شادی کی رسمیں یا ایذا رسانی

501

رقیہ فاروقی
صبح صبح فون کی گھنٹی بجی۔ دل میں کچھ پریشانی بھی محسوس ہوئی کہ اتنی صبح کون فون کر سکتا ہے! اللہ رحم کرے۔ چارو ناچار فون کو آن کرکے کان سے لگایا ہی تھا کہ حنا کی بھرّائی ہوئی آواز آئی’’باجی! آج ہم ساری رات نہیں سوسکے‘‘۔ میں نے وجہ پوچھی، تو باقاعدہ رونے کے ساتھ داستانِ الم سنائی کہ ’’پڑوس میں کسی کی شادی ہے، ابھی اختتامی تقریب کو ہفتہ بھر باقی ہے لیکن ہر رات شور شرابے اور پٹاخوں کے ساتھ ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے کہ الامان والحفیظ۔ میں تو مسلسل بے آرامی کی وجہ سے سر درد کی مریض بن گئی ہوں۔ سارا دن گھر داری کی مصروفیت اعصاب شل کردیتی ہے اور رات کو کان پھاڑ دینے والی آوازیں‘‘۔ میں اس کی باتیں سن کر دل مسوس کر رہ گئی۔ تسلی کے چند جملے بول کر میں نے اپنا فرض ادا کردیا، لیکن کہاں؟ دل میں ایک پھانس سی چبھ گئی تھی۔
ایک گھر کی خوشی کتنے گھرانوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ پورا محلہ بے چین رہتا ہے۔ کتنے ہی گھروں میں بوڑھے اور بیمار افراد موجود ہوتے ہیں، جن کے لیے عام گفتگو میں بھی آوازیں پست کرلی جاتی ہیں، لیکن آج کا مسلمان شاید اپنی ذات کے خول میں ایسا بند ہوا ہے کہ اسے اپنے سوا کچھ نظر آنا محال ہے۔ صرف اپنی خوشی میں سارا جہاں خوش دِکھتا ہے اور اپنے غم میں دل چاہتا ہے کہ زمانہ نوحہ کناں ہو۔ اس لیے تقریبات میں عمومی طور پر بہت ہلہ گلا ہوتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر خیر کا راستہ مخلوق سے ہوکر گزرتا ہے۔ ساری مخلوق کو اللہ پاک نے اپنا کنبہ کہا ہے۔ جب ہماری تقریبات لوگوں کے لیے باعثِ تکلیف بنیں گی تو ربِّ کریم کی ناراضی لازم آئے گی۔ پھر وہ نکاح جو زندگیوں کے جوڑ کا ذریعہ بنتا ہے، کتنے خاموش مکینوں کے لیے خوشیوں کے سامان کرتا ہے، تباہی اور بربادی کا استعارہ بن جاتا ہے۔
آج کل طلاق کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ گھر بننے سے پہلے ہی اَنا کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ نکاح کو شریعتِ مطہرہ میں برکت کا سبب کہا گیا ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ ایک بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے بوڑھے والد کے کندھے جھک جاتے ہیں۔ پورا گھرانہ متاثر ہوتا ہے۔ بچی کے جوان ہوتے ہی ماؤں کے چہروں پر غم کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ جہیز کا آسیب ان کے سر پر سوار رہتا ہے۔ پھر رسومات میں خرچ ہونے والے ہزاروں روپے اس پر مستزاد ہوتے ہیں۔ اس بابرکت رشتے کی بنیاد گناہوں کے مجموعے پر استوار کرکے بے برکتی سمیٹ لی جاتی ہے۔
ابھی شادی کے قرض اترتے نہیں کہ پہلے ہی گھر اجڑ جاتے ہیں۔ یادگار بن جانے والی شادیاں خانہ بربادی کا سبب بن جاتی ہیں۔ پھر معصوم بچیاں ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنے کے لیے طلاق کا داغ لے کر واپس بابل کی دہلیز پر آبیٹھتی ہیں۔

حصہ