شراب پر پابندی کا بل مسترد !۔
محمد انور
وزیراعظم عمران خان نے اپنی پی ٹی آئی کی حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر تمام وزرا کی کارکردگی کا طویل اجلاس میں جائزہ لے کر مختصر الفاظ میں ان سب کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دے دیا۔ وہ اس کے سوا کر بھی کیا سکتے تھے!
مگر قوم نے سو دن مکمل ہوتے ہی قومی اسمبلی کے ایوان میں موجودہ اور سابقہ حکومتی جماعتوں کے اراکین کا شراب پر پابندی کے بل کے خلاف جس طرح کا اتحاد دیکھا وہ بھی بڑا مثالی تھا۔
ملک میں شراب کی فروخت اور شراب نوشی آئین کے تحت ممنوع ہے، مگر اس قانون پر عمل درآمد کے لیے بھی ہمارے ملک میں قانون سازی کرنی پڑ رہی ہے، یہی ایک بڑا مذاق ہے۔ اگر قانون اور اس پر عمل درآمد کے لیے بھی مزید قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے تو پھر دیگر قوانین کے لیے بھی ایسا ہی کیا جائے۔ بہرحال قومی اسمبلی کے گزشتہ سیشن میں شراب پر مکمل پابندی کے لیے بل پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو ایوان میں موجود مسلم اکثریت پر مبنی ’’معزز اراکین‘‘ نے ہی اس بل کی مخالفت کردی، اور یہ ثابت کردیا کہ وہ مسلمان تو ہیں مگر اسلامی تعلیمات سے نابلد بھی ہیں۔
حیرت اور مسرت کی بات تو یہ تھی کہ قومی اسمبلی میں شراب پر پابندی کا بل حکومتی جماعت تحریک انصاف کے ہندو کمیونٹی کے رکن اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے پیش کیا تھا، اور افسوس کی بات یہ تھی کہ اس بل کو مدینے کی ریاست بنانے کا خواب دکھانے والی تحریک انصاف کی حکومت کے اراکین کی مدد سے مسترد کردیا گیا۔ بل پیش کرنے کی اجازت نہ دے کر اس اچھے قانون کو مسترد کرنے میں پی ٹی آئی کے اراکین کی مدد اُن کے مخالفین پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے بھرپور طریقے سے کی۔ ایسا کرنے سے ان اراکین کی اسلامی احکامات پر عمل درآمد سے محبت تو واضح ہوگئی لیکن ساتھ ہی دنیا بھر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کتنے مذہب پرست لوگوں پر مشتمل ہے، یہ بھی سبھی کے سامنے عیاں ہوگیا۔
ڈاکٹر رمیش کمار کا جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بل مسترد ہونے پر انہیں افسوس نہیں ہے، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سب کچھ خدا کے حکم سے ہوتا ہے، فواد چودھری جیسے لوگ جہاں ہوں وہاں مثبت تبدیلیاں کیسے آسکتی ہیں! اور وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ ’’ڈبل گیم‘‘ کھیلنے والوں کو بے نقاب کرتا ہے۔
ڈاکٹر رمیش کمار اس سے قبل مسلم لیگ (ن) سے وابستہ تھے اور 2013ء کے انتخابات میں وہ اسی جماعت کی جانب سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوکر ایوان میں پہنچے تھے۔ تاہم 2018ء کے انتخابات سے قبل وہ مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ پاکستان وہ ریاست بن جائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے مطابق ہو، جہاں سب کے ساتھ انصاف ہو، اور جہاں سب انسانوں کے حقوق کا احترام ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے کوشش کرتا رہوں گا، اسی مقصد کے تحت میں نے شراب پر پابندی کے لیے بل دوبارہ اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرادیا ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ بل آئندہ منظور کرلیا جائے گا۔‘‘
ملک میں شراب کی فروخت کا سلسلہ چلتا رہنے کے لیے قومی اسمبلی کے اراکین نے جس طرح یک جہتی کا مظاہرہ کیا وہ باعثِ شرم ہی تو ہے، جبکہ اقلیتی رکن ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا تھا کہ ’’اقلیتوں کے نام پر شراب کی فروخت کی اجازت دینا درست نہیں ہے، کیونکہ ہر مذہب میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے، اس لیے ملک بھر میں شراب کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کی جائے۔‘‘
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قومی اسمبلی کے تمام اراکین اتفاقِ رائے سے اس بل کی منظوری دیتے، اور تحریک انصاف خود اتفاقِ رائے سے اس قانون کی منظوری کے لیے اپنا کردار ادا کرتی، تاکہ پوری قوم بھی یہ یقین کرتی کہ ملک میں مثبت تبدیلیاں آنے لگی ہیں۔ مگر وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور اُن کے دیگر نئے و پرانے دوستوں کی جانب سے بل کی مخالفت شرمناک عمل تھا۔ اس بل کی مخالفت سے مدینے کی ریاست بنائے جانے کے دعوے کی بھی قلعی کھل گئی۔ عام لوگوں کو خوش فہمی ہے کہ صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان اس بل کی منظوری کے لیے جلد ہی اپنا کردار ادا کریں گے۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہوگا اُس وقت تک’’مدینے کی ریاست‘‘ کی باتیں بھی مشکوک ہی رہیں گی۔
اگرچہ قومی اسمبلی میں موجود جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے اراکین نے ڈاکٹر رمیش کمار کے بل کی حمایت کی، مگر ان کے ووٹ بل کی منظوری کے لیے ناکافی تھے، تاہم بل پیش کرنے کی اجازت نہ دینے پر جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے اراکین نے احتجاج کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی سے شراب پر پابندی کا بل مسترد ہونا مدینہ جیسی ریاست بنانے کی دعوے دار حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ آئین میں شراب سمیت تمام نشہ آور چیزوں کے استعمال اور خریدوفروخت پرپابندی ہے۔ یہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ قرآن وسنت کی تعلیمات سے انحراف کا اس سے بڑا مظاہرہ اور کیا ہوسکتا ہے!
جامعہ بنوریہ العالمیہ کے مفتی نعیم نے قومی اسمبلی میں شراب پر پابندی عائد کرنے کی قرارداد کی مخالفت کرنے پر پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور حکومتی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’’جنہوں نے اس بل کی مخالفت کی ہے وہ اللہ سے ڈریں، قیامت سے ڈریں، اپنی موت سے ڈریں۔‘‘
مفتی نعیم نے کہا کہ ’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے بل کی مخالفت کی ہے انہیں اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی پکڑیں گے اور آخرت میں بھی ان کو اس کا حساب دینا پڑے گا، کیوں کہ یہ قرآن پاک کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ اس بل کی مخالفت کرنے والوں کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے کہ کیا انہوں نے اللہ کے حکم کی مخالفت نہیں کی؟ اور کیا ہم نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی خلاف ورزی نہیں کی؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شراب کو حرام قرار دیا گیا تو صحابہ کرامؓ نے شراب کی بوتلیں توڑ کر شراب گلیوں میں بہادی۔‘‘ مفتی نعیم نے کہا کہ ’’مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کہ خان صاحب کون سے مدینے کی ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں! میرا خیال ہے وہ تو ملک کو یورپ اور امریکہ کی طرز کی ریاست بنانا چاہتے ہیں، اگر وہ پاکستان کو مدینے کی طرز کی ریاست بنانے میں سنجیدہ ہیں تو ان کو چاہیے تھا کہ اپنی پارٹی کے لوگوں کو اس بل کی مخالفت سے روکتے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہندو رکنِ اسمبلی رمیش کمار کا اپنے بل کی حمایت میں بیان انتہائی قابلِ تعریف ہے، انہوں نے ہندو ہونے کے باوجود یہ کہا کہ تمام مذاہب کے اندر شراب حرام ہے اور شراب پر پابندی ہونی چاہیے، لیکن ہماری اسمبلی کے مسلم اراکین اس کی مخالفت کررہے ہیں جو قابلِ افسوس اور شرم ناک امر ہے۔‘‘
شراب کی دکانیں کس کے لیے اور خریدار کون ہیں؟
ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 97 فیصد آبادی مسلمان ہے اور 1970ء کی دہائی میں اسلامی جماعتوں کے احتجاج پر ملک بھر میں شراب اور کلبوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ صرف ہندو اور مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو شراب خریدنے کی اجازت ہے اور اس مقصد کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے ایک پرمٹ جاری کیا جاتا ہے۔
اس پرمٹ کی آڑ میں شراب خریدنے والوں کی بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے، جب کہ جن غیر مسلموں کے نام پر شراب کی یہ دکانیں قائم ہیں ان سے وہ لوگ کم استفادہ کرتے ہیں۔ قانون کے تحت شراب صرف غیر مسلموں کو فروخت کی جانی چاہیے، لیکن دیگر قوانین کی طرح اس قانون پر بھی عمل نہ کیے جانے کی وجہ سے یہ مسلمانوں کو بھی فروخت کردی جاتی ہے۔ اگر بل کے ذریعے شراب پر مکمل پابندی عائد کردی جائے تو کوئی بھی شراب نہیں خرید سکے گا اور نہ ہی فروخت کی جاسکے گی۔
ملک میں قانونی طور پر شراب بنانے والی تین ہی فیکٹریاں ہیں جو راولپنڈی، کراچی اور کوئٹہ میں واقع ہیں، لیکن بیئر صرف ’’مری بروری‘‘ راولپنڈی ہی بناتی ہے۔ مری بروری تقریباً ڈیڑھ سو برس قبل 1860ء میں پہلی بار گھوڑا گلی کی پہاڑیوں میں انگریزوں نے اپنی افواج اور غیر مسلم آبادی کی مانگ پوری کرنے کے لیے قائم کی تھی، اور بعد میں مانگ بڑھ جانے کی وجہ سے یہ کارخانہ راولپنڈی منتقل کیا گیا، اور 1947ء میں ہندوستان کے بٹوارے کے بعد جب انگریز واپس چلے گئے تو مری بروری کے اکثریتی شیئر ہولڈر ایک پارسی خاندان کے سربراہ پی ڈی بھنڈارا نے انتظام سنبھال لیا۔14 اگست 1947ء کو جب پاکستان بنا تو کچھ مشتعل لوگوں نے گھوڑا گلی میں واقع بروری جلا دی تھی۔