برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

397

قسط نمبر165
(23واں حصہ)
ہندوستان کی جانب سے مشرقی پاکستان میں تربیت یافتہ ’’مکتی باہنیوں‘‘ کی آمد بڑی تعداد میں جاری تھی۔ پاکستانی فوج کا ایک مسئلہ تو یہ تھاکہ ان کے پاس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے اتنے جوان ہی موجود نہیں تھے، اور جو فورس ہمارے پاس تھی بھی، اُسے بڑے شہروں میں بغاوت کو روکنے کے لیے رکھنا بھی ضروری تھا…’’کھائیں کہاں کی چوٹ… بچائیں کہاں کی چوٹ!‘‘ کے مصداق موجودہ نفری پر ہی بھروسا کرنا تھا۔ اسی وجہ سے ہمارا مشرقی بارڈر دشمن کے لیے آسان راہداری بن گئی، جس کی آڑ لے کر وہ اپنی باقاعدہ فوج کو بھی مشرقی پاکستان کے سرحدی علاقوں میں بآسانی پہنچا رہا تھا۔
ایسے کٹھن حالات میں البدر اور الشمس کے رضاکاروں نے پاکستان کی سلامتی کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر پاکستان کی افوا ج کا ساتھ دیا۔ وہ پاک فوج کے ہر اشارے پر لپک کر آگے بڑھتے، دئیے گئے ٹاسک کو نبھاتے۔ یہ رضاکار پوری ایمان داری کے ساتھ اور بعض اوقات جان کی قربانی دے کر اپنا ٹارگٹ پورا کرتے۔ ایک اندازے کے مطابق اس تعاون کی پاداش میں تقریباً پانچ ہزار رضاکاروں یا اُن کے زیرکفالت افراد کو شرپسندوں کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ نقصان جان کی صورت میں بھی تھا اور مالی اعتبار سے بھی۔ ان کی بعض قربانیاں تو ایسی ہیں کہ جن پر رشک آتا ہے اور انہیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے اعلیٰ اعزاز سے نوازا جانا چاہیے تھا۔ مگر ’’ہار یتیم ہوتی ہے‘‘ اسی لیے ان جانبازوں کی قربانیوں کا اعتراف حکومتی سطح پر آج تک نہیں کیا گیا…مگر وہ پاکباز شہید روحیں اپنے رب کی بارگاہ میں ضرور سرخرو ہوئی ہوں گی جنھوں نے اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اپنی جان اپنے رب کے حضور گروی رکھی تھی۔ ایسا ایک واقعہ نواب گنج تھانے کے ایک گاؤں ’’گالمپور‘‘ میں پیش آیا، یہاں شرپسندوں کی سرکوبی کے لیے پاک فوج کے ایک دستے کو روانہ کیا گیا اور فوج کی رہنمائی کے لیے البدر کے ایک نوجوان کو ساتھ بھیجا گیا۔ مشن کامیابی کے ساتھ مکمل ہوا اور باغیوں کی سرکوبی مکمل ہوگئی۔ البدر کا یہ مجاہد فوج کے ساتھ جب اپنے گاؤں واپس پہنچا تو معلوم ہوا کہ پاک فوج کی مدد کرنے کی پاداش میں مکتی باہنی کے شرپسندوں نے اس کے تین بیٹوں کو شہید اور اس کی بیٹی کو اغوا کرلیا ہے۔ اسی طرح ’’گماسپور‘‘ (راجشاہی) میں ایک پل کی حفاظت پر مامور رضاکار کو باغیوں نے پیچھے سے آکر اپنے قابو میں کیا اور جسم پر سنگینیں بھونک کر اس سے کہتے رہے کہ ’’جیے بنگلہ‘‘ کا نعرہ لگاؤ… مگر آخری دم تک وہ رضاکار مجاہد ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کہتا رہا اور جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
ہمارے رضاکار اور البدر مجاہدین اسلحہ کے اعتبار سے دشمن کے مقابلے میں بہت کمزور تھے۔ انہیں بمشکل تین چار ہفتوں کی ٹریننگ ہی ملی تھی کہ مکتی باہنی سے مقابلے کے لیے بھیج دیا گیا۔ ہمارے رضاکاروں کے پاس اسلحہ اگر تھا تو وہ 303 تھری ناٹ تھری کی توڑے دار دقیانوسی بندوقیں تھیں جن سے اگر دو تین سے زیادہ مرتبہ فائر کیا جاتا تو نالی گرم ہوکر دھواں دینے لگتی، اور گرمائش کی وجہ سے وہ اگلے فائر کے قابل نہ رہتیں اور ان کو کچھ وقت کے لیے ٹھنڈا کرنا ہوتا۔ اس کے باوجود ہمارے البدر اور الشمس کے رضاکار تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے لیس دشمن کا مقابلہ کررہے تھے۔
دشمن کی جانب سے شروع کی جانے والی گوریلا وار سے مقابلہ جاری رہا۔ ابتدا میں تو پاک فوج کے زخمیوں اور شہدا کو فضائی راستے سے مغربی پاکستان بھیجا جاتا رہا، مگر بعد میں ایسا ممکن نہیں تھا۔ جیسے جیسے گوریلا کارروائیاں تیز ہوئیں، ہمارے نقصانات میں بھی ایک دم سے تیزی آگئی۔ جولائی، اگست1971ء تک زخمیوں اور شہدا کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کچھ زخمی اس حالت میں ملتے کہ ان کے اعضاء تقریباً ناکارہ ہوچکے ہوتے، مقامی ملٹری اسپتال میں انہیں رکھا جاتا۔ اور محض چند ہی زخمی ایسے ملے جن کو قسمت نے ہی محفوظ رکھا۔ شہید ہونے والے تو اس حالت میں ملتے تھے کہ کچھ کے بدن تو سلامت ہوتے مگر بدن پر سر نہ ہوتا۔ کچھ شہدا کی درخت سے بندھی لاشیں ملتیں جن کی کھال ادھڑی ہوئی ہوتی، کسی کی ٹانگیں اور کسی کے ہاتھ نہ ہوتے۔ پانی کے تالابوں میں اینٹوں سے بندھی ہوئی لاشیں بھی ملیں جو رسّی ٹوٹ جانے کی بناء پر پھول کر پانی کے اوپر آگئیں۔ شہدا کو مغربی پاکستان بھیجنا ناممکن ہوگیا تھا، اب کسی بھی راستے سے مغربی پاکستان لاشوں کو بھیجے جانے کی صورت میں بھی مغربی پاکستان میں غیر ضروری خوف و ہراس کا اندیشہ تھا، اس لیے حفظِ ماتقدم کے طور پر حکومت کے کرتا دھرتاؤں نے فیصلہ کیا کہ ’’مُردہ ہمارے لیے بے کار ہے، خواہ وہ مشرقی پاکستان کا ہو یا مغربی پاکستان کا!‘‘
مغربی پاکستان میں شہدا کے ورثا چاہتے تھے کہ شہید کو پاکستان بھیجا جائے۔ شہید صدیق سالک لکھتے ہیں کہ ’’ایک شہید کی بہن کا خط دیکھیں جو اُس نے31 ایف ایف کے کمانڈنگ افسر کو لکھا: آپ جب کراچی سے روانہ ہوئے تو میں نے اپنا گبھرو بھائی آپ کے ساتھ بھیجا تھا، اگر آپ اس کو صحیح سالم واپس نہیں لا سکتے تو اس کی لاش بھجوانا نہ بھولیے گا… یہ بہن پھر کبھی اپنے بھائی کو نہ دیکھ سکی… زندہ یا زندہ جاوید!‘‘
ان حالات میں البدر کے رضاکاروں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان کے دفاع کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا۔
البدر کے رضاکار اپنی عسکری تربیت کے بعد اللہ کو حاضر و ناظر جان کر حلف نامہ پڑھتے’’بسم اللہ الرحمن الرحیم اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمد عبدہ و رسولہ… میں خدا بزرگ و برتر کو حاضر و ناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ… پاکستان کی سالمیت پر آنچ نہ آنے دوں گا۔
پُرامن شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کروں گا۔
اسلام اور پاکستان کے لیے ہر سطح پر جیتے جی جنگ جاری رکھوں گا۔
اور اپنی جان و مال کو اس مقصد کے لیے وقف کردوں گا۔
اللہ میرا حامی و ناصر ہو… آمین‘‘
البدر کے قیام کے شروع میں ہی چٹاگانگ سے پندرہ میل کے فاصلے پر واقع نواکھالی کے مقام پر دہشت گرد ہندوؤں کا ایک مضبوط تربیتی مرکز تھا۔
اس مقام سے تخریبی کارروائیاں کی جارہی تھیں، اس جگہ کو ٹارگٹ کرنے کے بعد البدر کو یہ ٹاسک ملا کہ اس کے خلاف بھرپور آپریشن کیا جائے، چنانچہ ’’البدر‘‘ کی جانب سے پہلا آپریشن ترتیب دیا گیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ضلعی کمانڈر اور ناظم ضلع نے آپریشن پر روانگی سے قبل البدر رضاکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کچھ اہم ہدایات دیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کا مظہر تھیں۔
انہوں نے کہا:’’میرے ساتھیو! آپ کو مہم کے دوران کسی بوڑھے یا کسی بچے پر ہاتھ نہیں اٹھانا، کسی بھی عورت پر زیادتی یا تشدد نہیں کرنا، گھروں کو آگ نہیں لگانی، اور کھیتوں کو نہیں اجا ڑنا۔ دشمن پر اُس وقت تک وار نہیں کرنا جب تک وہ پہل نہ کرے۔ دشمن گڑبڑ کرے تو اس کو گرفتار کرنے اور اسلحہ پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنا۔ اگر اس کے باوجود وہ پوری طرح جنگ پر اتر ہی آئے تب اُس وقت تک اس کا مقابلہ کرنا جب تک کہ وہ زیر نہ ہوجائے یا آپ جام شہادت نوش کرجائیں… اور اگر آپ میں سے کوئی گرفتار ہوجائے تو وہ استقامت کا مظاہرہ کرے اور تشدد کا کوئی بھی راستہ اور حربہ اس سے ملکی راز نہ اگلوا سکے… خدا آپ کا حامی و ناصر ہو‘‘۔
البدر کا یہ پہلا دستہ اپنی مہم پر روانہ ہوا، اور بحمداللہ کامیابی سے ہم کنار ہوکر اپنے مستقر پر واپس پہنچا… اور بہت سے شرپسند گرفتار ہوئے۔ اس معرکے میں روسی و ہندوستانی خودکار اسلحہ مالِ غنیمت کی صورت میں ہاتھ آیا۔
چٹاگانگ سیکٹر میں البدر کی ذمے داری رہائشی علاقوں کی حفاظت تھی۔ بازاروں اور حساس تنصیبات کی حد تک پاک فوج نے کام سنبھالا ہوا تھا۔ جون کے درمیانی دنوں میں البدر نے اپنی چار کمپنیاں تشکیل دیں جو سلطان ٹیپو، خالد بن ولید، ظہیر الدین بابر اور طارق بن زیاد کے نام سے موسوم تھیں، جبکہ پورے ضلع میں 37 پلاٹون تھیں۔ اس شہر میں پاک فوج کی 24 فرنٹیئر رجمنٹ تعینات تھی، اس رجمنٹ کی قیادت میجر جمال دار، کیپٹن پرویز اور صوبیدار منور خان جیسے اعلیٰ کردار اور صلاحیت کے حامل افسران کررہے تھے۔
البدر کے انٹیلی جنس ونگ کو ستمبر کے وسط میں دشمن کی ریکی کرتے ہوئے دشمن (ہندوستان) کے اہم جنگی منصوبے کی خبر ملی کہ ہندوستانیوں اور پاک فوج کے بھگوڑوں (جو ہندوستان کے ساتھ مل چکے تھے) کو ساتھ ملا کر ایک لاکھ افراد کو فوجی تربیت دی جائے گی تاکہ وہ پاک فوج کے مقابل کھڑے ہو سکیں، اور ان کو مختلف راستوں سے مشرقی پاکستان میں داخل کروایا جائے گا… مختلف شہروں میں پھیلنے کے بعد ہندوستانی تربیت یافتہ دس دس ہزار کی ٹکڑیوں میں تقسیم ہوکر اس بات کا انتظار کریں گے کہ برسات کا موسم (نومبر) گزر جائے اور اس کے فوری بعد ہندوستانی فوج کے ساتھ مل کر باقاعدہ اعلانِ جنگ کردیں۔ البدر کے انٹیلی جنس ونگ نے یہ منصوبہ پاک فوج کے ذمے داران کے حوالے کردیا، مگر شومیٔ قسمت اسے قابلِ غو ر سمجھا ہی نہیں گیا، اور صرف ڈیڑھ ماہ کے بعد ہندوستانی حملے نے ثابت کردیا کہ البدر کی یہ اطلا ع سو فیصد درست تھی۔
ڈھاکا شہر میں البدر کی تین کمپنیاں کام کررہی تھیں، جن کی قیادت شہید عبدالمالک (ڈھاکا میں جمعیت کے پہلے شہید)، اور کمانڈر ابو محمد جہانگیر (بعد میں شہید ہوگئے)کررہے تھے۔ شہید عزیز بھٹی کمپنی کی کمانڈ عبدالحق (شہید)، اور غازی صلاح الدین کمپنی کی کمانڈ محمد اشرف الزمان کے پاس تھی۔ بنگلہ دیش کی موجودہ عوامی لیگی حکومت نے ان کی غیر موجودگی میں انہیں پھانسی کی سزا سنائی ہے۔
حوالہ جات: Witness to surrender ۔ میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا – صدیق سالک شہید
البدر: پروفیسر سلیم منصور خالد
(جاری ہے)

حصہ