نشانِ راہ

330

نسرین خلیل
رافیہ اور اس کے گھر والے ہمارے پڑوس میں نئے کرایہ دار تھے۔ رافیہ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی جو پرائمری، سیکنڈری اور کالج کے طالب علم تھے۔ شوہر اُس کے انجینئر تھے مگر وہ اسلام آباد میں ہوتے تھے۔ مہینے دو مہینے میں آتے تھے۔ رافیہ کے ساتھ ایک بزرگ بھی تھے جو عموماً گھر سے کم ہی نکلتے، بلکہ اپنے کمرے سے بھی کم ہی نکلتے تھے۔ جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تو پتا چلا وہ پاک آرمی کے ریٹائرڈ کرنل ہیں۔ 1971ء کی جنگ میں اُن کی رجمنٹ چٹاگانگ میں تعینات تھی۔ میرا بڑا بیٹا اُن کے پوتے رافع کا دوست بھی تھا۔ دونوں کی اچھی دوستی تھی۔ اس کی زبانی میں رافیہ کے سسر صاحب سے متعارف ہوئی تھی۔
وہ اکثر سقوطِ ڈھاکا کے واقعات بچوںکو سناتے رہتے تھے۔ وہ جنرل اروڑا کے سامنے ہتھیار رکھ کر بھارت کے قید میں گئے تھے جس کا ان کو شدید غم و غصہ تھا۔ وہ بچوں کو اکثر ڈھاکا کی باتیں سناتے۔ انہوں نے مکتی باہنی کے ظلم و ستم اور سازشوں کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ وہ بچوں کو بتاتے تھے کہ کس طرح پاکستان کے حکمرانوں کی بے حسی اور ناقص پالیسیوں کے سبب دونوں حصوں کے لوگ ایک دوسرے سے نہ صرف دور ہوگئے بلکہ بھارت نے بنگالیوں کو مغربی پاکستان کی فوج کے مقابلے میں مکتی باہنی کے نام سے منظم کیا اور چن چن کر محب وطن پاکستانیوں کو قتل کیا اور ملک دشمن عناصر کو اسلحہ اور گوریلا مدد دی، پاک فوج کے جوانوں کو نشانہ بنایا اور نفرت کی آگ کو دلوں میں بھی بھڑکایا اور معاشرے کو بھی انتشار میں مبتلا کیا۔ دنیا کی بہترین فوج کو مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کے نعرے پر بھارت کے سامنے سرینڈر ہونے کی ذلت سے گزارا۔
کرنل یعقوب جب بھی 16 دسمبر آتا ہے، گم سم ہوجاتے ہیں، ان کے پرانے زخم ہرے ہوجاتے ہیں اور وہ پورا دن کمرے میں اخباروں کے تراشے اور مضامین پڑھ پڑھ کر اور تصویریں دیکھ کر سخت ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انڈیا نے ہمارے فوجیوں کا حوصلہ توڑنے اور ان کی بہادری کو تباہ کرنے کے لیے فوجیوں اور ان کے اونچے عہدیداروں کو ایک دوسرے کے سامنے انتہائی حقارت آمیز کاموں، ناموں اور طریقوں سے شرمندہ کیا۔ جب ڈھائی سال کی قید سے کرنل یعقوب واپس لوٹے تو کئی سال تک ان کا دماغی توازن درست نہ تھا۔ پھر ان کی بیوی کا انتقال ہوگیا تو جیسے وہ بالکل تنہا ہوگئے۔ بس بچوں کے سامنے وہ اپنے ماضی کا تذکرہ بڑے جذبے سے کرتے تھے۔
جنرل نیازی، جنرل یحییٰ اور جنرل پیرزادہ کی غلط پالیسیوں کا تذکرہ کرتے، ان کی عیاشیوں سے نفرت کا اظہار کرتے، بچوں کو بتاتے کہ پاکستان سے محبت کرنے والے کیسے اپنی فوج کا پامردی اور انتہائی عقیدت سے ساتھ دیتے، ان کے لیے راستوں کو محفوظ بناتے، انہیں اسلحہ پہنچاتے اور فوجیوں کے اہلِ خانہ کی حفاظت میں جان لڑا دیتے۔ مگر وہ لکھے کو ٹال نہ سکے اور جو آگ ناقص حکمرانوں اور دشمنوں کے ہاتھوں لگی، وہ اس آگ میں خود بھی وطن پر نچھاور ہوگئے اور اپنی نسلوں کو یہ پیغام دے گئے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے وطن کی حفاظت نہ کرسکیں، تعصب کو نہ مٹائیں، دشمن کے لیے دل میں نرمی رکھیں وہ وطن سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
وہ آج کے حالات، حکمرانوں کے طور طریقے، رشوت، کرپشن کے ناسور کو بڑی دل سوزی سے محسوس کرتے اور بچوںکو حب الوطنی اور علم دوستی کا پیغام دیتے۔ میرا بیٹا اُن کی بڑی قدر کرتا ہے، وہ ان کو اپنا آئیڈیل مانتا ہے اور مستقبل میں ایک اچھا فوجی بننے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے اس کے لیے حب الوطنی کے راستے روشن کردیے، جن کی روشنی اس وطن کو تازگی عطا کرے گی۔

حصہ