حبیب الرحمٰن
بچو! کبھی میں بھی آپ کی طرح بچہ ہوا کرتا تھا۔ بچوں کو کہانیاں سننے کا بڑا ہی شوق ہوا کرتا ہے اس لئے مجھے بھی آپ کی طرح کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا۔ اللہ کا شکر یہ ہے کہ میری امی ہوں، نانی ہوں یاخالہ، ان کو بہت کہانیاں یاد تھیں لیکن ان کے پاس کبھی اتنا وقت ہی نہیں ہوتا تھا کہ میں جب بھی فرمائش کروں وہ مجھے کہانیاں سنانے بیٹھ جائیں۔ وہ سب تو دن بھر کام کرنے کے بعد جب رات کو سونے کیلئے پلنگ پر جا لیٹی تھیں تب کہیں کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ہمارے زمانے میں آ پ طرح ٹی وی، ویڈیو گیم ، وی سی پی، وی سی آر یا موبائیل فون تو ہوا نہیں کرتے تھے اور زمانہ بھی چراغ بتی کا تھا اس لئے شام ہی کو رات آجایا کرتی تھی۔ دن بھر کی تھکی نانیاں دادیاں اور امیاں جب پلنگ سنبھالتی تھیں اور ہمیں اپنے ساتھ لٹا لیا کرتی تھیں تو کہانی سنتے سنتے کبھی وہ اور کبھی میں سوجایا کرتے تھے اس لئے ایک ہی کہانی بعض اوقات کئی کئی راتوں میں مکمل ہوا کرتی تھی۔ ہماری باجی کے پاس بھی فرصت کی کمی ہوا کرتی تھی کیونکہ ان کو اسکول جانا ہوتا تھا اور واپسی پر گھر کے کاموں میں اپنا حصہ بھی ڈالنا ہوتا تھا لیکن شاید انھیں کہانیاں سنانے کا بہت ہی شوق تھا اس لئے وہ مجھے روز کوئی نہ کوئی کہانی سنایا کرتی تھیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کی سنائی ساری کہانیاں مجھے اب بھی یاد ہیں جن میں سے ایک مزے دار کہانی میں آپ کو سنا رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آ پ کو یہ کہانی بہت پسند آئے گی۔
ایک چڑیا تھی اور ایک کوا، دونوں نے انڈے دیئے ہوئے تھے اور دونوں کے انڈوں میں سے بچے نکلنے والے تھے۔
بد قسمتی سے اس زمانے میں ایسا قحط پڑا کہ نوبت فاقوں تک آ پہنچی۔
بھوک نے برا حال کیا تو چڑیا اور کوے میں یہ طے پایا کہ اگر میرے یعنی چڑیا کے بچے پہلے نکلیں گے تو وہ کوے کو دیدیگی کہ وہ کھائے اور اگر کوے کے بچے پہلے نکلیں تو وہ چڑیا کو دیدیگاکہ وہ انھیں کھائے۔
بھوک کے ہاتھوں بلبلائے چڑیا کوا میں یہ بات حتمی ٹھہری اور وہ اپنی بھوک دبائے انڈے سہتے رہے۔
اتفاق یہ ہوا کہ کوے کے بچے پہلے نکل آئے۔ چڑیا نے معاہدہ یاد دلایا تو کوےنے اپنے بچے چڑیا کے حوالے کر دیئے اور چڑیا ان کو مارکر تھوڑا تھوڑا روز کھانے لگی۔
چند دن کے بعد چڑیا کے بچے نکلے تو اس کا دل دھک سے رہ گیا کیونکہ اب اسے اپنے بچے کوے کے حوالے کرنے تھے۔ چڑیا نے بہت کوشش کی کہ کوے سے اپنے بچے چھپائے لیکن ایک دن کوے کے کانوں میں چڑیا کے بچوں کے چوں چوں کرنے کی آواز پہنچ ہی گئی۔ کوے نے چڑیا سے کہا کہ معاہدے کے مطابق جب میرے بچے انڈوں میں سے نکلے تھے تو طلب کرنے پر میں نے وہ تمہارے حوالے کر دیئے تھے اسلئے تم اپنے بچے میرے حوالے کرو۔ اب تو چڑیا بہت گھبرائی۔
چڑیا تھی بہت چالاک کہنے لگی، سر کار بچے تو میں آپ کوضرور دونگی لیکن کل میں نے دیکھا تھاکہ آپ بھوک سے بیقرار ہو کر گائے کا ’’گند‘‘ کھا رہے تھے، آپ اپنا منھ پانی سے دھو آئیں تو میں اپنے بچے آپ کے حوالے کردونگی۔
کوے نے کہا بہت اچھا میں ابھی منھ دھو کر آیا۔ یہ کہہ نکر کوا ایک کنوئیں کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا، کنور کنور تم کنور داس ہم کاک داس۔ دے پنروا (پانی) دھوئے چونچر وا (چونچ) ، کھا چڑی کے چونچلے مٹا موچھڑیاں۔
کنوئیں نے کہا کہ تجھ کو پانی چاہیے تو پانی بھرنے کے لئے کوئی برتن لے آ اور جتنا پانی تجھے چاہیے لے لے۔
کوا وہاں سے اڑ کر کمہارکے پاس گیا اور اس سے ’’ہنڈروا‘‘ دینے کی فرمائش کی۔
یہ ایک مٹی کے برتن کا نام ہے۔ کمہار نے کہا کیوں تو کوا کہنے لگا۔
کمہر کمہر تم کمہر داس ہم کاک داس، دے ہنڈروا، بھرے پنروا، دھوئے چونچروا، کھا چڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔
کمہار نے کہا کہ تجھے برتن چاہیے تو جا اور مٹی لے آ میں تجھے ہنڈروا بنا کر دے دوں گا۔
کوا وہاں سے اڑ کر مٹی کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا۔
مٹر مٹر تم مٹر داس ہم کاک داس، دے مٹروا، بنے ہنڈروا، بنائے کمہر وا، بھرے پنروا، دھوئے چونچر وا، کھا چڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔
مٹی نے کہا ، بھئی جتنے بھی مٹی چاہیے لے جا پر مجھے کھودنے کے لئے کوئی شے لے آ۔
کوا سوچ میں پڑگیا کہ کیا چیز لائے اور کہاں سے لائے۔ پھر اس کو ہرن کا خیال آیا اور اس نے سوچا کہ وہ ہرن سے کہے گاکہ اپنا سینگ اس کو دیدے اور اس کے سینگ سے وہ مٹے کھودے۔ یہ سوچ کر وہ اڑتا اڑتا ہرن کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا کہ وہ اسے اپنا سینگ دیدے۔ ہرن نے حیرانی سے کوے کی بات سنی اور پوچھا کہ وہ اس کا سینگ کیوں مانگ رہا ہے تو کوے نے اپنی ساری بات دہرائی۔
ہرن ہرن تم ہرن داس ہم کاک داس، دے سینگروا، کھدے مٹر وا، بنے ہنڈروا، بنائے کمہر وا، بھرے پنروا، دھوئے چونچروا، کھا چڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔
ہرن نے کہاکہ بھلا میں اپنا سینگ خود سے کیسے توڑسکتا ہوں۔ اچھا ایسا کرو تم میرے لئے کسی موٹے تازے کتے کو لے آؤ، میں اس سے لڑائی کرونگا، اگر اس لڑائی کی وجہ سے میرا سینگ ٹوٹ گیا تو تم وہ سینگ لیجانا۔ کوے کو یہ بات سمجھ میں آگئی اور وہ کسی کتے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا ۔ آخر کار اس کو ایک کتا نظرآیا تو وہ کتے کے پاس آیا اور اپنا مدعا بیان کیا۔
کتے نے اس سے کہا کہ میں ہرن سے کیوں جھگڑا کروں تو کوے نے اسے بھی اپنی ساری داستان سنائی، کہنے لگا، کتر کتر تن کتر داس ہم کاک داس، لڑے ہرن وا، ٹوٹے سینگروا، کھدے مٹروا، بنے ہنڈر وا، بھرے پنروا، دھوئے چونچروا، کھا چڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔
کتا کہنے لگا کہ ہرن سے لڑنے میں مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن میں بہت کمزوری محسوس کررہا ہوں، بھوک بھی زوردار لگی ہوئی ہے، ایسا کرو تم میرے لئے تازہ تازہ دودھ لے کر آؤ، مجھ میں کچھ جان آئے گی تو میں ہرن سے مقابلے کے قابل ہونگا۔
کوے نے کہا تم یہیں رکو میں ابھی دودھ لے کر آیا۔
وہ اڑتا اڑتا ایک گائے کے پاس جا پہنچا اور دودھ کی فرمائش کی۔ گائے نے حیرت سے کہا تجھے دودھ سے کیا مطلب؟
کوے نے اسے بھی بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی بات بتائی، کہنے لگا، گگر گگر تم گگرداس ہم کاک داس۔ دے دودھروا، پیئے کتر وا، لڑے ہرن وا، ٹوٹے سنگر وا، کھدے مٹروا، بنے ہنڈروا، بھرے پنروا، دھوئے چونچروا، کھا چڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔
گائے نے کہا کہ دودھ تو سارا اس کے مالک نے نکال لیا ہے۔ ہاں ایک کام کرو۔ میرے لئے کہیں سے اچھی سی گھاس لے آؤ، میں اسے کھاؤں گی، تھنوں میں دودھ بنے گا تو تم لے جانا۔
اب کوا اڑتے اڑتے ایک میدان میں اترا جس میں گھاس ہی گھاس اگی ہوئی تھی۔
اس نے گھا س کو بھی اپنی پوری کہانی سنائی۔
کہنے لگا، گھسر گھسر تم گھسر داس ہم کاک داس۔ دے گھسروا، کھائے گگروا، بنے دودھر وا، دے دودھروا، پئے کتروا، لڑے ہنروا، ٹوٹے سینگروا، کھدے مٹروا، بنے ہنڈروا، بنائے کمہر وا، بھرے پنر وا، دھوئے چونچر وا، کھاچڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑ یاں۔
گھاس نے بھی کوے کی داستانِ امیر حمزہ بہت توجہ سے سنی اور کوے سے کہنے لگی کہ اگر میری وجہ سے تیرا مسئلہ حل ہو سکتا ہے تو مجھے کیا اعتراض۔ مجھے تو تیرے کام آکر خوشی ہی ہوگی۔ بس ایسا کر کہ میرے کاٹنے کے لئے کوئی شے لے آ اور تجھے جتنی ضرورت ہو مجھے کاٹ کر لے جا۔
کوا مشکل میں پڑگیاکہ اب کیا کرے۔ بہت سوچ بچار کے بعد اس نے لوہار کے پاس جانے کا فیصلہ کیا تاکہ اس سے درانتی کے لئے کہے اور جب درانتی بن جائے گی تو وہ اس سے بہت ساری گھاس کاٹ کرگائے کے پاس لے جائے گا تاکہ وہ اس کو کھائے اور دودھ دینے کے قابل ہو جائے۔
وہ وہاں سے اڑا اور لوہار کے پاس پہنچا اور درانتی کی فرمائش کی۔
کوے کی فرمائش پر لوہار کو بڑی حیرت ہوئی اور اس نے کوے سے کہا میاں کوے! تجھے درانتی کی کیا ضرورت پڑگئی تو کوے نے اسے اپنی پوری کتھا سنائی۔ کہنے لگا
لوہر لوہر تم لوہر داس ہم کاک داس، دے درنتوا، کٹے گھسر وا، ھائے گگروا، دے دودھروا، پیئے کتروا، لڑے ہرن وا، ٹوٹے سینگر وا، کھدے مٹروا، بنے ہنڈروا، بنائے کمہر وا، بھرے پنروا، دھوئے چونچر وا، کھا چڑی کے چونچلے، مٹکا مچھڑیاں۔
لوہار اس کی اتنی جد و جہد اور درد بھری داستان سن کر بہت ہی متاثر ہوا اور اس نے اوروں کی طرح یہ نہیں کہا کہ جا اور جا کر کہیں سے لوہا لے آ، بلکہ اس نے کہا، میاں کوے بیٹھو، میں تمہیں ابھی ہاتھ کے ہاتھ درانتی بنا کر دیتا ہوں تاکہ تمہارا مسئلہ حل ہو سکے اور تم چڑیا کے بچے کھا سکو۔
کوا بہت خوش ہوا اور لوہار کے پاس ہی بیٹھ گیا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ آخر کار اس کی محنت رنگ لے آئی اور اب وہ کچھ ہی دیر بعد چڑیا کے بچے مزے لے لیکر کھا رہا ہوگا۔
تھوڑی ہی دیر میں لوہار نے لوہے کے ایک ٹکڑے کو آگ میں تپا کر خوب سرخ کیا اور اس کو درانتی کی شکل میں ڈھالنے لگا۔ وہ بار بار لوہے کو آگ میں سرخ کرتا اور درانتی کے شکل میں ڈھالنے لگتا۔ یہ سارے مناظر دیکھ کر کوا دل ہی دل میں اور خوش ہونے لگتا۔
آخر کار درانتی تیار ہو گئی تو لوہار نے پوچھا کہ اسے کہا ں رکھوں کوا یہ سب دیکھ ر اتنا خوش ہوا کہ لوہار سے یہ کہنا ہی بھول گیا کہ اس کو ٹھنڈا کردے اور دونوں پرپھیلا کر کہنے لگا ’’درانتی میرے پروں پر رکھ دو‘‘ لوہار نے سرخ سرخ درانتی جونہی کوے کے پروں پر رکھی تو کوے کے منھ سے بس ایک زوردار چیخ نکلی اور کوا اسی وقت جل کر مر گیا۔
یہ خبر اڑتے اڑتے اور پھیلتے پھیلتے چڑیا کے کانوں تک بھی جا پہنچی کہ کوا جل کر مر گیا ہے۔
چڑیا نے اس خبر کو سنا تو بہت خوش ہوئی اس طرح چڑیا کے بچے مرنے سے بچ گئے۔