بند حویلی

382

عمیمہ خان
سندھ اور پنجاب کے سنگم پر گائوں احمد پور ایک خوبصورت اور چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی بستی تھی جس کے باسی ایک برادری کے رشتے میں جڑے ہوئے تھے۔ سب ایک دوسرے کی خوشی اور غمی کے شریک تھے اختلاف اور انتشار نام کی شے کا دخل نہیں تھا گائوں کے بیچوں بیچ ایک چھوٹی مگر خوبصورت مسجد تھی جس کو مرکزیت حاصل تھی اس کے ساتھ ہی اسکول اور چند دوکانیں بھی تھیں جو صرف احمد پور کے باسیوں کے لیے کافی نہیں تھیں بلکہ قریبی گائوں سے بھی لوگ خریداری کے لیے یہاں آتے تھے۔ احمد پور سے چند میل کی مسافت پر ایک بہت ہی پرانی حویلی تھی جو بند حویلی کے نام سے مشہور تھی یہ فاصلہ بہت دشوار گزار تھا گائوں کے ساتھ خاردار جھاڑیوں کا سلسلہ تھا پھر جنگلات اور ریگستانی علاقہ اس کے بعد حویلی کا احاطہ شروع ہوتا۔ حویلی وسیع رقبے پر محیط تھی اس کے گرد خاردار باڑ موجود تھی گویا اس کو محفوظ رکھنے کی ممکنہ کوشش کی گئی تھی حویلی سے متعلق بہت سی دیومالائی کہانیاں منسوب تھیں جن اور چڑیلوں کے حوالے سے واقعات بیان کیے جاتے ہیں ان واقعات میں ہلاکتوں کا ذکر ہوتا بعض افراد تو بند حویلی کے متعلق عجیب و غریب عقائد رکھتے تھے کہ حویلی کی طرف جانے کا سوچنے والا مصیبت میں گرفتار ہو جاتا ہے یعنی کوئی نہ کوئی عذاب ضرور آتا ہے۔
بند حویلی سے متعلق بہت سی کہانیوں کے باوجود ایک نوجوان دلاور جو ان باتوں اور کہانیوں پر قطعیٔ یقین نہیں تھا اس کا کہنا تھا کہ یہ ٹھیک ہے کہ یہ عمارت کئی سو سال پرانی ضرور ہے ممکن ہے کہ مغلیہ دور کی ہو لیکن اس سے منسوب واقعات میں کوئی سچائی نظر نہیں آتی اور لوگوں کا یہ عقیدہ بھی غلط ہے کہ جو اس طرف جانے کا ارادہ کرے گا فنا ہو جائے گا دلاور نے اپنی سوچ سے اتفاق رکھنے والے دو اور نوجوان کو اپنے ساتھ ملایا تاکہ اس راز سے پردہ اٹھایا جائے کہ بند حویلی کیا ہے اور کیوں بند ہے دلاور کے دوست ارشاد اور نوشاد نے دلاور کے منصوبے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کام کے لیے تمام مشقت اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔
(جاری ہے)

حصہ