فیچر، ورکنگ مدر کے نومولود بچے اور ان کی ترجیحات

388

ساجدہ فرحین فرحی
انیبا ضمیر شاہ (رپورٹر)
سوالات (نوکری والی ماں)
٭ پہلی دفعہ بچے کو خود سے الگ کرنے کا سوچا تو کن خدشات کا سامنا کیا اور دل کو کیسے مطمئن کیا؟
٭آپ کی غیر موجودگی میں کبھی بچے کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہو؟
٭نوکری کیوں کررہی ہیں، کیریئر یا معاشی مسائل کے باعث؟ یا معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے؟
٭کیا آپ کے شوہر بچے کو سنبھالنے میں آپ کی مدد کرتے ہیں؟ گھر کے کاموں میں آپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں؟
٭جب بچے سے دور ہوتی ہیں تو بچے کا خیال اور اس کی فکر پریشان کرتی ہے؟
٭جب گھر آتی ہیں تو بچے کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ ناراض تو نہیں ہوتاکہ امی چھوڑ کر چلی جاتی ہیں، اور صبح جب گھر سے نکلتی ہیں تو بچہ آسانی سے جانے دیتا ہے، روتا تو نہیں؟
٭ورکنگ مدرز کی تجاویز و مشورے؟
٭آج کی ورکنگ مدرز اور آج سے دس پندرہ سے سال قبل کی ورکنگ مدرز کے مسائل یا وسائل میں کیا فرق ہے؟

سوالات:( نوکری چھوڑنے والی ماں کے لیے)
٭کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے آپ نے نوکری چھوڑنے کا فیصلہ کیا؟
٭نوکری چھوڑنے کے بعد کیا مشکلات پیش آئیں؟
٭دوبارہ نوکری کرنے کا ارادہ ہے؟
٭ورکنگ مدرز کے کوئی تجاویز و مشورے؟

اپنے نومولود اور معصوم بچے کو خود سے الگ کرنے کا تصور ہی کسی ماں کو بے قرار کردیتا ہے۔ کبھی اپنے کیریئر کی ترقی کے لیے، کبھی معاشی مسائل کی خاطر، اور کبھی معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی تگ و دو ایک ماں کو اپنی اولاد چھوڑ کر گھر سے باہر جانے پر مجبور کرتی ہے۔ معاشی ذمے داری کے فرائض اللہ نے مرد پر عائد کیے ہیں، اسی لیے اسے میاں بیوی کے رشتے میں قوّام قرار دیا گیا۔
لوگ نوکری کرنے والی بیوی یا بہو کا انتخاب اس لیے بھی کرتے ہیں کہ ان کے بیٹے یا بھائی کی کمائی ان پر ہی خرچ ہوتی رہے، اور آنے والی انہیں کھانا بھی پکا کر کھلائے اور اپنی کمائی بھی۔ کمانے والی عورت اپنے شوہر پر بوجھ نہیں بنتی بلکہ اس کے کندھوں پر لدے بوجھ کو کم کرنے میں اس کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ کچھ احسان مند مرد عورت کی اس قربانی کو تسلیم بھی کرتے ہیں، اورکچھ بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیتے ہیں ’’تو کیا ہوا اگر اپنی کمائی گھر اور بچوں پر خرچ کرتی ہو، یہ تمہارے بھی تو بچے ہیں‘‘۔ صبح مغربی عورت کی طرح کمانے جاؤ اور رات کو مشرقی عورت کی طرح مجازی خدا کی خدمت بجا لاؤ۔ مگر کچھ شوہر اپنی انتھک محنت کرنے والی بیوی کی اخلاقی اور معاشرتی طور پر دل سے قدر کرتے ہیں۔ بچوں کو سنبھالتے، اور گھر کے کاموں میں بیوی کا ویسا ہی ساتھ دیتے ہیں جیسا وہ معاشی ذمہ داری اٹھانے میں شوہر کا ساتھ دے رہی ہوتی ہے۔ بچوں کے بعد نوکری جاری نہ رکھنے والی زیادہ تر خواتین وہی ہوتی ہیں جن کے شوہر اور اہلِ خانہ بچے سنبھالنے میں ان کی مدد نہیں کرتے۔ نوکری کرنے والی ماں کو اگر زندگی اس مقام پر لاکھڑا کرے جہاں نوکری یا اپنی اولاد میں سے کسی ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑے تو ماں یقینا اپنی اولاد کا انتخاب کرتی ہے۔ اگر آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتی ہیں تو چند برسوں کا بریک آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا، کریئر کو زیادہ متاثر نہیں کرے گا۔ مگر آپ کے بچے کا یہ بچپن پھر لوٹ کر نہیں آئے گا۔ اسے آپ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھنا ہے، آپ کے لفظوں کو سن کر بولنا شروع کرنا ہے، آپ کی گود کی گرمائش چاہیے، گھر میں آپ کے وجود کی گھنی چھاؤں کی ٹھنڈک درکار ہے جہاں اس ننھی کونپل کو مضبوط اور تناور بننے کے لیے پل پل کی دیکھ بھال چاہیے۔
جو مائیں اپنے کیریئر کی ترقی، معاشی مجبوری اور معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کی خاطر نوکری جاری رکھتی ہیں اُن کے پاس بچے کی دیکھ بھال کے کچھ ذرائع موجود ہوتے ہیں جو سب کے لیے مختلف ہیں۔ سب سے قابلِ بھروسا بچے کو نانی یا دادی کے پاس چھوڑنا سمجھا جاتا ہے۔ مگر آپ کے اچھلتے کودتے بچے کو نانی، دادی کے ضعیف سہارے کی نہیں بلکہ آپ کے مضبوط ہاتھوں کی ضرورت ہے جو گرتے بچے کو سنبھال سکیں، ڈگمگاتے قدموں کو مضبوطی سے تھام سکیں، اسے گود میں اٹھا کر گھما سکیں۔ جن کا کوئی قریبی رشتہ بچے کی ذمہ داری لینے کو تیار نہ ہو ایسی ماؤں کو اپنے جگر گوشے ماسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا پڑتے ہیں، یا پھر ڈے کیئر سینٹر آخری حل قرار پاتے ہیں۔ جس معاشرے میں ڈے کیئر سینٹرز کی تعداد میں اضافہ ہونے لگے، مائیں اپنے بچوں کو روزگار کے حصول کی خاطر خود سے دور کرنے پر راضی ہوجائیں، تو آنے والے وقتوں میں ایسے معاشروں میں اولڈ ہاؤسز کے رجحان کے فروغ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
وجیہہ جاوید ویکلی میگ کی ایگزیکٹو چیف ایڈیٹر رہ چکی ہیں۔ مختلف ٹی وی چینلز اور ویب سائٹ پہ کام کرچکی ہیں۔ آج کل فل ٹائم مدر اور پارٹ ٹائم بلاگر ہیں۔ وجیہہ کو نوکری چھوڑنے کا فیصلہ اس لیے کرنا پڑا کیونکہ انھیں کوئی ایسا قابلِ بھروسا فرد نہیں لگا جس کے حوالے وہ اپنے بچے کو چند گھنٹوں کے لیے کرسکیں۔ وجیہہ کہتی ہیں: لوگ یا رشتے دار اب دستیاب نہیں ہوتے، ان کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں اور اپنی زندگی ہوتی ہے، اور سب سے اہم بات یہ کہ ایک ماں کی حیثیت سے آپ کو کبھی کوئی قابلِ بھروسا نہیں لگ سکتا، کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ جس طرح آپ اپنے بچے کی پرورش کررہی ہیں، اس کے کھانے پینے کا خیال رکھتی ہیں، اس کے اٹھنے بیٹھنے کی دیکھ بھال کرتی ہیں، شاید ہی کوئی اس طرح کرسکے۔ اور ایک ماں کا دل کبھی مطمئن نہیں ہوتا، خاص طور پر ملازمین پر… اپنی سب سے قیمتی چیز اپنی اولاد اُن کے حوالے نہیں کرسکتے۔ میرے دل نے کبھی مجھے اس چیز کی اجازت نہیں دی۔ معیارِ زندگی کی سہولیات میں کمی بیشی قابلِ قبول ہوسکتی ہے، مگر اپنے بچے کو پالنے اور اس کا خیال رکھنے کا کام خود کرنا چاہیے۔ اپنے بچے کے پیار اور توجہ کی کمی مجھے قابلِ قبول نہ تھی۔ پیسے کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے، معاشی تنگی بھی برداشت ہوجاتی ہے، لیکن اپنے بچے کی محبت پر کوئی سمجھوتا نہیں۔ اگر ابھی توجہ میں کمی واقع ہوگی تو پوری زندگی اس کا ازالہ نہ ہوپائے گا۔ میری لاپروائی سے اگر میرے بچے کو کوئی تکلیف پہنچی تو ذمہ دار میں ہوں گی۔ اپنے بچے کی حفاظت اور اس کی دیکھ بھال کے متعلق اللہ کو بھی جواب دہ ہوں۔ نوکری چھوڑنے کے بعد کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لوگوں کے رویوں میں بہت فرق آجاتا ہے جب آپ کی جیب خالی ہوتی ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ درحقیقت اللہ آپ کو لوگوں کی اصلیت سے آگاہ کرتا ہے کہ کون آپ کے ساتھ کتنا مخلص ہے، کس کو آپ سے دلچسپی ہے، اور کس کو آپ کے عہدے اور روپے پیسے سے۔ وہ لڑکی جو اتنے عرصے معاشی طور پر خودمختار رہی ہو اُس کو اپنی اولاد کی خاطر اپنی ضروریات کو محدود کرکے صرف اپنی اولاد کو ترجیح دینی ہوتی ہے۔ آج کل مارکیٹ میں مقابلے کا رجحان زیادہ ہے۔ نوکری چھوڑکر لگتا ہے کیا دوبارہ اس پوزیشن پر آنا ممکن ہوگا؟ کیا دوبارہ اچھی نوکری مل پائے گی؟ کیا کیریئر کا سفر پیچھے سے تو شروع نہیں کرنا پڑے گا؟ یہ سب سوچ کر لگتا تھا کبھی نوکری نہیں چھوڑ پاؤں گی، اتنے برسوں کی محنت ضائع ہوجائے گی۔ مگر جب میں اپنے بچے کے ساتھ کھیل رہی ہوتی ہوں، وہ میرے پہلو میں اطمینان و سکون سے سورہا ہوتا ہے تو میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میری ضرورتیں اتنی سخت نہیں تھی کہ میں نوکری نہ چھوڑ پاتی۔ بہت سی مائیں ایسی ہیں جو نوکری چھوڑ کر اپنے بچوں کی تربیت کرنا چاہتی ہیں، لیکن انہیں مجبوری میں نوکری کرنا پڑتی ہے اور ان کے بچے نظرانداز ہوتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے میں اپنے نومولود بچے کے ساتھ اس کا بچپن انجوائے کررہی ہوں اور بہت خوش ہوں۔
ثنا اعجاز ریسرچ کنسلٹنٹ ہیں، فری لانس کام کرتی ہیں، بچوں سے پہلے آفس کی 9 سے 5 بجے تک جاب کرتی تھیں۔ ثنا ٹی وی اور ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرچکی ہیں، اب بچوں کی وجہ سے فری لانس کام کرنے کا انتخاب کیا۔ وہ کچھ گھنٹوں کے لیے آفس بھی جاتی ہیں اور کام کے سلسلے میں اندرون ملک اور بیرون ملک سفر بھی کرتی ہیں، مگر انہوں نے اپنے بچوں کو اس کے لیے ذہنی طور پر تیار کر رکھا ہے۔ ثنا کے بچے ان کی غیر موجودگی میں ان کی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں جن سے وہ بہت مانوس ہیں۔ ثنا کا کہنا ہے: جب پہلی دفعہ بچوں کو چھوڑ کر گئی تو دل میں کچھ گیلٹ تھا، خود سے سوالات بھی کیے: مجھے اتنی ضرورت نہیں ہے جاب کی، کیا مجھے جانا چاہیے؟ ایک جانب کیریئر ہے اور ایک جانب اولاد۔ پھر یہ بھی سوچا کہ بچے تو وقت کے ساتھ بڑے ہوجائیں گے، کیا پھر مجھے دوبارہ نوکری کے اتنے اچھے مواقع میسر آسکیں گے جو ابھی ہیں؟ میرا کیریئر دوسروں سے پیچھے رہ جائے گا، اتنے برسوں کی محنت پر پانی پھر جائے گا۔ نوکری معیارِ زندگی بہتر کرنے کی خاطر کررہی ہوں اور اپنے شوہر کی مدد بھی کرتی ہوں۔ جب میاں بیوی مل کر کام کرتے ہیں تو اس کا فائدہ آپ کے بچوں کو ہی ہوتا ہے، اور الحمدللہ میرے شوہر مجھے سپورٹ کرتے ہیں بچوں کو سنبھالنے میں اور گھر کے کاموں میں۔ اور میری قدر کرتے ہیں۔ اوروں کی طرح مجھے یہ سننے کو نہیں ملتا کہ تم کو کس نے کہا ہے جاب کرو! ثنا کا کہنا ہے کہ ورکنگ مدرز جاب اس لیے نہیں چھوڑتیں کہ وہ ماں بن گئی ہیں، بلکہ اس لیے چھوڑتی ہیں کہ ان کے شوہر اور گھر والے سپورٹ نہیں کرتے۔ میں اس معاملے میں خوش نصیب ہوں کہ میرے گھر والے سپورٹ کرتے ہیں۔ میری غیر موجودگی میں میرے بچے امی کے پاس ہوتے ہیں اور مجھے اطمینان ہوتا ہے۔ شروع میں جب بچوں سے دور ہوتی تھی تو بار بار فون کرکے پوچھتی رہتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ دل کو قرار آ جاتا ہے۔ میری غیر موجودگی میں بیٹا ایک دفعہ واش روم میں گر گیا تھا، اس کے سر پر 3 سے 4 ٹانکے بھی آئے تھے۔ مجھے بہت دکھ ہوا اور اسی گیلٹ میں مَیں ایک مہینے تک کوئی کام نہیں کرپائی۔ لیکن پھر میں نے سوچا بچے ماؤں کے سامنے بھی تو گرتے ہیں، بچوں کو چوٹیں لگتی رہتی ہیں، بچوں کا کام ہی شرارتیں کرنا ہے۔ ورکنگ مدرز کو مشورہ ہے کہ اگر زیادہ ضرورت نہ ہو تو جاب نہ کریں، لمبا بریک لے لیں بچوں کے اسکول جانے تک۔ آج کل کے دور میں کمیونیکیشن سسٹم بہت ایڈوانس ہوگیا ہے۔ گھر بیٹھے بھی کام کیا جاسکتا ہے۔ میں اکثر گھر پر ہی ٹیلی تھون سے اپنے کلائنٹ سے میٹنگ کرلیتی ہوں۔ ٹرانسپورٹیشن بھی آسان ہوگئی ہے۔
انیبا ضمیر شاہ رپورٹر جیونیوز کا کہنا ہے: شروع میں بہت پریشان تھی۔ بیٹی کو اپنے ساتھ آفس لے کر آتی تھی۔ بے بی سیٹر کے ساتھ گھر پر اکیلے چھوڑنے پر دل مطمئن نہیں تھا۔ اس کے بعد بہن کے گھر چھوڑنا شروع کیا۔ جب میری بہن مصروف ہوگئی تو پھر گھر پر چھوڑنا شروع کردیا۔ مگر دل بالکل بھی مطمئن نہیں ہوتا تھا۔ بار بار فون کرکے پوچھتی رہتی تھی۔ بیٹی اب تین سال کی ہے مگر ابھی بھی فکر لگی رہتی ہے کہ اس نے گھر پر کھانا کھایا ہوگا یا نہیں، کیا کررہی ہوگی! فون کرکے اس کی خیریت پوچھتی رہتی ہوں۔ میری غیر موجودگی میں دو دفعہ بچی کے ساتھ حادثہ ہوچکا ہے، ایک دفعہ شیشے کی میز پر چڑھ گئی تھی مگر زیادہ چوٹ نہیں آئی تھی، دوسری بار 52 انچ کی ٹی وی اسکرین کو وائپر سے توڑ دیا تھا، اللہ نے بچا لیا۔ اور جب میں نے بے بی سیٹر سے پوچھا یہ کیسے ہوا؟ تو وہ کہنے لگی: بچی وائپر سے کھیل رہی تھی۔ یہ سن کر مجھے بہت حیرت ہوئی۔ اُس نے بچی کو کھلینے کے لیے وائپر دیا ہوا تھا۔
انیبا کیریئر کی وجہ سے جاب کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے جب تعلیم حاصل کی ہے، ٹیلنٹ بھی ہے، اللہ نے شعور سے بھی نوازا ہے تو جاب کرنی چاہیے۔ میں لوگوں کو اویرنس دے رہی ہوں، مجھے اچھا لگتا ہے کسی مقام پر ہوں۔ میرے شوہر بیٹی کا بہت خیال رکھتے ہیں، بچی کو سنبھالتے ہیں، بلکہ مجھ سے زیادہ بیٹی اُن کے قریب ہے۔ جب تھکی ہوئی ہوتی ہوں تو شوہر باہر سے کھانا لے آتے ہیں۔ جب بیٹی کو چھوڑ کر جاتی ہوں تو وہ ناراض نہیں ہوتی، البتہ عدم تحفظ محسوس کرتی ہے۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے اس کی نظروں سے دور ہوجاؤں تو اس کو لگتا ہے مما نکل نہ جائیں۔ آفس سے واپسی پر گلے لگتی ہے، بہت پیار کرتی ہے۔ ورکنگ مدرز کو جاب اور فیملی کے ساتھ توازن سے چلنا ہوتا ہے۔ جاب بھی اہم ہے، فیملی بھی، مگر زیادہ ترجیح فیملی کو دینی چاہیے۔ جو وقت بچوں کا ہے اُن کے ساتھ گزارنا چاہیے۔ آفس کے مسائل گھر پر نہ لائیں۔ گھر پر وقت گھر والوں کو دینا چاہیے۔ وقت کے ساتھ ورکنگ مدرز کے مسائل میں کمی نہیں آئی، کیونکہ ماں چاہے وہ آج کی ہو یا دس سال پہلے کی، ماں تو ماں ہے۔ اس کا بچہ اس کی نظروں سے دور ہوگا تو اس کا دل بے قرار رہے گا۔ البتہ وسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ سیکورٹی اور رابطے کے ذرائع میں ترقی آئی ہے۔ آپ کیمرہ انسٹال کرکے اپنے بچے کی گھر سے دور بھی نگرانی کرسکتے ہیں۔
ثنا عاصم بینکر ہیں اور کہتی ہیں: آنے والا وقت اچھا بنانے کے لیے اور اپنے شوہر کا ساتھ دینے کے لیے جاب کررہی ہوں تاکہ اپنے بچے کا مستقبل سنوار سکوں۔ جب پہلی دفعہ بچے کو چھوڑ کر آفس گئی تو ہر دس پندرہ منٹ بعد فون کرکے اس کی خیریت پوچھتی تھی۔ کبھی رونا بھی آجاتا تھا بچے کو یاد کرکے۔ میری امی بیٹے کا خیال رکھتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ امی کے پاس محفوظ ہاتھوں میں ہے، اب کوئی فکر نہیں ہوتی۔ میرے شوہر بھی پورا ساتھ دیتے ہیں گھر کے کاموں میں، بچے کو سنبھالنے میں۔ جب وہ چھوٹا تھا ڈائپر بھی تبدیل کردیتے تھے، دودھ بھی بناکر دیتے ہیں، کپڑے بھی ساتھ دھلواتے ہیں۔ میں جب آفس سے گھر آتی ہوں، بچے کے لیے اس کی فرمائش کی چیزیں لاتی ہوں تو وہ ناراض نہیں ہوتا۔ ثنا عاصم کا کہنا ہے کہ اگر عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو اپنے گھر اور بچوں کے لیے ہی نکلتی ہے۔ جدوجہد کرنا تو عورت کا کام ہے۔ وہ ہاؤس وائف ہو یا ورکنگ مدر، توازن کے ساتھ زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
شفق گورنمنٹ اسکول ٹیچر ہیں۔ ان کا کہنا ہے: بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑا، ایک معصوم سی جان کو گھر چھوڑ کر آنا آسان نہ تھا۔ کوئی حادثہ تو نہیں ہوا البتہ میرا بچہ رو رو کر اپنی سانس روک لیتا تھا۔ دو تین بار ایسا ہوا تو فوراً آف کرکے گھر جانا پڑا۔ شفق معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے جاب کررہی ہیں، کہتی ہیں: گورنمنٹ کی جاب ہے، اگر پرائیویٹ ہوتی تو جاب چھوڑ کر اپنے بچے کو پالنے کو ترجیح دیتی۔ ان کے شوہر بچے کو سنبھالنے میں مدد کرتے ہیں، گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتے ہیں۔ شفق کا کہنا ہے: اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو اپنے بچے کے ساتھ وقت گزارنے کا الگ ہی مزا ہے، جب بچے اسکول جانے کے قابل ہوجائیں تو نوکری کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ چھوٹے بچے کو ماں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ کام کے دوران بھی دماغ میں بچے کا خیال رہتا ہے۔ گھر آتی ہوں تو بھاگ کر میرے گلے سے لگ جاتا ہے۔ ایک سال کا ہے، ابھی اسے ناراض ہونا نہیں آتا۔
نازش وصی گورنمنٹ کالج کی استاد ہیں، ان کی پرنسپل نے انہیں بچے کالج لانے کی اجازت دے رکھی ہے۔ یہ سب سے بڑی وجہ ہے ان کے جاب کرنے کی۔ مگر نازش کا کہنا ہے: جاب کرنے والی مدرز اپنے اوپر ظلم کرتی ہیں۔ راتوں کو جاگنا، بچے سنبھالنا، گھر کا کام کرنا، اور صبح نوکری پر جانا… یہ سب کرکے وہ وقت سے پہلے بوڑھی اور بیمار ہوجاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے: میں تو نوکری کررہی ہوں مگر اپنی بیٹی کو کبھی ورکنگ مدر بننے کا مشورہ نہیں دوں گی۔
نورین عالم نے ایم بی اے کے بعد ایم فل کیا۔ آج کل ایک سوفٹ وئیر کمپنی میں ایچ آر منیجر ہیں۔ نورین کا کہنا ہے: بچی کو خود سے دور کرنا، اس کو گھر پر چھوڑ کر آفس جانا بہت مشکل فیصلہ تھا، بہت سے خدشات تھے کہ وہ مجھے یاد کرے گی، کیا اس کی دیکھ بھال ٹھیک سے ہوپائے گی، نانی اور دادی کی عمر کا تقاضا ہے، کیا وہ بچی کو سنبھالنے سے تھک تو نہیں جائیں گی! یہ سب ذہن میں تھا، لیکن ایک مہینے کے بعد سب چیزیں اللہ کے حکم سے خودبخود ایڈجسٹ ہوتی گئیں، پھر مجھے کوئی خدشہ نہیں رہا۔ پھر نو مہینے کے بعد میں اپنی بچی کو اپنے ساتھ آفس لے کر آنا شروع ہوگئی۔ میری کمپنی نے مجھے ڈے کیئر کی سہولت فراہم کی۔ اس سہولت نے بہت سپورٹ کیا۔ اگر مجھے کمپنی نے ڈے کیئر کی سہولت نہ دی ہوتی تو شاید میرے لیے نوکری کا جاری رکھنا مشکل ہوتا۔ ڈے کیئر کا ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ ہر وقت اپنے بچے کی نگرانی کرسکتے ہیں۔ میں اپنے کمپوٹر پر دیکھ سکتی ہوں کہ میری بچی اس وقت کیا کررہی ہے۔ کھانا گھر سے بنا کر لے جاتی ہوں۔ بے بی سیٹر بچی کو دیکھ لیتی ہے، میں خود بھی جاکر دیکھتی رہتی ہوں۔ میرا مشورہ ہے اگر اور بھی کمپنیاں یہ سہولت فراہم کریں تو ورکنگ مدرز جاب چھوڑنے کے بجائے جاب کرنے کو ترجیح دیں گی۔
یہ خیالات تھے اُن ماؤں کے، جن کے بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ کچھ ایسی ماؤں سے بھی اُن کے خیالات جاننے کی کوشش کی جو دس پندرہ سال سے ورکنگ مدرز ہیں۔ ان کا کہنا تھا: پہلے رشتے دار خوشی خوشی بچے سنبھال لیتے تھے، بلکہ کچھ تو محلے والے بھی بچے سنبھالنے میں مدد کرتے تھے، مگر آج سب اپنے اپنے کاموں میں مگن ہیں، البتہ ورکنگ مدرز کے وسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ مسلح افواج میں اعلیٰ عہدے پر فائز یاسمین کہتی ہیں: میرے بچے جب چھوٹے تھے ہمیں ڈے کیئر کی سہولت میسر نہیں تھی، جبکہ آج کل ساتھ کام کرنے والی آفیسرز بچوں کو اپنے ساتھ لے کر آتی ہیں اور ڈے کیریئر میں بچوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اگر آپ کا بچہ آپ کی نظروں کے سامنے ہوتا ہے توآپ کو اطمینان رہتا ہے اور آپ اپنے کام پر پوری توجہ دیتے ہیں۔ مجھے جب اپنے بچے کو خود سے الگ کرنا پڑا تو محسوس ہوا اپنے جسم کا کوئی حصہ میں گھر پر رکھ آئی ہوں۔ اُس وقت معلوم ہوا کہ اولاد کے لیے لفظ جگر کا ٹکڑا کیوں استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک دفعہ اپنی آنکھوں کے سامنے ملازمہ کو تھپڑ مارتے دیکھا، اسے نکال دیا۔ مگر دل اور بھی غیر مطمئن ہوگیا کہ میرا بچہ کس حال میں ہوگا! جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں وہ وقت بہت مشکل سے گزرتا ہے، مگر جب بڑے ہوجاتے ہیں خاص طور پر بیٹے، تو وہ خود ہی چاہتے ہیں اماں آس پاس نظر نہ آئے، نہ ان کو روکے ٹوکے۔
ڈاکٹر نوشابہ عدنان کا کہنا تھا: بچوں کو بالکل اکیلا ملازموں پر ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے۔ میرے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں، ہم میں سے ایک جاب پر جاتا تھا اور ایک بچوں کے ساتھ ہوتا۔ ہم نے اس طرح اپنے بچوں کی پرورش کی، مگر دل پھر بھی بچوں میں ہی اٹکا رہتا تھا۔ ایک دن میرا بیٹا بیمار تھا جب موبائل کا استعمال اتنا عام نہیں تھا، ہسپتال میں مریضوں کو دیکھ رہی تھی جب ایک جاننے والی خاتون نے بچے کی خیریت پوچھی تو مجھے بے اختیار رونا آگیا۔ میرا بچہ میرے بغیر گھر پر تھا، مگر ایک ڈاکٹر کے لیے اپنا پیشہ بھی اتنا ہی مقدس ہے جتنی مقدم اپنی اولاد۔ دونوں ہی کو ساتھ لے کر چلتی رہی۔ میری بیٹی جب نرسری میں پڑھتی تھی اُس کی بہت خواہش ہوتی تھی کہ سب بچوں کی مائوں کی طرح اس کو اسکول چھوڑنے جاؤں۔ مگر ہسپتال دوسری طرف تھا اور اسکول کا راستہ الگ۔ اس سے کہتی: اور بچوں کی مائیں جو اسکول چھوڑنے آتی ہیں وہ ہاؤس وائف ہیں، میں ڈاکٹر ہوں۔ اور پھر اس نے اصرار کرنا چھوڑ دیا۔ ایک دن جب اس کی ٹیچر نے اس سے پوچھا کہ تم بڑی ہوکر کیا بننا چاہتی ہو؟ تو دوسری بچیوں نے ڈاکٹر بننے کا کہا، لیکن میری بیٹی نے کہا میں ہاؤس وائف بننا چاہتی ہوں تاکہ اپنے بچوں کو خود اسکول چھوڑنے اور لینے جاؤں۔ اُس دن مجھے بہت دکھ ہوا۔ مگر ایک ڈاکٹر کو اپنے معاشرے کو صحت مند و توانا رکھنے کے لیے بھی کام کرنا پڑتا ہے، اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ دوسروں کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے، یہ آپ کے پیشے کا تقاضا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ وہ لوگ جو کسی ڈاکٹر لڑکی سے شادی کرتے ہیں، شادی کے بعد اور بچوں کے بعد ملازمت جاری رکھنے میں اس کا بھرپور ساتھ دیں۔

حصہ