ہادیہ امین
اس دوکان پر تو جلال کام کرتا تھا،اب نہیں ہے کیا؟؟
”نہیں اب نہیں ہے!وہ کیا ہے نا کہ اس کی کسی سے بنتی ہی نہیں تھی،کام تو یہاں ایک دوسرے سے ہی سیکھتے ہیں،وہ کیا ہے نا کہ اس کے لیے برداشت چاہئے ہوتی ہے،ایسے ہی تھوری کوئی مکینک بن جاتا ہے۔۔مگر وہ کیا ہے نا کہ اسکی سب سے لڑائی،ہر بندے سے لڑائی،وہ کیا ہے نا کہ پھر استاد نے اسے نکال دیا۔۔آپکا بیٹا بہت سلجھے ہوئے مزاج کا لگتا ہے۔۔وہ کیا ہے نا کہ ایسے لوگ جلدی کام سیکھ جاتے ہیں”
مکینک کی دوکان پر وہاں کا سینیئر ملازم راجا جو سب کو کام سکھانے پر معمور تھا،مجھے ساری روداد سنا رہا تھا۔۔میں وہاں اپنے بیٹے کو کام سکھانے گیا تھا۔تعلیم جاری رکھنا اسکی اور کوئی ہنر سکھا دینا میری خواہش تھی۔دونوں ہی ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ہم پنڈ سے آئے ہوئے تھے اور میں نے سنا تھا کہ میرے بچپن کے دوست کمال کا بیٹا جلال اس دوکان پر کام کرتا ہے۔۔اس وقت میرے بیٹے سمیت دوکان پہ سب ہماری بات چیت سن رہے تھے اور میں حیران ہو رہا تھا۔۔میرا بیٹا سمجھا میں ”وہ کیا ہے نا” کی گردان سن کر حیران ہو رہا ہوں۔جب کہ میرے دماغ میں پتا ہے کیا چل رہا تھا؟؟ میں پنڈ میں تھا نا تو ایک استاد نے بتایا تھا کی دنیا مکافات عمل ہے۔میں نے پوچھا استاد!اتنا مشکل لفظ!کہنے لگے بیٹا جب ہم کسی پر ایک انگلی اٹھاتے ہیں نا تو چار انگلیاں ہماری طرف اشارہ کرتی ہیں۔میں تو یہ بھی نہ سمجھا مگر یاد رکھ لیا۔گھر جاکر اماں سے پوچھنے کا سوچا کہ وہ بہت عقلمند تھیں مگر پھر سوچا اگر اماں کو بھی نہ پتا ہوا تو انکو شرمندہ ہونا پڑے گا اور اماں کہتی تھیں کہ کسی کو شرمندہ نہیں کرتے۔دل دکھتا ہے تو اللہ ناراض ہوتا ہے۔
پنڈ میں ہر شام محفل لگتی تھی۔عورتوں کی محفل خالہ جمیلہ کے گھر ہوتی تھی جو مردوں کی محفل کے مقابلے میں جلدی ختم ہو جاتی تھی۔وہی محفل ہماری فیس بک تھی،وہی ہمارا واٹس ایپ تھی۔ہاں شہر آکر تو مجھے یہی لگتا ہے۔جب بچے چھوٹے ہوتے تو خالہ جمیلہ والی محفل میں بیٹھتے اور جب بڑے ہوجاتے تو مردوں والی محفل میں جاتے ہیں۔میں اور سب بچے پنڈ کے چھوٹے سے اسکول میں پڑھتے تھے۔ میں پڑھائی میں اچھا تھا۔ذہین تھا بہت۔کچھ اللہ نے خوبصورت بھی بنایا تھا۔سب ہی گائوں میں مجھے اچھا سمجھتے تھے۔
کمال کی ماں ہماری دور کی رشتہ دار تھیں۔وہ بھی خالہ جمیلہ والی محفل میں شریک ہوتی تھیں۔ایک دن کسی نے اس سے پوچھا،”کیا ہوا کمال کھیل نہیں رہا بچوں کے ساتھ؟؟”
کہنے لگیں،”پتا ہے بچے سب آرام سے کھیل رہے ہوتے ہیں۔عبد الولی آتا ہے،سب میں لڑائی ہو جاتی ہے،وہ کیا ہے نا کہ اسکی کسی سے بنتی ہی نہیں۔ اللہ جانے کیا بنے گا اسکا”
مجھے یاد سب مجھے اور اماں کو دیکھ رہے تھے۔اماں کچھ نہیں بولی۔میں بھی پھر دوسری مردوں والی محفل میں جانے لگا۔مگر یہ الفاظ یاد رہ گئے۔وقت گزرتا گیا۔میں اور کمال دونوں ہی شہر آگئے۔کمال سے جان پہچان رہی۔اور دوست بھی بنتے گئے مگر بچپن کی لڑائیوں نے بڑوں تک پہنچ کر اپنی جڑیں مضبوط کر لیں تھیں۔ کمال سے ملنا جلنا باقی رہا مگر دوستی گہری نہ ہوسکی۔
آج راجا کے منہ سے کمال کے بیٹے کے لئے من و عن وہی الفاظ سن کر استاد کی بات یاد آگئی۔وقت نے وقت بہت لیا مگر گھوم پھر کر الفاظ وہیں پہنچ گئے۔مجھے پنڈ یاد آنے لگا۔وہاں کے لوگ سادہ تھے۔محبت والے تھے مگر مکافات کا قانون وہاں بھی چلتا تھا۔پھر جب کسی چھوٹے نے کچھ غلط کیا،میں نے اسے اکیلے میں بلا کر پیار سے سمجھایا۔اسطرح بچے ٹھیک بھی ہوتے گئے اور مجھے پسند بھی کرنے لگے۔میں نے جلال کوبھی سمجھایا اور واپس مکینک کی دوکان پر لگوایا۔پیار سے وقتا فوقتا اسکی اصلاح کرتا گیا۔وہ بھی تو میرے بیٹوں جیسا تھا۔
آج کمال اور عبد الولی جنکی پنڈ میں اکثر ان بن رہتی تھی،ان دونوں کے بیٹے اچھے دوست بن گئے تھے اور شہر میں ایک الگ مکینک شاپ کا افتتاح کرنے والے تھے۔افتتاحی تقریب میں کمال بھی آیا ہوا تھا۔ہم دونوں نے مل کر فیتہ کاٹا۔کمال فیتا کاٹ کر میرے گلے لگ کر رونے لگا۔پتا نہیں کیوں۔مگر میں تو یہ جان گیا تھا کہ کینے کی دیوار اگر گرانی نہ جائے تو نقصان سب کا ہوتا ہے اور اگر دیوار اگرا دی جائے تو فائدہ بھی سب کا ہوتا ہے۔میں یہی سوچ رہا تھا کہ کہ جلال آکر کہنے لگا،چاچا! دوکان کا نام میرے ابو نے رکھا ہے،آپ بوڑڈ پر سے پردہ ہٹا کر دیکھ لیں۔
” عبدالولی مکینک شاپ”
اور دوکان کا نام دیکھ کر میں ایک بار مکینک شاپ پر حیران رہ گیا تھا۔