نیاز محمد! آپ کی گائے کا شکریہ

412

افشاں نوید
قوموں کی تاریخ میں ’’گائے‘‘ کی ایک الگ ہی شناخت ہے۔ قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہی بے زبان جانور قوموں کی آزمائش بن جاتا ہے۔ سورۃ البقرہ میں جس گائے کا ذکر ہے وہ اس قوم کے لیے سخت عذاب کا باعث بن جاتی اگر وہ اس آزمائش میں پوری نہ اترتی۔ قوم سوال کرتی گئی، اس کے گرد گھیرا تنگ ہوتا رہا، اور پھر اس کو زرد رنگ کی گائے کی قربانی دیتے ہی بنی۔ اسی طرح کبھی بچھڑا سامری کی قوم کے لیے آزمائش بن جاتا ہے۔ وہ بچھڑے کے عشق میں ایمان کھو بیٹھتی ہے۔ بچھڑے کی پرستش کا کینسر قوم کو لے ڈوبتا ہے۔
یہ سیٹلائٹ کا دور ہے۔ اکیسویں صدی کے جدید دور میں ہم جی رہے ہیں۔ مگر یہی گائے سرحد پار بھی فتنوں کا سبب ہے۔ گائے ذبح کرنے پر فساد پھوٹ پڑتے ہیں، مسلم آبادیاں خاک اور خون میں نہلا دی جاتی ہیں۔ اب گائے بے چاری کیا کرے کہ وہ ان دو کے درمیان رہتی ہے جن میں ایک کے نزدیک اس کا گوشت حلال ہے اور دوسرے کے نزدیک اس کا پیشاب متبرک۔ ایک کے نزدیک گائو ماتا ہے، دوسرے کے لیے لذتِ کام و دہن کا سبب…!!!
ہمارا دل تو اس وقت اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد کے نیازمحمد کی گائے کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے مچل رہا ہے جس نے ہمیں ہمارے سماج کا اصل چہرہ دکھادیا۔
آپ نے بھی وہ خبر پرنٹ، الیکٹرونک یا سوشل میڈیا پر پڑھ لی ہوگی کہ جھگی نشین نیازمحمد کی گائے وفاقی وزیر اعظم خان سواتی کے فارم ہائوس میں چلی گئی، فارم ہائوس کے محافظوں نے گائے کو پکڑ کر بند کردیا۔ گائے کے مالکان اپنی گائے لینے واپس آئے تو چوکیداروں سے ان کی ہاتھا پائی ہوگئی۔ دوطرفہ الزامات لگائے گئے۔ محافظ کہتے ہیں کہ نیاز محمد کے اہلِ خانہ نے چوکیداروں پر تشدد کیا، جبکہ نیازمحمد کا بارہ برس کا بیٹا کہتا ہے کہ محافظوں نے ان پر بے جا تشدد کیا۔ بات تو اتنی سی تھی کہ ایک غریب خاندان کا بے زبان جانور بھٹک کر کسی فارم ہائوس میں داخل ہوگیا، بروقت فارم ہائوس کے محافظوں کی نظروں میں بھی آگیا۔ مالکان کو جانور واپس دیتے ہوئے سرزنش کردی جاتی کہ اپنے جانوروں کی حفاظت کیا کریں، آزاد نہ چھوڑا کریں۔
اس گائے نے حکمرانوں کی ذہنیت اور اُن کا چہرہ قوم کے سامنے بے نقاب کردیا۔ یہ دراصل ٹریلر ہے اُس نظام کا، جس میں بیس کروڑ لوگ سسک سسک کر جی رہے ہیں۔ اپنے محلوں اور محافظوں کے حصار میں رہنے والے کسی غریب کا دُکھ کیا جانیں…! کیسی فصیلیں ہیں ہمارے اور ہمارے حکمرانوں کے درمیان…! غریب کے لیے کتنی جگہ ہے اُن کے دلوں میں جو انہی غریب عوام کے ووٹوں سے تختِ شاہی پر براجمان ہوتے ہیں؟
کیسے اَنا کے بت ہیں جن کی پرستش یہ ایلیٹ کلاس کرتی ہے کہ اس چھوٹے سے واقعے کی ایف آئی آر درج کراتے ہیں سواتی صاحب کے صاحبزادے کہ اس غریب خاندان کو پسِ دیوارِ زنداں پھینک دیا جائے کہ ان کی گائے کی یہ مجال کہ سواتی صاحب کے فارم ہائوس کو اپنے پیروں تلے روندے؟ پولیس نے کارروائی میں تاخیر کی تو وفاقی وزیر محترم اعظم خان سواتی جو امورِ مملکت کو بہت اچھی طرح نمٹا چکے ہیں، عوام کو ریلیف مل چکا ہے، ان کے حلقہ انتخاب کے عوام بنیادی سہولتوں کے علاوہ آسائشِ زندگی سے لبریز زندگی گزار رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ کی طرح وہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر غریبوں کی خبر گیری کرتے ہیں گویا۔ اپنے ووٹروں کے تقدس کا وہ اتنا ہی خیال رکھتے ہیں جتنا ووٹ کا تقدس انہیں عزیز ہے۔ ملک کے سارے مسئلے حل ہوچکے ہیں، بس اس گائے کا مسئلہ ہی باقی ہے… سو، وفاقی وزیر تن من دھن سے اس میں کود پڑتے ہیں۔ خود آئی جی اسلام آباد کو فون کرتے ہیں ہر گھنٹہ۔ ان کے ریسپانس کا انتظار کرکے (درجنوں ٹیلی فون کرکے) بالآخر 22 گھنٹے بعد وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی کو فون کرتے ہیں۔ کسی علاقے کے مکین 24 گھنٹے بجلی سے محروم ہوں، یا ہفتہ بھر ان کے نلوں میں پانی نہ آئے، یا ان کے لیے اسپتالوں میں ڈاکٹر نہ ہونے کے سبب وہ ایڑیاں رگڑ کر مرجائیں، کوئی وفاقی وزیر اس طرح کبھی بے چین نہ ہوا ہوگا…!!!
کیس اتنا اہم تھا کہ وزیر مملکت خود چل کر سواتی صاحب کے پاس اُن کا غم غلط کرنے آئے۔ پھر سیکرٹری داخلہ کو بتایا گیا اور آئی جی کی شکایت کی گئی۔ اس دوران اس غیر معمولی اور تاریخی واقعے کی اطلاع تحریری طور پر وزیراعظم اور چیئرمین سینیٹ کو دی گئی۔ اور اس گائے نے آئی جی پولیس اسلام آباد کو فارغ کرادیا۔
واقعہ اتنا بڑا اور تہلکہ اس قدر کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے واقعے کا ازخود نوٹس لیا کہ آئی جی کو کیوں ہٹا دیا گیا۔ اس پر ریاست کے دو ستون آمنے سامنے آگئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات کے اخبارات کے صفحہ اوّل پر پانچ کالمی بیانات لگے کہ وزیراعظم اگر آئی جی کو نہیں ہٹا سکتا تو الیکشن کا فائدہ ہی کیا؟ ظلم کی انتہا تو یہ کہ گائے کے داخلے کی سزا غریب نیاز محمد کو یوں دی جاتی ہے کہ آئی جی کے ہٹتے ہی اس کی بیوی، بیٹی اور بارہ برس کے بیٹے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے۔ مکافاتِ عمل دیکھیے کہ انویسٹی گیشن پر پتا چلتا ہے کہ سواتی صاحب کے فارم ہائوس کی زمین ہی غیر قانونی ہے۔ چیف جسٹس نے معاملے کی تحقیق کے لیے ’’جے آئی ٹی‘‘ بنادی، یہاں تک کہ چیف جسٹس نے اعظم سواتی کو سرزنش کرتے ہوئے اُن سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔
ہم تو نیازمند ہیں نیاز محمد کی گائے کے، جس نے ہمیں ایک بار پھر بتادیا کہ
٭پاکستان میں اعلیٰ سیاسی عہدوں تک کون لوگ پہنچتے ہیں؟
٭ان کی نظر میں ووٹروں کا کیا تقدس ہے؟
٭ریاست میں طاقتور کے لیے الگ قانون ہے اور غریب کے لیے الگ!!!
٭غریبوں کی جھگیوں میں آگ لگ جائے، وہ جھلس کر مرجائیں تو کسی وفاقی وزیر کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ لیکن اپنے فارم ہائوس کا وقار ایک غریب کی گائے کے پائوں تلے مجروح ہونے پر وہ ریاست کے ہر ادارے کے دروازے پر دستک دیتے ہیں۔ آئی جی تک کو عہدے سے ہٹوا دیتے ہیں۔
٭ایک گائے کے معاملے میں وزیراعظم سمیت ریاستی اداروں نے جو چابک دستی دکھائی اگر پاکستان کے سالہا سال سے گم شدہ افراد کے معاملے میں ریاست اتنی حساس ہوتی تو گم شدہ افراد کے اہلِ خانہ یوں اپنے پیاروں کی تصاویر اُٹھائے در در کی خاک نہ چھان رہے ہوتے۔
٭نہ گائے فارم ہائوس میں داخل ہوتی، نہ یہ بات ریکارڈ پر آتی کہ دارالحکومت تک کی سرکاری زمینیں کس طرح مالِ یتیم سمجھ کر ہڑپ کرلی گئی ہیں؟
٭ایک غریب خاندان کے خلاف جس طرح حکومتی ادارے نے ایکشن لیا اور وفاقی وزیر کا ناجائز دفاع کیا، اس نے سماج کو ’’تبدیلی‘‘ کا اصل چہرہ دکھادیا۔
٭نیاز محمد جیسے غریب لوگوں کو یہ سوچنے کا حق حاصل ہے کہ کیا انہیں اس ملک میں رہنا چاہیے جہاں غریب کی عزت محفوظ نہیں؟ اس کی بیوی اور بیٹی کو کس جرم میں جیل میں ڈالا گیا؟
٭یہاں عزت دار وہ ہے جس کی آف شور کمپنی ہے، یا ارب پتی خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔
٭اگر ریاست ماں جیسی ہے تو ایسا سلوک تو ظالم سوتیلی ماں بھی نہیں کرتی۔
نیاز محمد کی گائے نے ایک سوال رکھ دیا ہے قوم کے سامنے کہ کیا یہ ملک ٹیکس چوروں، لٹیروں، زمینوں پر ناجائز قبضے کرکے فارم ہائوس بنانے والوں سے کبھی حساب نہیں لے گا؟ بڑے بڑے محلوں میں رہنے والوں کا کبھی منی ٹریل نہیں ہوگا؟ کیا نیاز محمد جیسے غریبوں کی چیخیں کبھی ایوانِ اقتدار میں نہ سنی جائیں گی؟

تم سے پہلے جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

حصہ