تشکیلِ جمعیت

291

ہمارے دور طالب علمی میں کوئی بھی مسخرہ موٹے موٹے شیشوں کی عینک لگائے بال بکھیرے کمیونزم کے بارے میں ہمیں مرعوب کر لیا کرتا تھا
پروفیسرعنایت علی خان
کل کی بات معلوم ہوتی ہے حالانکہ یہ واقعہ 1970 کا ہے ۔اس سال ہونے والے انتخابات میں راقم کو تعمیر نو ہائی سکول کی صدر مدرس سے ہٹا کر حیدر آباد کے ایک صوبائی حلقے میں جماعت کی طرف سے کھڑا کیا گیا تھا ۔انتخابی مہم کے دوران میرے ایک سابقہ شاگرد نے جن کا تعلق سندھ کے ایک جاگیر دار گھرانے سے تھا ،بڑی تندہی سے کام کیا تھا۔ اس واقعہ پر مولانا مودودی مرحوم و مغفور کا ایک بیان اخبار میں چھپا تھا کہ میرے ساتھی پورے ملک میں انتخابی مہم میں مصروف ہیں اور میں ڈاکٹروں کی ہدایت کے تحت گھر میں بیٹھا ہوں، یہ سوچ سوچ کر کہیں میرے دماغ کی رگ نہ پھٹ جائے ۔مذکورہ شاگر دنے یہ بیان پڑھا تو مجھ سے کہا کہ ’’ سر مولانا تو اب حیدر آباد میں نہیں رہے آپ وعدہ کیجیے کہ انتخاب کے بعد چاہے آپ جیتیں یا ہاریں ، مجھے مولانا سے ملوانے لاہور لے جائیں گے ۔خیر انتخاب میں تو میرا ایک شاگر د ہی جو نوزائدہ جماعت جمعیت اسلامی پاکستان سے کھڑا ہو کر جیتا تھا لیکن شاگر دنے جو وعدہ لیا تھا وہ پورا کرنا پڑا ۔لاہور میں رات ایک ہوٹل میں گزار کر صبح اچھرہ پہنچ گئے، وہاں میں نے مولانا مرحوم کے سیکرٹری محترم چوہدری رحمت الٰہی صاحب سے اپنا مدعا بیان کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ عصر کی نشست میں مولانا صاحب سے ملاقات کر لیجیے گا۔میں نے جب نوجوان کی دیرینہ خواہش کا ذکر کیا تو موصوف نے مولانا صاحب کو پیغام دیا جو مولانا صاحب نے قبول کر لیا اور ہم دونوں کو مولانا مرحوم کے مطالعے کے کمرے میں بٹھا دیا گیا ۔کچھ دیر بعد مولانا واکر کے سہارے تشریف لائے ۔سلام و مصافحے کے بعد میں نے نوجوان کا تعارف کروایا کہ زمیندار گھرانے سے تعلق ہے اور اب انگریزی میں ایم ۔اے کر رہے ہیں ۔مولانا نے فرمایا جماعت کو ایسے ہی باصلاحیت نوجوانوں کی ضرورت ہے جو کہیں کہ ہمیں دنیا نہیں چاہیے ہماری صلاحیتوں کو دین میں کھپا دیجیے۔
خیر اس قدر اصرار سے ملاقات کے متمنی نوجوان کو جب میں نے دیکھا تو وہ احتراماً نظریں نیچی کیے خاموش بیٹھا تھا تو میں نے گہرے سکوت کو توڑا اور مولانا سے عرض کیا کہ مولانا صاحب ! آپ کی تعریف کے طور پر نہیں بلکہ تحدیث نعمت کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ حیدر آباد کے ایک اسکول کے ہیڈ ماسڑ میرے دوست ہیں، انہوں نے مجھ سے کہا ایک روز میں اپنے انگریزی کے دو اساتذہ جناب حسن عسکری اور جناب پروفیسر نادرحسین صاحب کے پاس بیٹھا تھا اور وہ دونوں اسلام کے بارے میں فلسفیانہ قسم کی گفتگو کر رہے تھے ۔ذرا وقفہ ہوا تو میں نے عرض کیا حضرات آپ اسلام کی نظریاتی باتوں پر گفتگو فرما رہے ہیں یہ تو دیکھئے کہ مسلمانوں کی نئی نسل کہاں جا رہی ہے ۔تو حسن عسکری صاحب نے فرمایا:’’ نادر حسین صاحب مسلمانوں کی نئی نسل کہیں نہیں جا رہی ہمارے دور طالب علمی میں کوئی بھی مسخرہ موٹے موٹے شیشوں کی عینک لگائے بال بکھیرے کمیونزم کے بارے میں ہمیں مرعوب کر لیا کرتا تھا لیکن آج اسلامی جمعیت طلبہ کا نوجوان ہر موضوع پر پوری قوت کے ساتھ ایسے لوگوں کا مقابلہ کر سکتا ہے پھر فرمایا اگر مولانا مودودی نے دنیامیں اور کوئی کام نہ کیا ہوتا تو اسلامی جمعیت طلبہ کی تشکیل وہ کام ہے جو ان کی بخشش کے لیے کافی ہوگا۔‘‘
مولانا مرحوم نے یہ سن کر فرمایا: ’’ہاں یہی بات ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب اور اے کے بروہی۔صاحب نے بھی کہی ہے۔ پھر فرمایا: ’’ دراصل جب ہم لوگ پاکستان آئے تو چند نوجوان میرے پاس آئے کہ ہمیں جماعت اسلامی میں شامل کر لیجیے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ میں ان سے کہوں کہ آپ بجائے جماعت اسلامی میں شریک ہونے کے اپنے دائرے یعنی طلبہ میں زیادہ مئوثر کام کر سکتے ہیں ۔اس طرح اسلامی جمعیت طلبہ کی تشکیل ہوئی ۔پھر ذرا وقفے سے وہی بات دوسرے انداز میں دہرائی ’’ اگر بندے سے کوئی نیک کام بن پائے تو اسے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں نے یہ کام کیا بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ کام لیا ۔‘‘
یہ تھا مولانا موحوم کا انداز فکر ۔یہ موصوف کے اخلاص نیت ہی کا ثمرہ ہے کہ آج الحمدللہ وہ ننھا سا پودا ایک شجر سایہ دار بن چکا ہے جس کی چھائوں میں تحریک اسلامی کا ہراول دستہ تشکیل پا رہاہے اور تعلیمی اداروں سے لادینیت کو نکال چکا ہے جس کا شکار اس وقت کے نوجوان شاگرد تھے ۔اللہ تعالیٰ پروفیسر حسن عسکری صاحب کی پیشین گوئی کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور اسلامی جمعیت طلبہ کو مزید قوت و فروغ عطا فرمائے کہ یہ مولانا مرحوم کے ہاتھوں کا لگایا ہوا پودا ہے۔
٭…٭

حصہ