گمان

197

مدیحہ صدیقی

میں بتاؤں لڑائی کل کیسے ہوئی
میں نے چمچہ اٹھایا وہ تھامی ڈوئی
مجھ پر برہم ہے شاید گماں یہ ہوا
اس نے مجھ کو جو دیکھا تو وہ بھی ڈری
وہ یہ سوچے کہ لڑنا ہے کس بات پر
میں یہ سوچوں کہ غلطی کہاں پر ہوئی
تب یہ آوازبابا کی ہم نے سنی
ہیں کہاں بیٹیاں،کیوں ہیں چپکی کھڑی
ماں نے بتلایا کھانا پکائیں گی وہ
اک کو چاول دیئے اک کو سونپی کڑی
سن کر دونوں کی باتیں پتہ یہ چلا
یہ لڑائی نہیں بلکہ
گڑ بڑ ہوئی
ہاں یہ سوچا تھا چاول پکاؤں گی میں
اس نے سوچا تھا وہ بھی پکائے کڑی
میں یہ سمجھی کہ لڑنے کو آئی تھی وہ
وہ یہ سمجھے کہ لڑنے کو میں تھی کھڑی
ہم تو ہنس ہنس کر دھرے ہوئے ساتھیو!
تھا پھر چمچہ کہیں اور کہیں تھی ڈوئی

حصہ