ڈاکٹر شعیب نگرامی
دوسری اور آخری قسط
دنیا کی بڑی بڑی تاریخی شخصیتوں میں کوئی ایک بھی ایسی نہیں جو کم وبیش اپنے ماحول کی پیداکردہ نہ ہو مگر اس شخص کی شان سب سے نرالی ہے اس کے بنانے میں اس کے ماحول کا کوئی حصہ نظر نہیں آتاہے۔ ہیگل کے فلسفہ تاریخ، یا مارکس کی مادی تعبیر تاریخ کے نقطۂ نظر سے ہم یہی حکم لگاسکتے ہیں کہ اس وقت اس ماحول میں ایک قوم اور ایک سلطنت بنانے والا ظاہر ہونا چاہئے تھا یا ظاہر ہوسکتاتھا؟۔مگر ہیگلی یا مارکسی فلسفہ اس واقعہ کی توجیہ کیونکر کرے گا کہ اس وقت اس ماحول میں ایسا شخص پیدا ہو ا جو بہترین اخلاق سکھانے والا ، انسانیت کو سنوارنے والا، اور جاہلیت کے اوہام وتعصبات کو مٹانے والا تھا، جس کی نظر قوم نسل اور ملک کی حدیث توڑ کر پوری انسانیت پر پھیل گئی، جس نے اپنی قوم کے لئے نہیں، بلکہ عالم انسانی کے لئے ایک اخلاقی وروحانی اور تمدنی وسیاسی نظام کی بنیاد ڈالی۔
وہ ان لوگوں میں سے نہیں ہے جن کو تاریخ نے پرانا کردیاہے اور جن کی تعریف ہم صرف اس حیثیت سے کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے زمانہ کے اچھے رہنما تھے۔ سب سے الگ اور سب سے ممتاز ؍وہ انسانیت کا ایسا رہنما ہے جو تاریخ کے ساتھ حرکت کرتاہے ہم علمی فیاضی یا بد احتیاطی کے ساتھ جن لوگوں کو تاریخ بنانے والے (میکرس آف ہسٹری) کا لقب دیتے ہیں وہ درحقیقت تاریخ کے بنائے ہوئے ہیں ، وہ ’’ کریٹرس آف ہسٹری ‘‘ ہیں؍ دراصل تاریخ بنانے والا پوری انسانی تاریخ میں صرف یہی ایک شخص ہے جس نے اپنے ہمہ گیر پیغام کے لئے خود اپنے مطلب کے آدمی تیار کئے ؍ اپنی زبردست شخصیت کو پگھلا کر ہزارہا انسانوں کے قالب میں اتاردیا اور ان کو ویسا بنایا جیسا وہ بنانا چاہتاتھا ، اس کی طاقت اور قوت ارادی نے خود ہی انقلاب کا سامان کیا، خود ہی اس کی صورت اور نوعیت متعین کی۔ اس شان کا تاریخ ساز اور اس پائے کے ریفارمر یا مصلح کی مثال پوری انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔
خواتین وحضرات!
آئیے اب ہم اس تاریخ ساز شخصیت اور محسن انسانیت کے اُن کارناموں کا بھی سرسری جائزہ لیتے چلیں جنہوں نے انسانیت کے رستے ہوئے ناسوروں کو مداوا کیا اور تاقیامت وہ نبی نوع انسانی کے لئے مشعل راہ رہیں گے۔
نمبر ایک ۱؎
محسن انسانیت کی تعلیم کی بنیاد اُن پر نازل شدہ الہامی کتاب ’’ قرآن کریم ‘‘ ہے اس کے مندرجات کے متعلق کوئی چھوت چھات نہیں کہ اجنبیوں کو پڑھنے اور سننے سے روکا جائے ، بلکہ یہ صلائے عام ہے کہ ہر شخص اس کو پڑھے، اور بطور خود اپنے لئے فیصلہ کرے کہ وہ اس کو قبول کرسکتاہے یا نہیں؟ اور پھر یہ وہ قرآن ہے جو فصاحت میں ھومرؔ، اور ڈیماستھنسؔ کے قانون سازی ؍جسٹی نین کے فی الدنیا حسنہ میں ؍کاؤٹلیا کے فی الآخرہ حسنۃ میں ، گوتم بدھ اور کنفوشس کے ادب واحترام کے چیلنج کا جواب ہے، اس میں فطری مساوات اور اختیاری فضیلت، اعمال صالحہ کی بنیاد پر قائم کی گئی ؍اور جملہ سابقہ مذاہب کا احترام واعتراف کرتے ہوئے ان کے مقابل اپنی حیثیت صرف یہ بیان کی گئی یہ ایک تجدید صداقت ہے ۔
نمبر دو ۲؎ محسن انسانیت کی ہمہ گیر شخصیت
دنیا میں یک حیثیتی بڑے لوگوں کی کبھی کمی نہیں رہی ہے لیکن اگر ہم مثلًا سکندر اعظم، نپولین اور ھٹلر کو لیں تو ان کی زندگی صرف ایک فوجی کمانڈر اور فاتح کے لئے مفید مواد؍ مطالعے کے لئے پیش کرسکتی ہے ، گوتم بدھ کی زندگی ریاضت ، عبادت میں خصوصی دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ہی سبق آموز ہوسکتی ہے، ھومر صرف ایک شاعر تھا؍ افلاطون اور ارسطو صرف حکیم وفلسفی تھے؍ زندگی کے دوسرے شعبوں میں ان کی کوئی بڑی وقعت نہیں ہے، اس کے برخلاف رسول عربیؐ محمد بن عبد اللہ ﷺ کی زندگی پر نظر ڈالئے ؍ اس کی ہمہ جہتی حیثیت؍ قول وفعل کی یکسانی؍ ایک بے نظیر چیز کی صورت میں نظر آئے گی۔ سرور کائناتؐ ہی کی سرپرستی میں عرب جیسی گمنام قوم نے بین الاقوامی تعلقات میں پہلا قدم رکھا ؍ کمبرج یونیورسٹی کے تاریخ کے استاد ڈاکٹر اکر اپنی کتاب
’’ ہسٹری آف دی لا آف نیشن ‘‘ میں عربوں کی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ ان سے زیادہ مہذب کبھی فتوحات کے لئے نہیں نکلے تھے ، اور فتوحات کی وسعت اور گہرائی کا جو ریکارڈ انہوں نے قائم کیاہے وہ اب تک کسی قوم سے توڑا نہیں جاسکاہے، چنانچہ انہوں نے دس ہی سال میں عراق، ایران، فلسطین، شام ، مصر، لیبیا، تونس، ترکستان اور مغربی سندھ کو زیر کرلیا؍ یہ سب علاقے قریب قریب آج بھی ٹھوس اسلامی علاقے ہیں اور ان میں کی اکثر کی زبان عربی ہوگئی ہے ‘‘۔
اس سے قطع نظر سرور کائنات نے جو دستورِ مملکت مرتب ، اور جو نظام حکمرانی قائم فرمایا، اس پر عمل دنیا کی ایک عظیم الشان مملکت کے لئے نہ صرف ہر طرح کارآمد ثابت ہوا، بلکہ جب تک اس پر عمل رہا وہ دنیا کی مہذب ترین حکومت بنی رہی؍ گاندھی نے اپنے اخبار ’’ ہریجن ‘‘ میں اسے انسانیت کا درد زریں لکھاہے اور ہندو لیڈروں کو مشورہ دیاتھا کہ وہ اسی نمونہ کو اپنائیں۔
نمبر ۳؎ دعوت وتوحید کے علمبرداروں کی تشکیل اور ان کی نشو ونما
’’ دعوت وتوحید ‘‘ اول روز سے ہر باطل مکتب فکر کے لئے چیلنج رہی خاص طور سے مکہ میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے عرب قبائل کلمہ توحید ’’ لا إلہ إلا اللہ ‘‘ کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے …اِس حالت میں صرف وہی لوگ داعی توحید کے ساتھ تھے جن کا ذہن صاف تھا جو حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی استعداد رکھتے تھے؍ جو حق وصداقت کی خاطر آگ میں کودجانے اور موت سے کھیلنے کے لئے تیارہتے ؍ دعوت وتوحید کو ایسے ہی آہنی کردار کے لوگوں کی ضرورت تھی؍ وہ ایک ایک دودو چارچار کرکے آتے رہے اور کشمکش بڑھتی گئی کسی کا روزگار چھوٹا کسی کو گھر والوں نے نکال دیا ، کسی کو قید میں ڈالاگیا، کسی کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹاگیا، کسی کی سربازار پتھروں اور گالیوں سے تواضع ہوئی؍ ان مصائب وآلام کا لازمی فائدہ یہ ہواکہ گھٹیا قسم کے، اور کمزور سیرت وکردار کے لوگ مصائب کی اس تربیت گاہ کی طرف آہی نہ سکے جو بھی آیا وہ نسل آدم کا بہترین جوہر تھا اور جنہیں ہم صحابہ کرام کے نام سے جانتے ہیں۔
اندلس کے مشہور عالم ابن عبد البر اپنی کتاب ’’ الاستیعاب ‘‘ میں صحابہ کرامؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ تو وہ دیدہ ور تھے جن کا نرگس صدیوں انتظار کرتی ہے ؍ جنہیں اللہ تعالی نے بشریت کو راہ حق دکھلانے کے ذمہ داری سونپی تھی اور جن کے ایمان وطہارت پر قرآن وحدیث گواہ ہیں۔
مشہور فرنچ مستشرق ڈاکٹر گوستاف لوبون اپنی کتاب ’’ تمدن عرب ‘‘ میں صحابہ کرامؓ کا اِ ن الفاظ میں ذکر کرتاہے : یہ لوگ رسول کی اخلاقی وراثت کے سچے نمائندے ؍مستقبل میں اسلام کے مبلغ؍ اور محمدؐ نے لوگوں تک جو تعلیمات پہنچائیں تھیں اس کے امین تھے؍ رسول کی مسلسل قرابت اور ان سے محبت نے اِن لوگوںکو فکروجذبات کے ایک ایسے عالم میںپہنچادیاتھا ، جس سے اعلی اور متمدن ماحول کسی نے دیکھانہیں تھا؍ یہ اسلام کے قابل احترام پیشروتھے جنہوں نے مسلم سوسائٹی کے اولین فقہاء، علماء اور محدثین کو جنم دیاتھا ۔
ہماری اسلامی تاریخ کے اوراق اس بات کے شاہد ہیں یہی وہ جانثار ہیں جو قرآن کریم کے پہلے مخاطب اور سپاہ توحید کے ہراول دستہ تھے، انہوں نے معبودان باطل کی خدائی سے انکار کرکے ان کی عظمت کا تختہ الٹ دیا ، انہوں نے صحراء کو چمن زار بنادیا جہاں حریت ومساوات کی ہواچلی ؍ اور ہاں تہذیب نے آنکھیں کھولیں؍ ان میں وہ اولو العزم قائد فاتح پیداہوئے جنہوں نے حق وباطل کی جنگ میں ، حق وصداقت کو فیصلہ کن کامیابی عطاکی ، انہوں نے دنیا کو وہ خداشناس مجاہد دئیے جو دن کو میدان جنگ کے شہسوار اور رات کے اندھیروں میں عبادت گذارتھے (رھبان باللیل وفرسان بالنھار ) تھے ، جنہون نے تلواروں کی چھاؤں میں اذانیں دیں اور عین معرکہ حرب وضرب میں نماز شوق اداکی۔ یہ امت اسلامیہ کے وہ ’’ لعل وگوہر ‘‘ ہیں جن پر انسانیت کو اپنے اوپر ناز کرنے اور ہر دور کے انسانوں کو ان پر فخر کرنے کا حق حاصل ہوتاہے ، ان کی جنس میں ایسے پایہ انسان پیدا ہوئے جن میں ہرایک بقول اقبال:
خاکی و نوری نہاد
بندہ مولی صفات
کا مصداق تھا۔
۴؎ محسن انسانیت اور نسلی برتری
رسول عربی کی بعثت سے قبل پوری انسانیت نسلی برتری کی بھٹی میں جل رہی تھی اِن حالات میں ربانی پیغام کی صدا بلند ہوئی یا ایہا الناس الخ ۔ یعنی اے انسانو ! ہم تمہیں ایک مرد ایک عورت سے پیداکرتے ہیں اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لئے بانٹتے ہیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو ورنہ خدا کے نزدیک تم میں سب سے معزز تو وہی ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار اور خداترس ہے …اس دعوت ربانی کا نتیجہ اقبال کی زبان میں یوں برآمد ہوا:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
۵؎ محسن انسانیت اور اقتصادی نظام
اسلام سے پہلے کے مذاہب نے خیرات کی ترغیب تو بہت دی لیکن اس کے لئے کوئی منظم لائحہ عمل نہیں پیش کیا ؍نتیجہ یہ ہواکہ مالدار مالدار تر ہوتے چلے گئے اور مفلس مفلس تر۔ اسلام نے اس بات کو محسوس کیا کہ دولت کی گردش وتقسیم سے کس طرح عوام کو فائدہ پہنچایاجاسکتاہے۔
محسن انسانیت نے قرآن کریم کی بنیاد پر جودنیا کو اقتصادی نظام دیا اس میں ذخیرہ اندوزی کی جڑوں کو کاٹ کر ہر قسم کے سود کی ممانعت کردی گئی، وصیت پر پابندی عائد کی گئی کہ کوئی شخص اپنی پوری دولت کسی ایک شخص کو نہ دیدے بلکہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی کی وصیت کی جاسکتی ہے، پھر وراثت میں مردوں اور عورتوں دونوں کو حصہ دار رکھاگیا تاکہ ایک س زیادہ خاندانوں میں دولت بٹتی رہے اور دس بارہ ایسے قریبی رشتہ دار نامزد کئے گئے جو لازمی طور پر ترکے میں حصہ پائیں۔
خواتین وحضرات!
محسن انسانیت کے اِن گراں قدر کارناموں کے علاوہ اگرآپ اِس مصلح اعظم کے پیغام کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کے لائے ہوئے دین نے فطرت کی تبدیلی کی کوشش کے بجائے فطری رجحان کو ایک خاص راہ پر لگانا بہت ضروری قرار دیاہے ۔ مثال کے طور پر اسلام نے ایک سے زیادہ شادی لازماً نہیں ضرورتًا روا رکھاہے کیونکہ اس سے بہت سے معاشی اور سماجی مسائل حل ہوتے ہیں، چار کی حد بھی اس لئے ضروری رکھی کہ چند مالدار لذت نفسانی کے لئے بیشمار عورتوں کا استحصال نہ کرسکیں، طلاق وخلع کی اجازتیں، عورت کی مکمل آزادی اور جائدادی خود مختاری وغیرہ بیسیوں مسائل میں محسن انسانیت نے پیش قدمی اور رہنمائی کی ہے، اور اگر آج اس میں کوئی دشواری محسوس ہورہی ہے تو وہ یا سماجی رسم ورواج کے باعث محسن انسانیت کے پیش کردہ قوانین پر عمل نہ کرنے سے ہے۔
خواتین وحضرات!
سرورکائنات، محسن انسانیت محمد بن عبداللہ ﷺ کی سیرت جو اہمیت رکھتی ہے وہ کسی تفصیل کی محتاج نہیں ہے ، اصول فقہ کی کتابوں میں یہ امر مسلمہ ہے کہ حضورؐ کے ہر قول کی طرح آپؐ کا ہر فعل بھی قانونی حیثیت رکھتاہے ، اور سنت نبوی سے بھی واجبات، مستحبات، اورمکروہات وغیرہ قائم ہوتے ہیں ‘‘۔ یوں تو کسی مسلمان کی زندگی اُسی وقت اسلامی کہلاتی ہے جب وہ قرآن کریم کے احکام کے مطابق ہو لیکن خود قرآن کریم نے متعدد اپر سنت نبوی کی قانونی حیثیت کو تسلیم کیاہے اور اس پر عمل کا حکم دیاہے ، مثال کے طور پر یہ آیتیں ملاحظہ ہوں :
۱؎
”وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰکُم عَنْہُ فَانتَہُوا وَاتَّقُو اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ العِقَابِ“ (الحشر)
”اور جو دے تم کو الرسول سولے لو، اورجس سے منع کرے سو چھوڑ دو اور ڈرتے رہو اللہ سے بیشک اللہ سخت عقاب والے ہیں۔“
۲؎ لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ۔
بےشک تمهارے لئے الله کے رسول کی زندگی بهترین زندگی کا نمونه ہے
۳؎ وما ینطق عن الہوی إنہ ھو إلا وحی یوحی۔
اِن آیتوں اور اسی طرح کی دیگر آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ محسن انسانیت کا قول، آپ کا فعل، اور جن چیزوں کو آپ نے اپنے صحابہ کرامؓ میں رواوبرقرار رکھا اس پر عمل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا خود احکام قرآنی پر ۔اور حقیقت بھی یہی ہے ، محسن انسانیت کی کامل اطاعت وپیروی کا نام ہی اسلام ہے جس پر انسان کی فلاح ونجات کا دارومدار ہے، حقیقی اطاعت کی بنیاد اور روح یہی محبت وتعظیم ہے ، یہ دونوں جذبات کسی کے بارے میں جتنے زیادہ ہوتے ہیں ، اس کی اطاعت اتنی ہی کامل اور پائیدار ہوتی ہے ، ذوق وشوق سے ہوتی ہے، جوش اور ولولے سے ہوتی ہے اور شرف وعزت سمجھ کر ہوتی ہے۔ پھر آدمی اطاعت ہی پر قناعت نہیں کرتا ، ایک قدم آگے بڑھ کر اتباع کی کوشش کرتاہے ، اپنے پیشوا کی ایک ایک بات اور ایک ایک ادا کو محبت وعظمت کی نگاہ سے دیکھتاہے اور اپنے کو اسی رنگ میں رنگنے کی فکر کرتاہے ۔
سرور کائنات کی اتباع جس سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے ، اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ آدمی کے سیرت وکردار میں اپنی صلاحیت اور کوشش کے مطابق رسولؐ کی شخصیت کی جھلک نظر آئے۔ اب اگر کسی کو حوصلہ ہے ایسی شخصیت کی تعمیر کا جس میں کشش اور دل آویزی ہو، عظمت وبزرگی ہو، رعب اور دبدبہ ہو، تواس کے لئے ضروری ہے کہ وہ حضورؐ کی سیرت کو بنیاد بنائے ، اس کا مطالعہ کرتارہے ، آپ ؐ کی سیرت کا مطالعہ تمام سیرتوں سے بے نیاز کرسکتاہے لیکن تمام عظیم ہستیوں کی سیرت کا مطالعہ آپ کی سیرت سے بے نیاز نہیں کرسکتا ۔ یہ شاعری ہے یا حقیقت؟ اس کا صحیح فیصلہ اب محسن انسانیت کی سیرت کا وسیع اور گہرے مطالعے کے بعد خود کرسکتے ہیں۔