درد کا درماں

307

صبیحہ اقبال
’’شعبان! ایان کو بہت تیز بختار ہے، کئی دن ہوگئے محلے کے ڈاکٹر سے دوا لیتے، لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ بخار ہے کہ اترنے کا نام نہیں لے رہا، آج ہم اسے کسی اسپیشلسٹ کی طرف لے چلتے ہیں۔‘‘ فریحہ نے شعبان کے دفتر سے پلٹتے ہی اپنی کتھا سنائی اور آس بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
’’آج ہمیں پانی بھی نہیںملے گا کیا؟‘‘ شعبان نے فریحہ کی بات سنی اَن سنی کرتے ہوئے تھکے تھکے انداز میں جوتے اتارے۔
’’ہاں دراصل اپنی پریشانی میں احساس ہی نہیں رہا۔‘‘ ایان کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی فریحہ ایک دم کھڑی ہوگئی۔ لیکن پانی کے گلاس کے ساتھ ہی اسپیشلسٹ والا مطالبہ پھر حاضر تھا۔
’’آپ کے رینک کے لوگوں کو چھینک بھی آئے تو وہ شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹروں کے پاس دوڑ لگا دیتے ہیں۔‘‘ فریحہ شوہر کی خاموشی دیکھ کر بولی ’’آپ پتا نہیں کس مٹی کے بنے ہیں!‘‘ خالی گلاس لیتے ہوئے اس نے افسوس و رنج کے ملے جلے جذبات کے ساتھ شوہر اور بیٹے کو دیکھا۔ ’’آپ کیا جانیں ماں کی ممتا کو۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔
’’ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائے گا، دکھ آتا سیلاب کی چال ہے اور جاتا رینگ رینگ کر ہے۔‘‘
فریحہ اپنی آنکھوںمیں آئی نمی کو پونچھتی باہر کی جانب چل دی۔
…٭…
’’کل ہماری نویرا اور سویرا کو دیکھنے کچھ لوگ آرہے ہیں۔‘‘ فریحہ نے قدرے مسرت آمیز لہجے میں شعبان کو بتایا۔
’’اچھا کون لوگ ہیں؟‘‘ شعبان نے بھی دل چسپی لی۔
’’رضیہ خالہ بتا رہی تھیں خاصے کھاتے پیتے لوگ ہیں، ان کے دو ہی بیٹے ہیں، اچھے پڑھے لکھے اور دونوں کی شادی ایک ہی گھر میں کرنا چاہتے ہیں۔ رضیہ خالہ بتا رہی تھیں کہ انہیں کسی شے کی طلب نہیں، بس گھرانہ اچھا ہو، اگر تمہاری بچیاں پسند آگئیں تو سمجھو تمہاری تو لاٹری کھل گئی، لیکن…‘‘ فریحہ کچھ گومگو کی کیفیت میں تھی۔
’’لیکن کیا؟‘‘ شعبان کا تجسس قدرتی تھا۔
’’رضیہ خالہ بتا رہی تھیں کہ وہ لوگ پوش ایریا میں رہتے ہیں، پتا نہیں ہمارا گھر اور علاقہ انہیں متاثر کرسکے گا یا نہیں؟‘‘ فریحہ کھوئے سے لہجے میں بولی۔
’’وہ ہماری بچیاں دیکھنے آرہے ہیں یا گھر اور علاقہ؟‘‘ شعبان تلخی اور تعجب سے بولے۔
’’لوگ سبھی کچھ دیکھتے ہیں شعبان۔‘‘ فریحہ فضائوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔
’’ہاں سبھی کچھ دیکھتے ہیں تو ہماری بچیوں کے اخلاق و اطوار دیکھیں، میری ایمان داری، محنت اور تمہارا سلیقہ دیکھیں، تمہاری تربیت دیکھیں۔‘‘
’’لیکن شعبان! اب اخلاقی قدریں اپنی وقعت کھوتی جارہی ہیں۔‘‘ اس کا لہجہ دکھی دکھی سا تھا۔
’’گھبرائو نہیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ وہ بیوی کو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے گویا ہوئے۔
دوسرے دن لڑکے والوںکے آنے سے پہلے ہی صاف ستھرے گھر کو مزید چمکایا جا چکا تھا، کشن کے غلاف اور بیڈ شیٹس تبدیل کی گئیں، خاطر تواضع کا بھی خاصا اہتمام کیا تھا، لیکن نظروں کی بے اعتنائی اور لہجے کے کھردرے پن نے فریحہ کے خدشات کو حقیقت کا رنگ دے دیا تھا۔
’’رضیہ خالہ کیا ہوا؟‘‘ فریحہ نے فون اٹھا کر خالہ سے براہِ راست سوال کر ڈالا۔
’’بس سمجھو قسمت کے جوڑ نہ تھے۔‘‘ رضیہ خالہ نے بات بنائی۔
’’پھر بھی کوئی تو وجہ بتائی ہوگی؟‘‘
’’تم خود ہی سوچو، جن بچیوں کا باپ 18 گریڈ کا افسر ہو اور گھر میں بیٹھنے کو کوئی معقول فرنیچر نہ ہو…‘‘ رضیہ خالہ نے بڑی آسانی سے وضاحت کردی تھی۔
’’رضیہ خالہ! آپ تو کہہ رہی تھیں بہت اچھے لوگ ہیں، کیا یہی اچھائی ہے کہ دوسروں کی بچیوں کو ان بے جان چیزوں سے بھی حقیر جان کر ٹھکرا دیا جائے؟‘‘ فریحہ کو وجہ جان کر اچھا خاصا صدمہ ہوا تھا۔ کسی نے سچ کہا ہے: منافق کا اخلاق بس اس کی زبان سے لپٹا ہوا ہوتا ہے۔
…٭…
’’امی ! مجھے یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہے… اب اتنی تعلیم میں کچھ نہیں ہوتا، کہیں سروس نہیں ملتی۔‘‘ ایان کئی دن ملازمت کی تلاش میں سرگرداں رہنے اور ناکام لوٹنے پر فیصلہ کرچکا تھا۔ ’’ایم اے، بی اے کی ڈگری کو ردی کی ٹوکری کا پیٹ بھرنے کو رکھ دو۔‘‘ اس کی سوچیں بڑی تلخ ہورہی تھیں۔ ’’کسی کی قابلیت، شرافت کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ جو کچھ ہے یہ ڈگریوں کے پرزے ہیں۔‘‘ اس نے ہاتھ میں پکڑی ایم اے کی ڈگری اور سارے ڈاکومنٹس میز پر پٹخ دیے اور خود بے سدھ سا ہوکر بیڈ پر گر گیا۔
’’ہماری اولادوں کا مستقبل؟‘‘ فریحہ کے دماغ میں دھماکے ہورہے تھے۔ کتنی مشکلوں میں مَیں نے اور تمہارے بابا نے تم تینوں کو تعلیم دلوائی ہے، تمہارے ایم اے کے لیے میں نے کس طرح محنت کی ہے تم خود جانتے ہو، اب آگے یونیورسٹی کے داخلے اور دوسرے اخراجات کے لیے کیا کروں، کہاں سے لائوں سرمایہ؟‘‘ فریحہ روہانسی ہوگئی تھی۔ ’’ہماری آزمائش کی گھڑیاں آخر کب ختم ہوں گی؟‘‘ اس کی نگاہیں آسمان کی وسعتوں میں گم تھیں۔
’’سر! یہ آپ کے لیے حقیر سا نذرانہ۔‘‘ آغا صاحب پچھلے تین دن سے اس کے آفس کے چکر لگا رہے تھے۔ آغا صاحب نے آج درخواست کے ساتھ ایک لفافہ بھی آگے کرتے ہوئے زور دے کر کہا تھا۔
’’آغا صاحب آپ سمجھ کیوں نہیں رہے کہ آپ کے اس نذرانے سے آپ کا ناجائز بجلی کا کنکشن جائز کیسے ہوجائے گا! اٹھائیں اسے یہاں سے۔‘‘ شعبان نے ٹکا سا جواب دے کر انہیں ہمیشہ کے لیے ناامید کردیا تھا اور آغا صاحب نے سمجھ لیا تھا کہ وہ شعبان جیسے فرد کو خرید نہیں سکتے۔ اور آغا واپسی پر سارے راستے اپنی اس حرکت پر اپنے آپ کو ملامت کرتے رہے۔ وہ اپنی نظروں میں خود گررہے تھے۔
’’وقار صاحب آپ اپنے نام ہی کا کچھ پاس کرلیں، آپ مجھ سے سودے بازی کرنے کی کوشش کریں گے تو میں مجبور ہوں گا کہ چپڑاسی کو بلا کر آپ کو باہر نکلوا دوں۔ آپ اپنا وقت بھی خراب کررہے ہیں اور میرا بھی۔‘‘ وقار صاحب چپڑاسی کا سن کر مایوس ہوئے اور واپسی کی راہ اختیار کی۔ اور شعبان نے سُکھ کا سانس لیا۔ یہ اختیار والی کرسی کتنا بڑا امتحان ہے۔ حقیقت میں مجھے اصل کام سے اتنی تھکاوٹ نہیں ہوتی جتنی اس قسم کے لوگوں سے بک جھک کرنے میں ہوتی ہے۔ شعبان نے انگوٹھے اور درمیانی انگلی کی مدد سے اپنی کنپٹی دبائی اور سر کو کرسی کی پشت سے ٹکایا ہی تھا کہ ’’سر کوئی عباسی صاحب آئے ہیں، آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’بھیج دو…‘‘ وہ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ ’’جی فرمایئے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘ وہ خالص پیشہ ورانہ انداز میں مخاطب ہوئے۔
’’سر ہمیں موقع دیجیے کہ آپ کی کچھ خدمت کرسکیں۔‘‘
معاملے کی تہ کو پہنچ کر شعبان نے غصے سے انہیں دیکھا ’’آپ غالباً شہریار عباسی…‘‘
’’جی جی…‘‘
’’جی میں نے آپ کی فائل دیکھی ہے۔ بھائی سوری، یہ غیر قانونی کنکشن ہے اور آپ پر جرمانہ تو لازمی ہونا چاہیے۔‘‘
’’صاحب یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں کہ کچھ ہماری ضرورتیں ہیں، کچھ آپ کی…‘‘
’’میری ساری ضرورتیں اللہ پوری کرتا ہے۔‘‘ شعبان نے کہا اور دوسری فائل پکڑ لی۔
’’پھر بھی نظر دوڑائیں بہت سی ان کہی، معصوم اور خاموش، بے سوچی سمجھی ضرورتیں آپ کی نظرِ التفات کی منتظر ہوں گی۔‘‘
یکبارگی شعبان کی نظروں میں گھر کا سیکنڈ ہینڈ خریدا گیا بوسیدہ سا صوفہ گھوم گیا۔’’آں…‘‘ شعبان نے کھوئی کھوئی نظروں سے عباسی صاحب کی طرف دیکھا جو اس کمزور لمحے میں لفافہ میز پر ٹکا کر اپنا رخ موڑ چکے تھے۔
’’سر میںکل حاضر ہوںگا۔‘‘ عباسی صاحب کی آواز انہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ شعبان نے بے زاری سے لفافہ اٹھا کر میز کی دراز میں ڈالا۔
’’میں کل پھر آئوں گا۔‘‘
’’ہاں آنا اور اپنی امانت واپس لے جانا۔‘‘ اس نے مدہم لہجے میں ان کی نقل اتارنے کے ساتھ ہی کھٹ سے دراز بند کردی۔
ان کی میز پر دو چار فائلیں اور پڑی تھیں، وہ جلدی کام نمٹا کر گھر جانا چاہتے تھے، لیکن بار بار گھر کا بوسیدہ صوفہ ان کے ذہن پر سوار ہوجاتا۔ ’’یہ، یہ مجھے کیا ہورہا ہے؟ اے رحمت والے رب! میری اس توڑ پھوڑ کو اپنے حق میں تعمیر فرما دے۔‘‘ شعبان نے دعا کی اور اپنی بائیس سالہ ملازمت میں پہلی مرتبہ وقت سے پہلے دفتر سے اٹھ گئے… مگر کیوں؟ شاید روحانی عظمتیں مادیت کی پستی میں گر کر خاک نشین ہوچلی تھیں۔
…٭…
’’کیا؟ کیا کہا؟ وہ لوگ بھی بغیر رشتہ دیے چلے گئے؟‘‘ شعبان کو لگا جیسے اس کے اعصاب چٹخ رہے ہوں۔ پچھلے چھ ماہ میں نویرا کے لیے آنے والے چوتھے مہمان بھی بغیر رشتہ دیے چلے گئے تھے۔ ’’جن کے اپنے پلّے کچھ نہ ہو بھلا وہ بیٹی داماد کو کیا دیں گے؟‘‘ رشتہ لانے والی رضیہ خالہ سے کہے گئے الفاظ کی تیز دھار تلوار شعبان کو اندر تک کاٹ گئی۔
’’رضیہ خالہ بس اب آپ کسی کو نہیں لائیں گی ہمارے گھر۔‘‘ شعبان کے انداز و آواز میں تھکاوٹ تھی۔
’’ہاں اس گھر کوئی رشتہ کرے گا بھی کس امید پر؟ جہاں مہمان کے لیے بیٹھنے کو ڈھنگ کی جگہ بھی نہ ہو۔‘‘
فریحہ تو جیسے بھری بیٹھی تھی ’’بیٹا یونیورسٹی جوائن نہیں کرسکتا، بیٹیاں والدین کی دہلیز پر بوڑھی ہورہی ہیں، ابا جی کی ایمان داری ختم نہیں ہوتی۔‘‘ فریحہ بے بھائو کی سنا رہی تھی۔
’’اپنے پروردگار پر بھروسا رکھو فریحہ، اپنے وقت پر سب کچھ ہوجائے گا۔‘‘ شعبان آہستہ سے گویا ہوئے۔
’’خاک ٹھیک ہوجائے گا! پچیس سال ہوگئے چادر پیروں کے برابر نہیں آتی… میں کہتی ہوں نئے سال کا کلینڈر بدلنے سے حالات نہیں بدلتے، تبدیلی خود اپنے اندر لانی پڑتی ہے۔‘‘ فریحہ نے ایک ایک جملہ چبا چباکر ادا کیا تھا۔ ’’عمل کا فقدان اور بیان بازی کا طوفان…‘‘ وہ بڑبڑائی ’’کیا خودبخود ٹھیک ہوجائے گا سب کچھ؟‘‘
’’دیکھو فریحہ، ہمیں حالات نہیں خیالات زیادہ پریشان کرتے ہیں۔‘‘
حقیقت بھی یہی تھی کہ شعبان کی آمدنی کوئی اتنی کم بھی نہ تھی، لیکن مہنگائی اور دنیا پرستی کے طلب گاروں نے اس خاندان کو پریشان کر چھوڑا تھا۔
(جاری ہے)

حصہ