سانکھیا یوگی‘‘ اور چند دوسرے افسانے انہی کی بدولت بازیافت ہوسکے۔ اسحاق نعیم ڈسکہ کے ایک کالج میں پروفیسر ہیں۔ اس طرح مجھے ان سے شعبۂ تدریس میں ہم پیشہ ہونے کا فخر حاصل ہے۔ پروفیسر صاحب سے میرا دوسرا رشتہ اس کرب کا بھی بنتا ہے جس سے وہ تاحال گزر رہے ہیں، یعنی بصارت سے محرومی۔ میں تقریباً پانچ، چھ سال تک مکمل اندھیروں میں رہی۔ مگر پروفیسر صاحب کے لیے محرومی کا لفظ ہرگز استعمال نہ کروں گی کہ ان کے اندر تو بصیرت کے روشن چراغوں نے چراغاں کیا ہوا ہے۔‘‘
افسانوں اور ناولوں کے علاوہ بھی الطاف فاطمہ کا کام کئی جہتوں میں پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے جاپانی اور امریکی افسانہ نگار خواتین کے تراجم کیے، سچ کہانیاں کے عنوان سے بنگالی، گجراتی، مراٹھی، تامل اور ہندی افسانوں کو اردو کا جامہ پہنایا۔ ’’اردو فنِ سوانح نگاری اور اس کا ارتقا‘‘ اور ’’بڑے آدمی اور ان کے نظریات‘‘ بھی ان کی اہم کتابیں ہیں۔
اردو ادب کے بڑے نقادوں میں شامل سید وقار عظیم نے الطاف فاطمہ کے افسانوی مجموعہ ’’وہ جسے چاہاگیا‘‘ کے مقدمے میں اُن کے فن کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے: ’’ایک محبت سے صدہا انسانوں کی تخلیق ہوتی ہے اور ایک غم کی کوکھ سے ہزاروں کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ فرق صرف اُس نظر کا ہے جس سے محبت کا اور غم کا ایک انوکھا روپ سامنے آتا ہے، اور فرق اُس دل کا ہے جو ہر سینے میں نئے انداز سے دھڑکتا ہے، اور پھر اُس دماغ کا جس کی اپنی سوچ ہے اور یہ سوچ ہر دوسرے آدمی کی سوچ سے مختلف ہے۔ آنکھ، دل اور دماغ کے اِس فرق سے زندگی کے ہزاروں فلسفے بنتے ہیں، لیکن فلسفے بنتے صرف اُس صورت میں ہیں کہ جب انسان اپنی نظرسے دیکھے، اپنے دل سے محسوس کرے اور اپنے دماغ سے سوچے۔ نظر کے جلوے، دل کی دھڑکنیں اور دماغ کی الجھنیں، ان سب میں ہماری ذات کا عکس اور نقش ہے۔ ذات کی انفرادیت جتنی واضح اور جتنی گہری ہوگی جلووں کی رعنائی، دھڑکنوں کے کے آہنگ اور الجھنوںکے پیچ وخم میں اثر انگیزی اور دل نشینی کا وصف اتنا ہی نمایاں ہوگا۔ یہ وصف الطاف فاطمہ کی کہانیوں میں قابلِ رشک حد تک موجود ہے۔ یہ وصف بغیرکسی دعوے، نمائش اور نام ونمود کی خواہش کے، دوسروں کے دُکھوں سے آگاہ ہونے اور ان دکھوں کواپنا بنا لینے کا وصف ہے۔ ‘‘
اردو کے جانے مانے نقاد سید وقار عظیم کے اس خراجِ تحسین کے بعد الطاف فاطمہ کے فن پر کچھ اور کہنے کی گنجائش نہیں ہے۔
٭…٭
پروین عاطف بھی ایک ہمہ جہت ادیب و فن کار گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ 1935ء میں گوجرانوالہ کے قریب ایمن آباد میں پیدا ہوئیں۔ ممتاز افسانہ نگار اور ناول نگار ممتاز مفتی کی تحریک پر انہوں نے ادب کی دنیا میں باقاعدہ قدم رکھا۔ ان کے بھائی احمد بشیر مشہور ترقی پسند ادیب، کالم نگار اور دانش ور تھے۔ احمد بشیر کی بیٹی نیلم احمد بشیر اردو کی مشہور اور مقبول افسانہ نگار ہیں۔ حال ہی میں ان کا پہلا ناول ’’طاؤس فقط رنگ‘‘ بھی شائع ہوا ہے۔ نیلم کی بہنیں بشریٰ انصاری، اسماء اور سنبل ٹی وی کی مقبول اداکارائیں ہیں۔ پروین عاطف کے ایک بھائی اختر عکسی کے بارے میں احمد بشیر کا کہنا ہے کہ وہ بہت منفرد مزاح نگار تھا، لیکن لمبی زندگی نہ پاسکا۔
پروین عاطف کی پہلی کتاب سفرنامہ ہے جو ’’کرن، تتلی اور بگولے‘‘ کے نام سے جنوری 1987ء میں شائع ہوا۔ انہیں تحریر کی جانب راغب کرنے والے ممتاز مفتی نے اس سفرنامے کے فلیپ پر لکھا ہے کہ ’’شخصیت کے اعتبار سے پروین عاطف میلہ گھومنی ہے، اسے صرف گھومن سے دلچسپی نہیں، ویکھن کی بھی لت پڑی ہے۔ وہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ دیکھتی ہے۔ نکتہ چیں نہیں، مزا لیتی ہے۔ پروین عاطف کی تحریر میں سب سے بڑی خصوصیت انفرادیت ہے۔ وہ ہر واقعہ، سچویشن اور کردار کو اپنی نظر سے دیکھتی ہے اور اسے بندھے ٹکے نہیں بلکہ اپنے الفاظ میں بیان کرتی ہے۔ اس کا اندازِ بیان روایت اور جدت کی خوش گوار آمیزش ہے۔ پروین عاطف کے اسلوب میں بڑی رنگینی اور جاذبیت ہے۔ وہ بات کہہ دینا جانتی ہے اور باتوں ہی باتوں میں بڑی بڑی باتیں کہہ جاتی ہے… ایسی باتیں جنہیں کہنا آسان نہیں ہوتا، جنہیں کہنے سے پہلے قلم کار سوچتا ہے، لیکن پروین عاطف بے سوچے سمجھے روانی میں کہہ جاتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ قاری پرگراں بھی نہیں گزرتیں۔ پاکستانی خواتین ہاکی ایسوسی ایشن کی سربراہ ہونے کی حیثیت سے اسے بار بار بیرونی ممالک کے دورے کرنے پڑے۔ ان دوروںکے بھرپور تاثرات نے اس کی تحریر کا رُخ افسانہ نگاری سے ہٹاکر سفرناموں کی طرف موڑ دیا، لیکن ایک افسانہ نگارکی حیثیت سے میں سمجھتا ہوں کہ بنیادی طور پر پروین عاطف افسانہ نگار ہے۔ اس کے افسانے میں بڑی جان ہے، وہ قدیم و جدید کا سنگم ہے۔ مجھے پروین کے افسانے سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔‘‘
ممتاز مفتی جیسے اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگار نے پروین عاطف سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں، انہیں پروین نے بہ خوبی پورا کیا اور اردو ادب کوکئی شان دار افسانوی مجموعے دیے۔ پروین عاطف نے اپنے افسانوں میں دیہاتی اور شہری زندگی میں خواتین کے مسائل کی بہت شاندارعکاسی کی ہے۔
ادیب ، دانشور اور بیورو کریٹ قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ’’پروین عاطف کے اسلوب بیان میں نہایت سلاست اور شگفتگی ہے۔ چھوٹے چھوٹے فقروں میں غیر معمولی فصاحت اور سادگی کے عناصر نمایاں ہیں، جو قاری کے ذہن پر بوجھ نہیں ڈالتے۔ خاص طور پر ان کے سفرناموں میں اقوام اور ممالک کے ظاہر و باطن کے عکس کے علاوہ ان کے ذریعۂ اظہار میں ڈرامائی انداز کی بے ساختگی کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے۔ ادب کے میدان میں نووارد ہونے کے باوجود پروین کی تحریروں میں کہنہ مشق لکھنے والوں کی سی پختگی ہے۔‘‘
ایک بڑے ادیب کی یہ تعریف بالکل بجا تھی اور پروین عاطف نے اپنے طویل قلمی سفر میں اسے ثابت بھی کیا۔
سفرنامے میں پروین عاطف نے ان جگہوں کا رُخ کیا اور ان کے بارے میں لکھا جن پر لکھتے ہوئے مردوں کے بھی پر جلتے ہیں۔ کرن تتلی اور بگولے کے پیش لفظ میں پروین لکھتی ہیں کہ ’’شاید آپ پوچھیں اتنے برس کیوں نہیں لکھا؟ تو میں کہوں گی سچے لکھاریوں کو تو میں زندگی بھر بابا فرید شکر گنج، معین الدین چشتی، یاکرشن مہاراج وغیرہ سمجھ کر ان کے مدار سے دور دور دھمال ڈالتی رہی، ان کی پوجا کرتی رہی۔ اپنی ناتواں انگلیوں میں لکھنے کی قوت کہاں سے لاتی! خلوص پر مبنی سیدھی سادی سچی بات ہے سفر کے دوران یہ چار حرف جیسے بھی لکھے، ان کا جو بھی رنگ ہے میرے اس درویش صفت پیارے دوست ممتاز مفتی کی دین ہے۔‘‘
اردو کی صاحبِ طرز افسانہ وناول نگار بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ ’’اپنے خیالات کی طغیانی کو بیان کرنے کے لیے پروین نے جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ انوکھا، حیران کن اور گڑبڑا دینے والا ہے۔ انگریزی، پنجابی، اردو بھاشا کے مارکر کے ساتھ ساتھ استعمال کرنے والی پروین عاطف کے اسٹائل سے خوف آتا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ اس کے اردگرد کرامتوں کی طرح اُگنے والی ادیب برادری حسد کی آگ میں پھنکتی رہتی ہے۔ خداداد صلاحیت والی پروین پر پھونکیں مار مار کر بھسم کردینے کے خواہش مند کب برداشت کریں گے کہ اُن بونوں میں ایک سات فٹ کا ادیب لائٹ ہاؤس کی طرح جلتا رہے۔ اللہ تمہارا محافظ ہو۔ تمہیں نظرنہ لگے پروین عاطف۔‘‘
اردوکے نامور ادیب کے ان الفاظ کے بعد آخر میں گھر کی گواہی… پروین عاطف کی بیٹی ڈاکٹر گل عاطف ’’گاڈ تسی گریٹ ہو‘‘ کے ابتدائیہ میں لکھتی ہیں کہ ’’اگر میں پروین عاطف کا تجزیہ کروں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ گویا جب پروین عاطف نے لکھنا شروع کیا تو ان کا ایک نیا جنم ہوا۔ لکھاری بننے کے شوق نے ان کو ایک نئی زندگی بخشی اور ان کے اندر ایسی جوت جگائی جس نے انہیں جینے کا ایک نیا ڈھنگ سکھا دیا کہ وہ نکھرتی چلی گئیں اور نت نئے رنگ بکھیرنے لگیں۔ انہوں نے اردو ادب کو کیا دیا، اس کا فیصلہ تو قاری ہی کرسکتے ہیں، لیکن اس لگن نے جو انرجی اور تمکنت پروین عاطف کو بخشی، میں اُس کی عینی شاہد ہوں جس سے ان کی اپنی زندگی میں دیپ سے اور دیپ جلنے لگے۔‘‘ بیٹا شکوہ عاطف کہتا ہے کہ ’’میں یہ فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ ان میں سے نہیں جن کا ہونا نہ ہونا دنیا میں کوئی معنی نہیں رکھتا۔ امی ہمیں آپ پر فخرہے۔‘‘
اردو ادب اور اس کی تاریخ کا ذکر ان دوصاحبِ طرز لکھاریوں الطاف فاطمہ اور پروین عاطف کے بغیر ہمیشہ ادھورا رہے گا۔ ان کے فن کی بازیافت پر بھی ضرور کام ہوگا۔

حصہ