حوا کی بیٹی کا قصور؟

607

افروز عنایت
عقیلہ کے ہاتھ میں موبائل تھا کہ واٹس ایپ پر امبر کا میسج آیا ’’السلام علیکم آنٹی… کیسی ہیں۔‘‘
عقیلہ: وعلیکم السلام بیٹا! آپ کیسی ہو، کہاں غائب ہو؟
امبر: آنٹی میں تو… عدت… میں ہوں۔
امبر کی بات سن کر عقیلہ کو بہت دکھ و افسوس ہوا۔ دونوں میاں بیوی کے درمیان بہت دنوں سے تنازع چل رہا تھا لیکن سب کو امید تھی کہ شاید دونوں میں کہیں صلح کی گنجائش نکل آئے گی۔ لیکن آج واٹس ایپ پراس کا میسج پڑھ کر عقیلہ کا دل بڑا خراب ہوا کہ کس طرح اس بچی نے اپنا گھر بنا کر رکھا تھا، اپنے شوہر اور سسر کی دلجوئی سے خدمت کرنا، ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھنا… سب ’’ملیا میٹ‘‘ (بیکار) ہو کر رہ گیا۔
اظہر نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد امبر سے شادی کی تھی۔ امبر کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ پڑھی لکھی، تین بھائیوں کی اکلوتی لاڈلی بہن تھی۔ جبکہ اظہر کا تعلق خوش حال گھرانے سے تھا۔ اس شادی پر لوگوں کے ملے جلے تاثرات تھے۔ کچھ کا خیال تھا کہ بچی کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اتنے بڑے گھر میں وہ اکیلی راج کرے گی۔ چاروں نندیں شادی شدہ اپنے گھر بار والی تھیں، ساس کا انتقال ہوچکا تھا، صرف ایک سسر تھے۔ جبکہ کچھ لوگ افسوس بھی کررہے تھے کہ ماں باپ کو کیا پڑی تھی کہ ایک شادی شدہ اور ایک بچی کے باپ سے کنواری بیٹی کو بیاہ دیا! لیکن شادی کے بعد امبر خوش تھی۔ صرف سسر اور شوہر کی ذمے داری تھی۔ خوشگوار اور خوشحال ماحول تھا۔ ماں باپ بھی بیٹی کو خوش دیکھ کر نہال ہوگئے اور دل میں جو تھوڑے بہت خدشات تھے وہ بھی دور ہوگئے۔ نندیں اپنے بچوں کے ساتھ اکثر میکے آتی جاتی تھیں، امبر نہ صرف انہیں خوش آمدید کہتی بلکہ دل و جان سے خدمت کرتی۔ شوہر اور سسر دونوں ہی امبر سے خوش تھے۔ اس کے خوش ذائقہ کھانوں اور سلیقے کی سب داد دیتے۔ تین چار سال اسی طرح ہنسی خوشی بسر ہوگئے۔ چوتھا سال بھی گزر گیا، امبر کی گود ہری نہ ہوئی تو سب کو تشویش ہوئی۔ علاج معالجہ ہورہا تھا، سب کو امید تھی کہ اللہ تعالیٰ ضرور کرم فرمائے گا۔ لیکن جوں جوں وقت آگے کی طرف رینگ رہا تھا امبر کی پریشانی بڑھتی گئی، کیونکہ اب گاہے بہ گاہے نندیں اس بات کا ذکر کرتیں، اور جب بھی آتیں، بھائی کے کان میں ضرور کوئی بات ڈال کر ہی جاتیں، بلکہ اب تو اس کے سامنے بھی اکثر کوئی ایسی بات کہہ جاتیں کہ اسے بڑا دکھ ہوتا۔ اس کے بس میں کچھ نہ تھا، یہ تو رب کے کام ہیں کہ وہ جسے بھی اور جب بھی نوازے۔ اُس وقت تو اس کی آخری آس بھی ٹوٹ کر بکھر گئی جب اس نے اپنی رپورٹ دیکھی کہ اب وہ ماں نہیں بن سکتی۔ اس نازک موقع پر وہ نندیں جن کی وہ بڑی بہنوں کی طرح عزت و خدمت کرتی تھی، کھل کر سامنے آگئیں کہ بھائی آپ دوسری (تیسری) شادی کرلو۔ امبر نے اس موقع پر سب کو کہا کہ اولاد سے محروم تو میں ہوں، آپ کے بھائی کی تو اولاد ہے، وہ اسے لے کر آئیں، میں پالوں گی۔ امبر کو اپنی محرومی کا سخت احساس تھا، اس لیے وہ ہر قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار تھی۔ وہ اس بات پر بھی راضی ہوگئی کہ بے شک اظہر دوسری شادی بھی کرلیں، وہ ساتھ رہنے کے لیے تیار ہے۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ شوہر اور سسر کا خیال رکھنے لگی، لیکن گھر کی فضا پر اداسی کے پنچھی پَر پھیلائے آنے والے وقت کی پیشن گوئی کررہے تھے۔ دو تین ماہ اسی افسردگی کی نذر ہوگئے، پھر آخر وہ گھڑی بھی آگئی جس کا سوچ کر ہی وہ کانپ اٹھتی تھی۔
اظہر: تم اپنا ضروری سامان پیک کرلو، میں تمہیں تمہارے والدین کے گھر چھوڑ آتا ہوں۔
امبر: (اداسی و حیرانی سے) والدین کے گھر…! لیکن میرا قصور…؟ میں یہیں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں، آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟
اظہر: اگر اسی طرح بحث کرو گی تو میں تمہیں یہیں طلاق دے دوں گا۔ کچھ وقت کے لیے تم اپنے والدین کے گھر رہو، پھر دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔
امبر اس اچانک صورت حال کے لیے تیار نہ تھی، لیکن اس وقت تاش کے سارے پتّے اظہر کے ہاتھ میں تھے اس لیے خاموش رہنا ہی بہتر تھا۔ وہ بیٹی جو ماں کے گھر شوہر کے ساتھ بڑی شان سے داخل ہوتی تھی آج اس طرح بے بسی کی تصویر بنی سب کے سامنے تھی۔ والدین نے اور بہت سے خیر خواہ لوگوں نے کہا کہ اظہر کو ہم سمجھائیں شاید وہ اپنے فیصلے میں صلح کی گنجائش نکال لے، لیکن امبر نے سب کو روک دیا کہ اس طرح معاملہ شاید مزید پیچیدہ ہوجائے۔ بصورتِ دیگر میرے صبر اور خاموشی سے شاید اس کا دل پسیج جائے۔ اس صورت حال کی وجہ سے لوگوں کی نگاہیں اس کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہی تھیں۔ وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہونا چاہ رہی تھی۔ اس نے دل پر جبر کرکے آخرکار ملازمت کا سوچا۔ وہ شادی سے پہلے بھی ملازمت کرچکی تھی۔ اسکول میں ملازمت ملنے کے بعد والدین کے گھر کے پاس اس نے دو کمروں کا ایک پورشن کرائے پر لے لیا کہ شاید اس طرح شوہر کو اُس پر رحم آجائے۔ اسے اپنے سسر سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں کہ اس نے بیٹی کی طرح اُن کی دن رات خدمت کی تھی۔ شاید وہ بیٹے کو رام کرسکیں۔ بے شک وہ دوسری شادی کرلے لیکن مجھ سے ناتا نہ توڑے۔ لیکن حوا کی بیٹی کی ساری خوش فہمیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ نکاح کا وہ بندھن جس پر اسے ناز تھا، جس کی وجہ سے معاشرے میں عزت کا مقام بنائے ہوئے تھی، تار تار ہوگیا۔
٭٭٭
آج عقیلہ کو اس کی ایک ایک بات یاد آرہی تھی جو وہ مختلف موقعوں پر کہتی رہتی تھی۔ ایک موقع پر اس نے سب کو کہا ’’میں اسے دوسری شادی سے نہیں روک سکتی، لیکن وہ مجھے اس اتنے بڑے گھر میں کہیں سر چھپانے کے لیے جگہ دے دے‘‘۔ لیکن افسوس اس شخص نے مصالحت کی ساری راہیں بند کردیں۔
٭٭٭
میں سوچ رہی تھی کہ اس سارے واقعے میں امبر کا کیا قصور ہے، جبکہ وہ ہر قسم کے سمجھوتے کے لیے بھی تیار تھی! وہ گھر اس کے بغیر آج سونا سونا لگ رہا ہے جہاں اس نے زندگی کے چھ برس گزارے۔ کس طرح نہ سنوارا ہوگا اس نے ایک ایک کمرے کو، اس گھر کے درو دیوار کو…! لیکن سارے پڑوسی، دوست و احباب جانتے ہیں کہ اظہر کا گھر ایک مرتبہ پھر جگمگا اٹھے گا، مگر امبر… اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ اب اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ خدا کرے اس بچی کو اظہر سے بہتر کوئی مل جائے جو اس کے درد کا مداوا بن جائے۔ رب کریم اپنے بندوں کو آزمائش میں ضرور ڈالتا ہے لیکن ان کی طاقت سے زیادہ انہیں تکلیف نہیں دیتا۔ وہ بڑا منصف ہے۔ رب العزت امبر کے لیے بھی کوئی ایسی ہی راہ نکالے گا، اس کی ’’کن فیکون‘‘ سے سب ممکن ہے۔

حصہ