ڈراما

380

صدف نایاب
’’طلاق، طلاق، میں تمھیں طلاق دیتا ہوں‘‘۔ یہ سننا تھا کہ زوہا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ ہاتھ میں ریموٹ پکڑے زوہا روئے جا رہی تھی۔ اتنے میں اس کی کام والی آئی اور زوہا کے بکھرے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگی ’’نہ رو باجی، عورت کا تو یہی مقدر ہے۔ یہ تو صرف ایک ڈراما ہے۔ اس پر کیوں اپنے آپ کو ہلکان کررہی ہو؟‘‘
’’ڈراما! یہ محض ڈراما نہیں ہے، یہ مجھ سمیت ہر عورت کی زندگی کی کہانی ہے۔ دیکھا نہیں تم نے، عرفان کس لہجے میں مجھ سے بات کرتا ہے، اپنے گھر والوں کے سامنے میری بے عزتی کرتا ہے، مجھے بات بات پر ڈانٹتا ہے۔ اپنی بھابھیوں کے برے رویّے کو نظرانداز کرتا ہے، صرف اس لیے کہ وہ کزن ہیں۔ تم دیکھنا نوشی، عرفان بھی میرے ساتھ ایسا ہی کرے گا‘‘۔ ’’نہ، نہ باجی ایسا کچھ نہیں ہوگا‘‘، نوشی نے اس پر ترس کھاتے ہوئے کہا۔
ایک دن زوہا یونہی بیٹھی ڈراما دیکھ رہی تھی کہ بے اختیار ہنسنے لگی۔ ’’نوشی نوشی! ادھر آؤ جلدی۔ یہ دیکھو کتنے مزے کا سین چل رہا ہے۔ ہیرو ہیروئن کیسے ایک ساتھ بیٹھے محبت بھری باتیں کررہے ہیں، ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے۔ ہائے، کاش عرفان بھی کبھی ایسے ہی پیار سے مجھ سے بات کرے‘‘۔
نوشی بہت چھوٹی عمر سے ہی زوہا کے گھر کام کرتی تھی، اس لیے وہ گھر والوں جیسی ہی تھی۔ زوہا کی بات سن کر مزید اس کے ساتھ ہمدردی جتانے لگی۔ زوہا بھی اپنے سارے دکھڑے اسے ہی سنانے لگی تھی۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی کا حد سے بڑھا ہوا استعمال زوہا کو حقیقی دنیا سے بہت دور لے گیا تھا، جس کے باعث آج یہ نوبت آچکی تھی کہ اُسے ہر وقت لگتا کہ عرفان اور اُس کے گھر والے انتہائی برے ہیں اور کسی بھی وقت عرفان مجھے گھر سے نکال دے گا۔
’’زوہا زوہا!کہاں ہو؟ آئو بازار چلتے ہیں۔ بہت دن سے کچھ خریدا نہیں تم نے‘‘۔ زوہا کے شوہر نے اس سے کہا۔ ’’کیا بات ہے، آج کیسے میرا خیال آگیا؟‘‘ زوہا نے کڑوے سے لہجے میں جواب دیا۔ ابھی دونوں یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ساس کی آواز آئی ’’ارے عرفان بیٹا! میرا نظر کا چشمہ ٹوٹ گیا ہے، کچھ دکھائی نہیں دے رہا، شاید نمبر بھی بڑھ گیا ہے۔ تم مجھے لے جاؤ گے ڈاکٹر کے پاس؟‘‘
’’جی امی‘‘ عرفان نے جواب دیا۔ ’’زوہا میں آتا ہوں تو چلتے ہیں۔ تم تیار رہنا، ٹھیک‘‘۔
’’نہیں رہنے دو، تمہاری امی کو گوارا نہیں کہ ہم دو پل اکٹھے کہیں بیٹھ جائیں۔ فوراً آگئیں اپنا دکھڑا لے کر‘‘۔ ’’زوہا کیا ہوگیا ہے تمہیں! امی کو تو پتا بھی نہیں، اور جب پہلے ہی میں نے تمھیں کہا تھا، اُس وقت بھی تم نے سیدھے منہ بات نہیں کی تھی اور اب یہ بدتمیزی کررہی ہو‘‘؟ عرفان حیرت اور غصے کے ملے جلے تاثرات لیے بولا۔ ’’ہاں ہاں، میں ہی بدتمیز ہوں۔ کبھی اپنی امی کو نہ دیکھنا‘‘۔ اس کے بعد شکایتوں کا ایک پلندہ زوہا نے کھول کر رکھ دیا۔ پھر جو تماشا لگا وہ ساری دنیا نے دیکھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرفان نے ایک تھپڑ زوہا کو دے مارا۔
’’دیکھا نوشی، میں نہ کہتی تھی کہ عرفان بھی ویسا ہی کرے گا جو ڈرامے میں ہوا‘‘۔
بہت دن بیت گئے اس بات کو، آج زوہا پھر سے نوشی کے سامنے اپنے دکھڑے لیے بیٹھی تھی۔ ’’ہاں باجی! صحیح کہا ‘‘، نوشی کی ہمدردی نے جلتی پہ تیل چھڑکنے کا کام کیا۔
……
دن ایسے ہی گزرتے رہے۔ ایک دن رات کے دو بجے زوہا کی آنکھ کھلی۔ وہ کچن تک پانی لینے گئی تو کیا دیکھتی ہے کہ بیٹھک کی روشنی جل رہی ہے اور عرفان کے رونے کی آواز آرہی ہے۔ زوہا نے دروازے کی درز سے اندر جھانکا تو کیا دیکھتی ہے کہ عرفان نماز پڑھ کر دعا مانگ رہا ہے اور روتا جارہا ہے’’یاللہ مجھے معاف فرما دیجیے، میں آپ کی بندی پر رحم نہ کرسکا‘‘۔ زوہا یہ سن کر سکتے میں آگئی۔ اس بات کا اس کے دل پر بہت اثر ہوا اور کچھ عرصہ بہت پیار محبت میں گزرا۔
ایک دن زوہا کی جیٹھانی کسی ضروری کام سے بازار چلی گئیں جس کے باعث گھر کی ہانڈی، روٹی، برتن سب اسے کرنا پڑے۔ اگرچہ نوشی بھی کام کاج کرنے والی تھی مگر کسی کام کی وجہ سے جلدی چھٹی لے کر چلی گئی تھی۔ اوپر سے جب اس کی جیٹھانی آئیں تو وہ بہت تھک چکی تھیں اور پورا دن وہ مزید کچھ نہ کرسکیں۔ خیر وہ دن تو جیسے تیسے کرکے زوہا نے گزار لیا، مگر اس کے دل کی کڑھن نہ گئی۔
اگلے روز زوہا ڈراما دیکھنے میں مصروف تھی۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک پڑوسن ملنے کے لیے آگئیں۔ ساس کہیں گئی ہوئی تھیں، زوہا کی جیٹھانی نے کہا ’’میں ہانڈی پکا رہی ہوں، تم چائے بنا کر لے آؤ‘‘۔ یہ سننا تھا کہ زوہا کو شدید غصہ آیا ’’اب آپ نے دیکھ لیا کہ میں تھوڑی دیر کیا بیٹھ گئی، فوراً کام کے لیے اٹھانے لگ گئیں۔ جانتی ہوں میں سب کچھ، آپ نے اُس دن بھی یہی کیا تھا، خود تو بازاروں میں گھومتی رہیں اور میرے سر پر کام ڈال کر گھر آکر سوگئیں‘‘۔ ’’زوہا کیسی باتیں کررہی ہو! گھر میں مہمان آئے ہیں، امی نہیں ہیں، اس لیے میں ہانڈی پکاکر ان کے پاس بیٹھتی ہوں تم چائے بنادو، صرف اتنی سی بات ہے‘‘۔ آج پھر وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا تھا۔ اتنی سی بات کا وہ بتنگڑ بنا کہ پھر یہی فیصلہ ہوا کہ اب زوہا اور عرفان الگ گھر میں رہیں گے۔
خیر ایک دن آیا جب زوہا اپنے گھر میں تھی۔ عرفان کام والی ماسی ہر کام کے لیے نہیں رکھ سکتا تھا۔گویا نوشی کا ساتھ بھی چھوٹ گیا جسے وہ اپنے دل کا حال کہہ کر اپنا من ہلکا کیا کرتی تھی۔ لہذا ایک چھوٹی بچی کے ساتھ زوہا کو سب کام خود کرنا پڑتے۔ آج زوہا کو بہت بخار تھا، عرفان کے لیے کھانا بھی بنانا تھا۔ وہ آفس سے دوپہر میں آتا اور گھر ہی میں کھانا کھاتا۔ ساتھ ہی بچی کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی جس کے باعث وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔
زوہا بیٹی کو سلا کر نماز پڑھنے کھڑی ہوئی تو بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔ نماز سے فارغ ہوکر زوہا نے ہانڈی پکانی شروع کی کہ اس کی انگلی کٹ گئی۔ جلدی سے پٹی لپیٹ کر زوہا نے گھڑی کی طرف دیکھا اور کھانا بنانا شروع کیا۔ کھانا بنانے کے دوران اسے ایک ایک کرکے وہ سب آسانیاں یاد آنے لگیں جو اسے اپنی ساس کے گھر میں میسر تھیں۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے اسے وہ سب باتیں جو اس کی بدگمانی، بغض و عناد پر مبنی تھیں، ایک ایک کرکے یاد آتی جاتیں اور بالآخر ایک دن ایسا آیا کہ زوہا نے روتے ہوتے ہوئے کہا ’’مجھے معاف کردیں عرفان ‘‘۔’’کیا ہوا زوہا،کیا ہوا؟‘‘
’’میں نے اپنی زندگی کو ڈراما سمجھ لیا تھا اور حقیقت سے منہ موڑ لیا تھا۔ آج سمجھ میں آیا کہ رب نے مجھے کن کن نعمتوں سے نوازا ہوا تھا، جن کا میں نے کبھی شکر ادا نہیں کیا‘‘۔ اتنا کہہ کر زوہا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ’’کچھ برا نہیں ہوگیا ہماری زندگی میں۔ آج بھی سب تم سے ویسے ہی محبت کرتے ہیں جیسے پہلے کرتے تھے، اور میں تو صرف تمہارے سکون کی خاطر الگ ہوا تھا اور اس میں تمہارا بھی قصور نہیں۔ آج کل کے میڈیا، انٹرنیٹ اور فضول کے بننے والے ڈراموں نے ہم سب کو بہکا دیا ہے۔ ہم اپنی زندگی کو کوئی فلم اور ڈراما ہی سمجھتے ہیں۔ برائی کو دکھانا بھی برائی کو پھیلانے کے مترادف ہے۔ یہ بات جب تک ہم نہیں سمجھیں گے، بھلائی نہیں پھیلے گی‘‘۔
زوہا کے دل کا بوجھ اب کچھ ہلکا ہو چکا تھا۔ ’’تو پھر چلیں فریال بھابھی اور امی سے ملنے‘‘، زوہا نے کہا۔ جس پر عرفان بھی مسکرا دیا۔

حصہ