نیاز مندان کراچی کے زیراہتمام نعتیہ مشاعرہ

625

ڈاکٹر نثار احمد نثار
۔2 دسمبر بروز اتوار بمقام کے ایم سی آفیسرز کلب کشمیر روڈ میں نیاز مندان کراچی کے زیر اہتمام یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا (کراچی چیپٹر) کے اشتراک سے محسن اعظم ملیح آبادی کی زیر پرستی ایک نعتیہ مشاعرہ منعقد ہوا۔ پروگرام میں پروفیسر رئیس علوی صدر تھے‘ ڈاکٹر جمیل خاور مہمان خصوصی اور فراست رضوی مہمان اعزازی تھے‘ ڈاکٹر نزہت عباسی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ سلمیٰ خانم نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی آف کراچی گریجویٹس فورم کینیڈا (کراچی چیپٹر) شعر و ادب کے فروغ میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہے ہم آج نیاز مندان کراچی کے ساتھ مل کر نعتیہ مشاعرہ کر رہے ہیں جس میں کراچی کے اہم قلم کار شریک ہیں۔ آپ لوگوں نے اس محفل میں شرکت کی جس کے لیے میں آپ کی شکر گزار ہوں۔ ڈاکٹر جمیل خاور نے کہا کہ نیاز مندان کراچی ایک ایسی ادبی انجمن ہے جو کہ ادبی پروگراموں کے علاوہ قلم کاروں کے مسائل کے لیے جدوجہد کر رہی ہے ان کے کریڈٹ پر ایک شاندار عالمی کانفرنس موجود ہے اور یہ دوسری عالمی کانفرنس کرنے جا رہے ہیں یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ قلم کاروں کے لیے آواز اٹھائی جارہی ہے میں ان کے ساتھ مکمل تعاون کا یقین دلاتا ہے۔ فراست رضوی نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں کے لیے قابل تقلید شخصیت ہیں آپ اللہ کے آخری رسول ہیں اور آپ کی تعلیمات ہر زمانے کے لیے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعت نگاری حضور اکرم کی تعریف و توصیف کی ایک شکل ہے لیکن نعت کہنا اس لحاظ سے بہت مشکل ہے کہ اس صنفِ سخن میں جھوٹ کی گنجائش نہیں ہوتی‘ عشقِ رسولؐ کے بغیر نعت نہیں لکھی جاسکتی جو لوگ نعتیہ محفلیں سجاتے ہیں وہ قابل مبارک باد ہیں۔ نعت کی محفلوں میں شرکت کرنا باعثِ ثواب ہے فی زمانہ نعتیہ ادب بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے اب تواتر کے ساتھ نعتیہ مجموعے آرہے ہیں اور نعت نگاری میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جاری کی جارہی ہیں ان شاء اللہ قیامت تک ذکرِ رسولؐ ہوتا رہے گا۔ نیاز مندان کراچی کے روحِ رواں رونق حیات نے کہا کہ انکا ادارہ طویل عرصے سے قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم عمل ہے ہم تمام حکومتی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قلم کاروں کے لیے آسانیاں پیدا کرو‘ انہیں روزگار فراہم کرو‘ انہیں میڈیکل کی سہولیات فراہم کرو‘ ہم نے اکادمی ادبیات پاکستان سے کہا ہے کہ حکومت نے آپ کو پچاس کروڑ روپے قلم کاروں کی فلاح و بہبود اور پاکستانی زبان و ادب کی ترقی کے لیے دیے ہیں ان کا صحیح استعمال کیا جائے حق داروں کو ان کا حق دلایا جائے لیکن مقام افسوس ہے کہ قلم کاروں کا استحصال ہو رہا ہے۔ آرٹس اور کلچر کے نام پر بننے والے ادارے میں کراچی کے قلم کاروں کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور دبستان کراچی کے شعرا کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ انہوں نے تمام قلم کاروں سے اپیل کی کہ وہ نیاز مندان کراچی کے ہاتھ مضبوط کریں‘ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں تاکہ ان کے مسائل کے حل میں آسانیاں پیدا ہوں۔ نعتیہ مشاعرے میں جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں محسن اعظم ملیح آبادی‘ پروفیسر رئیس علوی‘ ڈاکٹر جمیل خاور‘ فراست رضوی‘ رونق حیات‘ نسم نازش‘ ڈاکٹر شوکت اللہ جوہر‘ ثروت سلطانہ‘ حجاب عباسی‘ طاہر سلطانی‘ ریحانہ احسان‘ صغیر احمد جعفری‘ صبیحہ صبا‘ نسیم شیخ‘ محمد رفیق مغل‘ شائستہ مفتی‘ نشاط غوری‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ زینت کوثر لاکھانی‘ کشور عدیل جعفری‘ شجاع الزماں خان‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ سعد الدین سعد‘ شارق رشید‘ افضل ہزاروی‘ محسن رضا‘ عبدالمجید محور‘ گل افشاں‘ طاہرہ سلیم سوز‘ شہناز رضوی‘ تنویر سخن‘ مہر جمالی‘ عطیہ میر‘ وقار زیدی اور شاہدہ عروج شامل تھے۔

بزم نگارِ ادب کا زیب اذکار کے اعزاز میں پروگرام

گزشتہ ہفتے ادبی تنظیم نگارِ ادب پاکستان کے زیر اہتمام فیضی رحمن آرٹ گیلری کراچی میں ممتاز شاعر‘ افسانہ نگار‘ ادیب اور صحافی زیب اذکار کے اعزاز میں ایک پروگرام ترتیب دیا گیا جس کی مجلس صدارت میں اے خیام اور محمد احمد شاہ شامل تھے۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر شاہد ضمیر اور مہمان اعزازی نصیرالدین نصیر بدایونی تھے۔ موسیٰ کلیم اور نسیم انجم نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام پاک کی سعادت ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ نے حاصل کی جب کہ تاج علی رانا نے نعت رسولؐ پیش کی اس موقع پر فکاہیہ کالم نگار محمداسلام نے زیب اذکار کی شخصیت کا خاکہ فکاہیہ انداز میں پیش کرکے خوب داد سمیٹی۔ ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ نے زیب اذکار پر شان دار مزاحیہ مقالہ پیش کیا۔ اصغر خان‘ حمیرہ ثروت صدیقی‘ فراست رضوی‘ ڈاکٹر شاہد ضمیر‘ اکرم کنجاہی‘ رحمان نشاط‘ خالد معین‘ سائرہ غلام نبی‘ علاء الدین خانزادہ‘ نصیرالدین نصیر‘ سخاوت علی نادر اور محمد احمد شاہ نے زیب اذکار کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر نیاز مندان کراچی کی جانب سے زیب اذکار کی خدمت میں اجرک اور پھولوں کے تحائف پیش کیے گئے۔ سخاوت علی نادر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ زیب اذکار ایک باصلاحیت اور ہمہ جہت انسان ہیں۔ کراچی پریس کلب کے حوالے سے بھی ان کی خدمات سے انکار ممکن نہیں یہ دوستوں کے دوست ہیں۔ اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے سرگرم عمل ہیں ان کے افسانے بہت عمدہ ہیں جب کہ ان کی شاعری میں زندگی رواں دواں ہے ایک بہت اچھی نظامت کے ساتھ ساتھ ایک اچھے پروگرام آرگنائزر بھی ہیں ہمیں خوشی ہے کہ انہوں نے ہماری دعوت قبول کی اور ہمیں خدمت کا موقع دیا۔ اس پروگرام میں زیب اذکار نے اپنے افسانے اور شاعری پیش کرکے خوب سماں باندھا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ وہ نگارِ ادب کے عہیداران و اراکین کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے ان کے اعزاز میں یہ تقریب سجائی انہوں نے مزید کہا کہ وہ اردو زبان و ادب کے خدمت گزار ہیں یہ ہمارا فرض ہے کہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔ اردو کی ترقی سے ہماری تہذیب و تمدن وابستہ ہے۔ اس موقع پر نگارِ ادب کی جانب سے انہیں سوونیئر پیش کیا گیا جب کہ کاشف مظفر نے کیلی گرافک تصویر پیش کی جس کو بہت پسند کیا گیا۔

بزم شعر و سخن کا مشاعرہ اور پائے کی دعوت

بزم شعر و سخن ایک ادبی تنظیم ہے جو کہ تواتر کے ساتھ مشاعروں کا اہتمام کر رہی ہے۔ گزشتہ اتوار اس ادارے کے تحت طارق جمیل کی رہائش گاہ پر ڈاکٹر ماجد حامد (دبئی)‘ نوید عبدالباقی (امریکا) کے اعزاز میں محفل مشاعرہ سجائی گئی جس کی صدارت خواجہ رضی حیدر نے کی۔ تاج دار عادل اور اجمل سراج مہمانان خصوصی تھے۔ فیروز ناطق خسرو اور سہیل ضرار خلش (لندن) مہمان اعزازی تھے۔ عبدالرحمن نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تلاوتِ کلام پاک کی سعادت عمر منصور نے حاصل کی اس مشاعرے میں خواجہ رضی حیدر‘ تاج دار عادل‘ اجمل سراج‘ سہیل ضرار خلش‘ فیروز ناطق خسرو‘ سلمان صدیقی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ نجیب ایوبی‘ خالد میر‘ حسنین جلیسی‘ شبیر نازش‘ یاسر سعید‘ نورالدین نور‘ اقبال برما اور چاند علی چاند نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ مشاعرے کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ یہاں علم دوست سامعین موجود تھے جو کہ ہر عمدہ شعر پر خوب داد و تحسین کی صدائیں بلند کر رہے تھے۔ انہوں نے ہر شاعر کی حوصلہ افزائی کی۔ ہر سخن ور نے اپنا منتخب کلام پیش کیا اور خوب رنگ جمایا۔ اس موقع پر شان دار ظہرانے کا اہتمام تھا جس میں بڑے پائے بھی شامل تھے۔ لوگوں نے خوب ڈٹ کر پائے کھائے۔ صاحب صدر نے کہا کہ آج کی یہ چھوٹی سی شعری نشست بڑے بڑے مشاعروں پر بھاری ہے‘ اس قسم کی محفلوں میں بہت لطف آتا ہے جہاں سامعین بھی باذوق ہوں اور آج یہاں عمدہ سماعتیں موجود ہیں۔ میری دعا ہے کہ شعر و سخن کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہے۔ ڈاکٹر سہیل اختر نے خطبۂ اسقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تنظیم شعر و سخن اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں مصروف ہے ہم اپنی مدد آپ کے تحت اس ادارے کو چلا رہے ہیں جس میں باقاعدہ الیکشن کے ذریعے عہدیداران و اراکین کا انتخاب کیا جاتا ہے اور ہر ممبر پابندی کے ساتھ مشاعروں میں شریک ہوتا ہے اور اس کے انعقاد میں حصہ لیتا ہے۔ لندن سے تشریف لائے ہوئے مہمان شاعر ضرار خلش نے کہا کہ وہ لندن میں اردو ادب کے لیے کام کر رہے ہیں۔ دیارِ غیر میں اردو زبان نے ہمیں آپس میں جوڑا ہوا ہے اور ہم پاکستانی ادب کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں اس لیے ہم بزم شعر و سخن (لندن) کے زیر اہتمام مذاکرے‘ مشاعرے اور تنقیدی نشستیں منعقد کر رہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ کراچی اور لندن کی شاعری میں زمین آسمان کا فرق ہے بلاشبہ دبستان کراچی زبان و ادب کا معتبر حوالہ ہے۔ طارق جمیل بھولے والا نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام شرکائے محفل کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنی گوناں گوں مصروفیت میں سے وقت نکال کر ہماری محفل کو رونق بخشی‘ یقین جانیے کہ آپ کی تشریف آوری اور حوصلہ افزائی ہمیں آگے بڑھنے میں معاون و مددگار ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ کتاب کلچر کو فروغ دیا جائے ہم اس وقت الیکٹرانک میڈیا کے زیر اثر ہیں اور کتب بینی سے دور ہوتے جارہے ہیں ہماری نوجوان نسل شعر و ادب میں دل چسپی نہیں لے رہی ہے جب کہ مشاعرہ ہماری تہذیب کا آئینہ دار ہے یہ ادارہ ہر زمانے میں زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کتابیں خریدیں‘ کتابیں پڑھیں‘ مطالعے کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یورپی ممالک میں کتابیں پڑھی جارہی ہیں جب کہ ہمارے یہاں یہ صورت حال ہے کہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں کتاب تحفے میں پیش کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ میری خواہش ہے کہ آپ لوگ رومن انگریزی میں لکھنے کے بجائے اردو میں اپنا مافی الضمیر لکھا کریں‘ اردو سوفٹ ویئر باآسانی دستیاب ہے۔ آخر میں انہوں نے تمام شعرا اور شرکائے محفل کا شکریہ ادا کیا۔

غزل

سیا سچدیو (بریلی بھارت)
غمِ دنیا کو بس میری طرف آنے کی جلدی ہے
ہر اچھے وقت کو مجھ سے بچھڑ جانے کی جلدی ہے
بڑا نقصان کر بیٹھی ہوں اپنا جلد بازی میں
اُسی کو کھو دیا میں نے جسے پانے کی جلدی ہے
الجھ کر رہ گئی ہوں میں انہی رشتوں کی ڈوری سے
جنہیں سلجھے ہوئے رشتوں کو سلجھانے کی جلدی ہے
تم اتنا مختصر سا وقت لے کے آئے ہی کیوں تھے
تمہیں آنے کی جلدی ہے تمہیں جانے کی جلدی ہے
ہٹا کر راہ کے کانٹے نکل آئی سلیقے سے
مجھے اب منزلِ مقصود کو پانے کی جلدی ہے
سیاؔ سب کہہ رہے ہیں زندگی کی اور اب دیکھو
مگر دل کی تمنائوں کو مر جانے کی جلدی ہے

حصہ