حسنِ قدیم کی ایک پوشیدہ جھلک

614

عائشہ صدف… ہیوسٹن
جن کو وہاں پر ہونے والی کھدائی کے بارے میں آگاہی دی جارہی تھی۔ اسرائیلی آثار قدیمہ کی طرف سے کھدائی کا کام مسجد اقصیٰ کے زیرزمین جاری ہے جس کا مقصد سیدنا سلیمانؑ کے تعمیر کردہ ہیکل سلیمانی کے آثار دریافت کرنا ہے۔ مقامی لوگوں کو اعتراض ہے کہ اس کھدائی کی وجہ سے مسجد اقصیٰ کی بنیادیں کمزور پڑ رہی ہیں جس کا مشاہدہ گائیڈ نے مسجد مروانی میں موجود پلرز میں پڑنے والی ریخوں کو دکھاکر کرایا۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر یہاں ہلکا سا بھی زلزلہ آیا تو پوری عمارت ڈھے جائے گی۔
ویسے تو مسجد اقصیٰ اردن کے وقف کے زیرانتظام ہے لیکن کسی معمولی سی مرمت کے لیے بھی اسرائیلی گورنمنٹ کی اجازت لینا پڑتی ہے، جو کافی صبرآزما مرحلہ ہوتا ہے اور جو عموماً منع کردی جاتی ہے۔ ویسے تو مسجد کے قدیم اندازتعمیر کو برقرار رکھنے کی کوشش بھی کی گئی ہے مگر حالات زمانہ کی وجہ سے جس پر شکست و ریخت کا شکار ہورہی ہے اس سے محفوظ رکھنا بھی بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
جو حصہ قبلے کے قریب ہے، اس کو قبلائی مسجد کا نام دیا گیا ہے۔ یہاں پر خوب صورت محراب ہے۔ اس کے سیدھے ہاتھ پر سلطان صلاح الدین ایوبی کا نصب کردہ منبر تھا۔ 1969ء میں ایک جنونی شخص نے اس میں آگ لگادی تھی جس سے یہ جل کر تباہ ہوگیا۔ جس کے بعد یہاں مقامی طور پر دوسرا منبر تیار کر کے لگا دیا گیا ہے مگر مسجد ابراہیم میں موجود منبر دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ اصل منبر کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔
اس منبرکی تیاری کا حکم نورالدین زنگی نے دیا تھا۔ ان کو قومی امید تھی کہ وہ یروشلم کو آزاد کروا کے دم لیں گے، مگر موت نے ان کو مہلت نہ دی۔ ان کے بعد اس مشن کو ان کے جانشین سلطان صلاح الدین ایوبی نے تکمیل تک پہنچایا۔ یہ حلب میں تیار ہوا تھا۔ جوڑنے کے لیے کسی قسم کا Glue یا Nails استعمال نہیں ہوئے تھے۔ لکڑی کو خوب صورتی اور مہارت سے تراش کر بنایا گیا تھا۔ قدیم ترین نوادرات میں یہ سرفہرست تھا۔ سلطان نور الدین زنگی کی وفات کے بیس سال بعد اس کی قسمت جاگی اور مسجد اقصیٰ کی زینت بنا۔ عیسائیوں دورِحکومت میں یہ پوری مسجد محل کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ یہاں حمام اور بیت الخلاء موجود تھے جن کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیا، اس کو گلاب اور دوسرے خوش بو دار پانی سے غسل دیا گیا۔ اور قالین بچھوا کر اس کو مسجد کا محترم مقام عطا کیا۔ کیسی خوشی اور سرشاری کا مقام ہوگا۔ جوش و جذبے کا کیا عالم ہوگا۔ یہ دیکھ کر غم اور افسوس کرنا تو آسان کام ہے مگر حالت بدلنے کا بیڑا اٹھانا ہی دراصل حوصلہ مندوں کا کام ہے۔ یروشلم کی فتح نے گرتی ہوئی مسلم حکومت کو دوبارہ اٹھاکھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے صالح کردار سے خلافت راشدہ کی یاد تازہ کردی۔
یہیں مسجد اقصیٰ کے ایک کونے میں گوشہ نشین ہوکر امام غزالی نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’احیاء العلوم‘‘ مکمل کی تھی۔
مسجد کے دروازے سے باہر نکلے تو اپنے آپ کو اس کے وسیع صحن میں پایا۔ دروازے کے ساتھ ہی بائیں طرف پر نیچے جاتی ہوئی سیڑھیاں ہیں جن پر رہنمائی کا بورڈ لگا تھا۔ سیڑھیوں کے ذریعے نیچے پہنچے تو یہ Tunnelکی طرح کی مسجد ہے۔ اس کے متعلق مشہور ہے کہ یہاں آخری نبیِ مکرم سید المرسلینﷺ نے تمام انبیاء کی امامت کی تھی۔ اپنی خوش بختی پر ناز ہورہا تھا کہ وہ واحد خطہ زمین جہاں تمام محترم انبیاء کا روح پرور اجتماع ہوا تھا، مجھے اپنی گناہ گاہ آنکھوں سے دیکھنے کی سعادت ملی۔ میرے خیالات پرواز کرتے کرتے چودہ سوسال پہلے پہنچ گئے۔ کتنا کٹھن تھا مکی دور۔ پھر عام الحزن کا سال۔ غم پر غم برداشت کرتے کرتے نبیؐ بھی تھکان محسوس کررہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب پر کیسا پیار آیا ہوگا، جو اُن کو ’’اسراء والمعراج‘‘ جیسا انوکھا تحفہ عطا کیا ہوگا۔ اللہ اللہ! کیا خوشی و سرشاری کا عالم ہوگا جب راہ حق کے تمام ساتھیوں سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہوگا۔ انبیاء کی خوش بو میں اس مسجد کا حسن ہے۔ اس کو کسی تزئین و آرائش کی ضرورت نہیں۔ انبیائے کرام کے قدموں کو اس زمین نے چوما ہوگا۔ اس کی بنیادوں میں ان کا پسینہ گرا ہوگا۔ یہی اس کی لازوال دلکشی کا راز ہے۔ اور یہی مسلمانوں کی پرجوش محبت کی وجہ۔ ہم وہ واحد امت میں جو سب پر ایمان لاتے ہیں۔ انبیاء میں تفریق نہیں کرتے۔ ہر نبی سے اپنا تعلق جوڑنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ ان کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں۔
اس Tunnel کے آگے بڑھے تو مکتب میں داخلے کا دروازہ تھا۔ یہاں کتابوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ میزیں اور کرسیاں لگاکر بیٹھ کر پڑھنے کا باقاعدہ انتظام کیا گیا تھا۔ لوگ اپنے ذوق کے مطابق یہاں مطالعہ کرتے ہیں۔ ہمارے گائیڈ کی نظر ایک کتاب پر پڑی۔ اس نے شیلف سے نکالی اور پھر رائٹر کا نام دیکھ کر اس کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ بڑے جذبے سے بولا یہ کتاب میرے کزن کی لکھی ہوئی ہے۔ کیسی ہوتی ہے، اپنوں کی محبت!
اتنی بے تحاشا اجنبی کتابوں کے درمیان ایک اپنے کی لکھی ہوئی کتاب نے اس کو شاد کردیا۔ ہمارا بھی تو فلسطین کے ساتھ یہی معاملہ تھا۔ محبت، تعلق اور اپنائیت ہی تو تھا جو ہم اٹلی، سوئٹزرلینڈ، فرانس اور جرمنی چھوڑ کر فلسطین، جس نام کا کوئی خطہ زمین دنیا کے نقشے پر موجود نہیں، میں اپنی چھٹیوں کا مصرف ڈھونڈا تھا۔ مکتبے سے باہر نکلے تو Tunnel کے ذریعے اب ’’مروانی مسجد‘‘ میں داخل ہوگئے۔ عیسائیوں کے دورحکومت میں ’’سلیمانؑ کا اصطبل‘‘ کے نام سے یہ علاقہ معروف تھا اور یہ گھوڑوں کو باندھنے کے لیے ہی استعمال ہوتا تھا۔ ابھی بھی یہاں میں زمین کے نزدیک وہ سوراخ موجود ہیں جن کے ذریعے گھوڑوں کو باندھا جاتا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں زیرزمین علاقے پر ضرورت نہ ہونے کی بناء پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ یہ پورا علاقہ مٹی اور گرد سے اٹا پڑا تھا۔ 1996ء میں میں مسلمان بوڑھوں اور بچوں نے مل کر اس کو صاف ستھرا کیا۔ خوش بو سے معطر کیا گیا اور نمازیوں کے لیے قالین بچھادیئے گئے۔ یہ سب اردن کے وقف کی نگرانی میں ہوا تھا۔ جب سے یروشلم یہودیوں کے قبضے میں آیا ہے تو اندازہ ہوا ہے کہ جس علاقے کی طرف سے مسلمان بے اعتنائی برتتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ ان کے ہاتھوں سے نکل جاتا ہے۔ اس لیے اب زیرزمین تمام حصوں کو استعمال میں لایا گیا ہے۔
مروانی مسجد میں ایک گوشہ صرف سیدنا مریمؑ کی محراب کے نام سے گرل لگاکر بنایا گیا ہے۔ نہ جانے اس کی تاریخی حقیقت کتنی ہے کیوںکہ عموماً لوگوں کا خیال یہی ہے کہ یہ پوری مسجد عبدالملک بن مروان نے تعمیر کروائی ہے مگر سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والی روایات کے مطابق ہیکل سلیمانی کے اسی حصے میں Chamber تھا، جس میں وہ سیدنا ذکریا کے زیرکفالت رہتی تھیں۔ سیدنا مریمؑ واحد عورت ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آتا ہے بلکہ پوری ایک سورت ان کے نام پر ہے۔ یہیں ان کے پاس وہ آسمانی رزق آتا تھا جس کو دیکھ کر ضعیف العمر سیدنا ذکریاؑ کے دل میں اولاد کی خواہش ہلکورے لینے لگی اور ان کی بوڑی بانجھ بیوی کو درست کرکے اللہ تعالیٰ نے ان کو یحییٰؑ جیسا بیٹا عطا فرمایا۔ سیدنا مریمؑ کو جبریل امین نے یہیں سیدنا عیسیٰؑ ابن مریم کے حمل کی خبر دی ہوگی۔ امریکہ میں ان کی تصویریں اور مجسمے بکثرت پائے جاتے ہیں۔ معصومت اور حسن کا امتزاج دکھانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے مگر میرے ذہن میں جو تصویر قرآن پڑھ کر سیدنا مریمؑ کی بنتی ہے، وہ اس سے مختلف ہے۔ پندرہ سولہ سالہ، ٹین ایج، غیرشادی شدہ، پاکیزگی کی تصویر، اللہ کی خاطر سب کچھ تج کردینے والی عظیم ہستی مصائب مسائل سے نبردآزما ہونے کے بعد اس عظیم آزمائش کے لیے چنی گئیں۔ جب حمل کی خبر سنی ہوگی کیسی دہشت سوار ہوئی ہوگی؟ سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔ خوف اور ڈر کا کیا عالم ہوگا؟ کیسے یہاں سے بیت اللحم تک کا سفر کیا ہوگا؟ یہ تمام باتیں عقل کے پیمانوں سے بالاتر ہیں۔ ناپنے کے لیے محبت کا وہ اعلیٰ معیار چاہیے جو انبیاء کے پاس تھا۔
مروانی مسجد سے Tunnel کے ذریعے دوبارہ حرم شریف کے صحن میں پہنچے اور گائیڈ کی راہ نمائی میں جنوب مغربی جانب بڑھے جہاں مسجد براق میں داخلے کا دروازہ ہے۔ سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اترے تو ایک چھوٹا سا علاقہ تھا۔ یہ باقاعدہ وہ مسجد نہیں، مگر مصلیٰ کی شکل دے دی گئی ہے۔ مغربی دیوار پر ایک کنڈا لگا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس جگہ رسول اللہﷺ نے براق کو باندھا تھا۔ اسی وجہ سے اس دیوار کو دیوارِبراق بھی کہا جاتا ہے۔ یہی دیوار کے دوسری جانب ’’دیوارِگریہ‘‘ (Wailing Wall یا Western Wall) کہلاتی ہے۔ اس کنڈے کے متعلق کوئی بات حتمی نہیں کہی جاسکتی مگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا ’’میں نے براق کو اسی کڑے سے باندھا جہاں دوسرے انبیاء باندھتے تھے۔‘‘ نبیﷺ نے اس جگہ دورکعت نماز ادا کی تھی۔ ہم نے بھی سنت نبویؐ کی پیروی کی۔ تمام زیرزمین مساجد کی دیواریں بڑے بڑے پتھروں کو چن کر بنائی گئی ہیں۔ ان کے متعلق مختلف روایات ہیں۔ بعض ان کی اور موجود پلرز کی ہیئت دیکھ کر ان کی نسبت سیدنا سلیمانؑ کے جوڑتے ہیں لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ تعمیر عبدالملک بن مروان کے دورِحکومت کی ہے۔ البتہ ایک مقام ایسا ہے جہاں جناتی سائز کے پتھر ہیں۔ اس علاقے کے متعلق آثارِقدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ وہ ہیکل سلیمان کی باقیات میں سے ہے۔ (جاری ہے)

حصہ