شاعری ودیعت ِ الٰہی ہے‘ سعید الظفر صدیقی

711

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ظہورالاسلام جاوید ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ وہ شاعر‘ صحافی‘ انجینئر کے علاوہ ایک بہترین منتظم ہیں‘ عرب امارات کی ادبی تقریبات کا اہم حصہ ہیں انہوں نے ابوظہبی میں عالمی اردو مشاعروں کے انعقاد میں بہت نام کمایا ہے ان کا یہ پروگرام ہر سال مارچ کے مہینے میں ہوتا ہے جس میں دنیائے ادب کے اہم لکھاری شامل ہوتے ہیں ان خیالات کا اظہار سعید الظفر صدیقی نے الفاء ایجوکیشنل سوسائٹی رجسٹرڈ کے زیر اہتمام منعقدہ ایک تقریب میں کیا انہوں نے مزید کہا کہ ظہورالاسلام کی شاعری کا مجموعہ بھی منظر عام پر آچکا ہے جب کہ ان کی بائیو گرافی پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کو نہایت ذوق و شوق سے پڑھا جارہا ہے اس موقع پر سعید الظفر صدیقی نے طلباء و طالبات میں انعامات تقسیم کیے اس تقریب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں ایک ہونہار طالبہ اذکا فاطمہ نے شرکت کی جس نے اسلامیہ انگلش اسکول ابوظہبی سے انٹرنیشنل GGSE اردو میں 100 میںسے 92 نمبرحاصل کرکے او لیول میں ایک انٹرنیشنل ریکارڈ قائم کیا ہے کراچی کی رہائشی اس ہونہار طالبہ نے او لیول کی اردو میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے یہ طالبہ ان دنوں کراچی آائی ہوئی ہیں اس طالبہ کے بارے میں جیو نیوز نے نیوز بلیٹن میں ایک کلپ دکھائی تھی اس طالبہ نے 2018ء میں امتحان میں یہ شان دار کامیابی حاصل کی ہے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس طالبہ کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے ان کے دادا بھی شاعر ہیں اور پر دادا بھی شاعر تھے۔ تمام حاضرینِ تقریب نے اس طالبہ کو مبارک باد پیش کی۔ سعید الظفر صدیقی نے اپنی غزلیں سنانے سے پہلے اپنے خطاب میں کہا کہ شاعری ودیعتِ الٰہی ہے ہر کوئی شاعر نہیں بن سکتا یہ خداداد صلاحیت ہے۔ شاعری میں خونِ جگر دینا پڑتا ہے‘ نئے نئے مضامین حاصل کرنے کے لیے مطالعہ بہت ضروری ہے اساتذہ کا کلام پڑھنے سے صلاحیتیں نکھرتی ہیں۔ اس پروگرام کے مہمان خصوصی ظہورالاسلام جاوید نے کہا کہ کراچی محبتوں کا شہر ہے‘ وہ جب بھی کراچی آتے ہیں انہیں بہت سکون ملتا ہے‘ ہمارا وطن جنت نظیر ہے‘ کراچی پاکستان کا دل ہے یہاں ادبی سرگرمیاں عروج پر ہیں‘ نئے نئے چہرے شاعری کے میدان میں آرہے ہیں البتہ سامعین کی تعداد گھٹ رہی ہے‘ لوگوں میں شاعری سے دلچسپی کم ہو رہی ہے‘ کتاب کلچر روبہ زوال ہے اب الیکٹرانک میڈیا کا زمانہ ہے ادبی رسائل و اخبارات کا زور بھی ٹوٹ رہا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم کتاب پڑھیں‘ کتاب خریدیں تاکہ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو‘ اس وقت یہ صورت حال ہے کہ شاعری کی کتابیں شائع تو رہی ہیں لیکن قوتِ خرید نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مشاعرے ہمارے ادبی شناخت ہیں یہ زبان و ادب کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم ان اداروں کے ہاتھ مضبوط کریں جو شعر و سخن کی خدمت کرتے ہیں زبان و ادب کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ سلمان صدیقی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب بہت شان دار ہے‘ تعلیمی اداروں میں ادبی سرگرمیوں کا رواج قابل ستائش اقدام ہے اس اسکول میں ہر سال تعلیمی تقریبات کے ساتھ ساتھ مشاعرہ ہوتاہے اس کی ایک وجہ یہ بھی کہ الفا گروپ آف اسکول کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر نثار ہیں جو کہ بہت عمدہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خود ایک ادبی تنظیم کے سربراہ ہیں اور زبان و ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہیں۔ میں ان کے تمام اسٹاف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس کی صدارت سعید الظفر صدیقی نے کی۔ ظہورالاسلام جاوید مہمان خصوصی تھے۔ اجمل شاہین نے نظامت کے فرائض انجام دیے اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ یامین اختر‘ سلمان صدیقی‘ صفدر علی انشاء‘ محسن سلیم‘ اسحاق خان اسحاق‘ سحر تاب رومانی‘ اسد قریشی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ عارف شیخ عارف‘ عبدالمجید محور‘ حامد علی سید‘ قیوم علی‘ جمال الدین اور فاروقی اثر نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔

بزمِ نگارِ ادب کا مشاعرہ

گزشتہ ہفتے کراچی کی ایک ادبی تنظیم نگارِ ادب پاکستان کے زیر اہتمام آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں مشاعرہ منعقد ہوا جس کی مجلسِ صدارت میں انور شعور اور سعیدالظفر صدیقی شامل تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی اور صابر ظفر مہمانانِ خصوصی تھے۔ غلام علی وفا اور پروفیسر ہارون رشید مہمانان اعزازی تھے۔ آئرن فرحت اور وقار زیدی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ یہ مشاعرہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر محمد احمد شاہ کی سرپرستی میں ترتیب دیا گیا۔ مشاعرے کی کامیابی میں حمیرہ ثروت اور سخاوت علی نادر کی کاوشوں کا بہت عمل دخل تھا جس کی بنا پر یہ پروگرام کامیابی سے ہم کنار ہوا اس موقع پر جن شعرا نے اپنا اپنا کلام پیش کیا ان میں انور شعور‘ سعیدالطفر صدیقی‘ صابر ظفر‘ شاداب احسانی‘ غلام علی وفا‘ احمد صغیر صدیقی‘ ریحانہ روحی‘ مقصود وفا (فیصل آباد)‘ ندیم بھابھ (میلسی) فاروق ساغر (لاہور)‘ انیس جعفری‘ عبدالمجید محور‘ جمیل ادیب سید‘ مقبول زیدی‘ سیف الرحمن سیفی‘ افضال بیلا‘ ڈاکٹر عبدالمختار‘ احمد سعید خان‘ توقیر تقی‘ سہیل احمد‘ بشیر نازش‘ محسن سلیم‘ حنیف عابد‘ ریحانہ احسان‘ شائق شہاب‘ م۔ م مغل‘ کامی شاہ‘ سلمان عزمی‘ اختر عبدالرزاق‘ یاسمین یاس‘ وقار زیدی‘ سید علی بابا‘ ب پ عدید‘ افضل ہزاروی‘ طاہرہ سلیم سوز‘ علی کوثر‘ عاشق شوکی‘ تاج علی رانا ‘ہدایت سائر‘ دل شاد دہلوی‘ حجاب فاطمہ‘ وحید نور‘ یاسر سعید صدیقی‘ اختر رضا‘ نصیرالدین نصیربدایونی‘ ثنا سبحان‘ آئرن فرحت‘ حمیدہ کشش‘ حمیرہ ثروت صدیقی اور سخاوت علی نادر شامل تھے۔ اس پروگرام میں آئرن فرحت نے حمد باری تعالیٰ پیش کی جب کہ تاج علی رانا اور ثنا سبحان نے نعتیں پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ سخاوت علی نادر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ادبی تنظیم کا ہیڈ آفس تو شاہ فیصل کالونی کراچی میں ہے تاہم اس ادارے کے تحت ہم کراچی کے مختلف علاقوں میں پروگرام کرتے ہیں یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہمارا ہر مشاعرہ کامیاب ہوتا ہے کیوں کہ ہم اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے انتہائی مخلص ہیں۔ آج کے مشاعرے میں سامعین کی کثیر تعداد نے مشاعرے کا لطف دو بالا کر دیا ہے۔ مجلس صدارت میں شامل انور شعور اور سعیدالظفر صدیقی نے کہا کہ سخاوت علی نادر بہت تیزی سے ادبی منظر میں جگہ بنا رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کی ادبی تنظیم بھی شعر و سخن کی آبیاری میں مصروف عمل ہے ہم انہیں مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شاداب احسانی اور صابر ظفر نے کہا کہ سخاوت علی نادر ایک اچھے شاعر کے علاوہ ایک تجربہ کار منتظم بھی ہیں ان کے حسنِ انتظام کی داد دینا ہمارا فرض ہے اس وقت کراچی میں جو لوگ ادب کے لیے کام کر رہے ہیں ان میں سخاوت علی نادر بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں امید ہے کہ یہ اسی طرح اپنے پروگرام ترتیب دیتے رہیں گے۔ حمیرا ثروت صدیقی نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم احمد شاہ کے شکر گزار ہیں کہ جن کے تعاون سے یہ مشاعرہ منعقد ہوا‘ ہم احمد شاہ اور ان کے رفقائے کار کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ ان کے زمانے میں کراچی آرٹس کونسل نے کارہائے نمایاں انجام دیے انہوں نے فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں کو آگے بڑھایا ہے۔

سہیل غازی پوری کی یاد میں مشاعرہ

احمد سعید خان کی رہائش گاہ شادمان ٹائون کراچی میں معروف شاعر‘ صحافی اور نقادِ سخن سہیل احمد غازی پوری کی یاد میں ادبی تنظیم تقدیس ادب کے زیر اہتمام مشاعرہ منعقد ہوا۔ پروفیسر جاذب قریشی نے صدارت کی۔ ساجد رضوی مہمان خصوصی‘ ظہورالاسلام جاوید اور انور انصاری مہمانانِ اعزازی تھے۔ احمد سعید خان نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ سید آصف رضا رضوی‘ اختر سعیدی‘ علی اوسط جعفری‘ فیاض علی فیاض‘ عبیداللہ ساغر‘ سلیم فوز‘ نسیم کاظمی‘ حامد علی سید‘ سخاوت علی نادر‘ اکرام الحق اورنگ‘ سیف الرحمن سیفی‘ پرویز نقوی‘ سحر علی‘ حنیف عابد‘ رشید خاں رشید‘ شاہد اقبال شاہد‘ نظر فاطمی‘ آسی سلطانی‘ ابراہیم خلیل‘ شکیل وحید‘ درپن مراد آبادی‘ اقبال افسر غوری‘ رضی عظیم آبادی‘ اسد ظفر‘ شاہین شمش زیدی‘ زاہد علی سید‘ جمیل ادیب سید‘ تاج علی رانا‘ اسحاق خان اسحاق‘ ضیا حیدر زیدی‘ نورالدین موج‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر اور محمد طالب نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ مشاعرے میں سامعین کی بڑی تعداد موجود تھے جو دل کھول کر داد دے رہے تھے۔ احمد سعید خان نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تقریب سہیل غازی پوری سے منسوب ہے جو کہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں ان کی یادیں ہمارے دلوں میں زندہ ہیں وہ ایک قادرالکلام شاعر تھے انہوں نے زندگی بھر علم و ادب کی خدمت کی انہوں نے ایک ادبی رسالے کا اجرا کیا جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ایک سطر بھی نثر کی نہیں ہوتی ہے سارے مضامین نظم میں پیش کیے جاتے ہیں۔ ان کے انتقال سے ہم ایک علم دوست شخصیت سے محروم ہوگئے‘ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے‘ آمین۔

اکادمی ادبیات کراچی کا مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام بلوچستان کے معروف دانش ور‘ ماہر تعلیم‘ محقق‘ ادیب ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی یاد میں مذاکرہ اور محفل مشاعرہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت کینیڈا سے آئے ہویے معروف شاعر کاظم واسطی نے کی‘ مہمان خصوصی روزنامہ اوصاف کے چیف ایڈیٹر ابرار بختیار تھے۔ اس موقع پر کاظم واسطی نے کہا کہ ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے بچوں کے حوالے سے بہت خوب صورت اور عمدہ ادب تخلیق کیا ڈاکٹر صاحب کی نہ صرف بلوچستان کے بچوں کے حوالے سے بلکہ قومی اور بین الاقوامی ادبیات اطفال پر بھی گہری نظر تھی۔ ڈاکٹر انعام الحق کوثر بچوں کے ادب کے علاوہ بلوچستان میں صوفیائے کرام پر تحقیقی کتاب بھی مرتب کر چکے ہیں بلوچستان سرزمین پر جابجا صوفیائے کرام کے مزار ہیں لوگ صدیوں سے ان کی زیارت کے لیے آتے ہیں اور لافانی نغمے گاتے ہیں۔ ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے مقامی اسلامی ادبی روایات کو سمجھنے اور جاننے کے لیے اس طرف رجوع کرکے بلوچستان کے صوفیائے کرام پر تحقیقی کتاب مرتب کی جو ان کی محنت کا بہترین تحفہ ہے۔ بزم اساتذہ اردو سندھ کے صدر پروفیسر عرفان علی شاہ نے کہا کہ ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے میدان صحافت میں بھی کارہائے نمایاں سرانجام دیے جو بلوچستان اور برصغیر کے محکوموں میں ولولہ اور حرارت کے موجب بنے۔ قادر بخش سومرو نے کہا کہ ڈاکٹر انعام الحق کوثر اپنی ذات میں انجمن تھے آپ ادب اور اصناف ادب کو معاشرے کی تعمیر اور تشکیل کا ذریعہ گردانتے تھے۔ انہوں نے اپنی تحقیق موضوع زیادہ تر بلوچستان کی ثقافت اور بلوچی ادب کو بنایا‘ ان کی خدمات کی اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں 1997ء میں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔

غزل /اسد اقبال

غم سے جب دو چار ہوتا ہی نہیں
آدمی بے دار ہوتا ہی نہیں
وہ تو رسماً پوچھ لیتے ہیں مگر
ہم سے پھر انکار ہوتا ہی نہیں
یہ کسی مزدور سے مت پوچھنا
اُن کے ہاں اتوار ہوتا ہی نہیں
رات بھی ہو اور سورج بھی رہے
یوں تو میرے یار ہوتا ہی نہیں
کس طرح کہہ لیتے ہیں وہ دل کی بات
ہم سے تو اظہار ہوتا ہی نہیں
سامنے سے وار ہو گا جب ہوا
ہم سے چھُپ کر وار ہوتا ہی نہیں
صرف اچھّا ہوتا ہے کردار بس
یا تو پھر کردار ہوتا ہی نہیں
یہ خدا کی خاص نعمت ہے اسد
ہر کسی کو پیار ہوتا ہی نہیں

حصہ