راحیلہ مہر علی
جنوری کے اوائل دن تھے ،پشاور میں اچھی خاصی ٹھنڈ پڑرہی تھی۔ لوگ گھروں میں ہیٹر اور انگھیٹیوں کے سامنے بیٹھے سردی سے لڑ رہے تھے ۔بارش شام سے جاری تھی۔ جس کی وجہ سے ٹھنڈ میں مزید اضافہ ہوا تھا۔’’امی! بہت سردی لگ رہی ہے ‘‘،تقریباً 12 سالہ لڑکی سردی سے کانپتی ہوئی بولی۔’’امی مجھے بھی ‘‘،سردی سے دانتوں پر دانت جمائے 7 سالہ لڑکا منمنایا۔ماں نے ایک نظر خستہ حال کچے کمرے کی چھت کی جانب دیکھا، جہاں سے ٹپ ٹپ پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھیں اور دوسری نظر اپنے معصوم سردی سے ٹھٹھرتے بچوں پر ۔دل میں درد کی ایک لہر اٹھی اور رگ وپے میں پھیل گئی، جسے بمشکل اندر ہی اندر سہہ کر اس نے دونوں بچوں کو اپنے ساتھ لپٹالیا لیکن سردی سے کانپتے بھوک پیاس کے مارے کمزور بچوں کو اپنے ساتھ لگاتے ہی اس کے ضبط کے سارے بندھ ٹوٹ کربکھر گئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔
زندگی بھی کیا کچھ دکھا دیتی ہے، کیسی کیسی آزمائشوں میں ڈال دیتی ہے۔ کیسے جگہ جگہ بے بس و لاچار کر کے رکھ دیتی ہے۔ جب سے ان کے شوہر داغ مفارقت دے گئے تھے تب سے زندگی ان کے امتحان پر امتحان لے رہی تھی۔ ’’امی! ساتھ والے انکل جن کا بڑا بنگلہ ہے، بڑی لمبی لمبی کاریں ہیں وہ اگر ہم غریبوں کو تھوڑے سے پیسے دیں تو کیا ان کے پیسے ختم ہونگے امی‘‘ ؟ چھوٹے سے عدیم نے ایک نظرروتے ہوئے ماں کو دیکھا اور سوال کیا۔ ’’بتائیں نا امی‘‘؟ٹھک ٹھک، اس سے پہلے کہ ماں کوئی جواب دیتی دروازے پر دستک ہوئی، بارش کا زور ٹوٹ چکا تھا اس لیے دستک کی آواز باسانی سنائی دی ۔
’’اس وقت کون ہوسکتا ہے ‘‘؟ فارحہ کے لہجے سے ڈر جھلک رہا تھا۔’’ تم دونوں ٹھہرو، میں دیکھتی ہوں‘‘، نفیسہ نے دونوں بچوںکو خود سے علیحدہ کرتے ہوئے کہا اور اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گئیں ۔اللہ خیر کرے دونوں بچوں نے کانپتے ہوئے دلوں سے دعا کی۔ ’’آپی !کیاآپ کو بھی بھوک لگی ہے‘‘؟عدیم نے بہن کو دیکھتے ہوئے پوچھا اور نا چاہتے ہوئے بھی فارحہ کا سر اثبات میں ہل گیا، عدیم کی بڑی بڑی آنکھوں سے بھل بھل آنسو رواں ہوئے تو بہن نے تڑپ کر بھائی کے آنسو پونچھے اور اسے گلے سے لگالیا۔
اس دوران نفیسہ ایک پرانے سے برتن میں کچھ لیکر کمرے میں داخل ہوئی تو دونوں بچے رونا دھونا بھول کر بیتابی سے آگے بڑھے ،’’ یہ کیا ہے امی‘‘؟دونوں نے ایک ساتھ سوال کیا۔ نفیسہ نے جلدی سے برتن زمین پر پڑی بوسیدہ سی چھٹائی پر رکھ دی برتن میں بھانپ اڑاتی بریانی تھی۔ ’’جاؤ جلدی سے ہاتھ دھوکر آجاؤ ‘‘،نفیسہ نے دونوں کو دیکھتے ہوئے کہا دونوں جلدی سے ہاتھ دھوکر آگئے اور چاولوں پر ٹوٹ پڑے۔ ’’امی کون لیکر آیا تھا‘‘؟فارحہ نے چاول کھانے کے بعد ماں سے پوچھا۔تمہاری خالہ لیکر آئی تھیں،کہیں لنگر تقسیم ہورہا تھا وہیں سے لے آئی تھیں ،نفیسہ نے بچے کچے چاول کھاتے ہوئے جواب دیا۔
’’دادو، دادو ! اچانک ایک خوبصورت پری اس کی گودمیں چڑھ گئی اور اس کو ماضی کے بھنور سے باہر نکال لائی وہ بیساختہ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گئی اور جلدی سے بیساختہ اْمڈ آنے والے آنسو پونچھے۔’’کیا ہوا میری پری کو‘‘؟ انہوں نے پری کے پھولے پھولے گالوں کا بوسہ لیتے ہوئے پوچھا ۔’’دادو وہ سدیم مجھے تنگ کررہا ہے ‘‘وہ منہ بسور کر بولی۔’’ نہیں دادو، یہ جھوٹ بول رہی ہے اس کی باتوں میں نہ آنا ‘‘، سدیم نے کمرے میں داخل کر کہا ،’’جھوٹ وہ بھی میں‘‘؟ پری گول گول آنکھیں نکال کر بولی۔’’دادو آپ کو تو پتہ ہے نا پری جھوٹ نہیں بولتی کیونکہ آپ کہتی ہیں جھوٹ گناہوں کی جڑ ہے ‘‘۔پری نے دادو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ مسکراہٹ دبائے دونوں کی نوک جھونک سن رہی تھی لیکن اس سے پہلے کہ سدیم کی طرف سے جوابی کاروائی ہوتی ان کے ابو کمرے میں داخل ہوئے ’’السلام علیکم امی ‘‘انہوںنے ماں کی جانب محبت دیکھتے ہوئے سلام کیا اور ان کے پاس آکر بیٹھ گئے ۔وعلیکم اسلام بیٹا، جیتے رہو، انہوں نے محبت پاش نظروں سے اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے کہا ۔اس بیٹے نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچادیاتھا ایک ٹوٹے پھوٹے کمرے سے ایک خوبصورت گھر تک۔
لیکن یہاں تک آنے کے لیے اس نے کتنے مشکلات جھیلیں، کیسے کیسے کٹھن راہوں سے ہوتا ہوا آیا تھا یہ صرف وہ جانتا تھا لیکن اس نے کبھی ہار نہیں مانی اور آج کامیابی اس کے پیر چوم رہی تھی اور کتنے ہی گھروں کے چولہے ان کی مدد سے جل رہے تھے۔ کتنے ہی غریب بچوں کے تعلیمی اخراجات اٹھا رکھے تھے وہ بھی بغیر کسی تشہیر کے یہی وجہ تھی کہ آج سب خوش تھے مسرور تھے اور زندگی بہت خوبصورت گزر رہی تھی۔