تنویر اللہ خان
ماضی عبرت اور سبق کے سوا کیا ہے! ماضی کی مرثیہ خوانی، بیتے ہوئے دنوں کے محض چسکے دار تذکرے، مہذب زبان میں سیمینار، مذاکرے اگر کچھ سیکھنے اور کرنے کا جذبہ نہیں دیتے تو یہ ذہنی عیاشی، وقت گزاری اور ضمیر کو تھپکی دے کر سُلانے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
دسمبر قدرتی طور پر اپنے اندر ایک اداسی، خاموشی، سناٹا سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ باہر کا یہ سناٹا اندر کی اداسی کو اور گہرا کردیتا ہے۔ اس مہینے کی سنہری دھوپ، سرد اور طویل راتیں درد کی شدت اور احساس کو مزید بڑھا دیتی ہیں۔
جب کہ دسمبر تو ہمارے لیے اور بھی خاص ہے۔
16 دسمبر 1971ء کو ہمارا ایک بازو مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا تھا جو آج بنگلہ دیش کے نام سے ایک الگ ملک ہے۔ وہ اقوام متحدہ کا ممبر ہے۔ اُس کی اپنی حکومت، اپنی فوج، اپنی عدلیہ اپنی انتظامیہ ہے۔ الگ ہونے والے اگر خوش اور خوش حال ہیں تو ہم بھی اُن کے ساتھ راضی ہیں۔ وہ بھی اسی طرح ہمارے بھائی اور دوست ہیں جیسے کسی اور اسلامی ملک کے عوام ہمارے دوست ہیں۔ ہم ان کے استحکام کی دعا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جن نعروں کو بنیاد بناکر وہ ہم سے علحیدہ ہوئے تھے یا علیحدہ کیے گئے تھے، وہ نعرے اور دعوے ہمارے بھائیوں کے لیے حقیقت کا روپ دھاریں۔
اپنے ایک بازو کی جدائی تو کسی طور ہم نے برداشت کرلی ہے، لیکن دسمبر کی سولہ تاریخ ہمارے اس غم کو مزید بڑھا دیتی ہے کہ 1971ء میں جو لوگ اپنے وطن کی محبت اور حفاظت میں مارے گئے وہ شہید کے بجائے غدار کیوں قرار پائے؟ اور جو زندہ ہیں اُنھیں کس قانون، کس اخلاقی ضابطے کی بنا پر سولیوں پر چڑھایا جارہا ہے؟ اور دُنیا اس ظلم پر خاموش کیوں ہے؟ جس طرح دُنیا بنگلہ دیشی حکومت کے ظالمانہ کاموں پر تماشائی ہے اُسے دیکھتے ہوئے حُب الوطنی اور غداری کے معنوں کو تبدیل کردینا چاہیے، اور خود پاکستان کا اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا سرد، لاتعلق، بے اعتناء اورمشکوک سلوک کیوں ہے؟
1971ء میں رہ جانے والے پاکستان کو جناب بھٹو نے ’’نیا پاکستان‘‘ قرار دیا تھا۔ اُس نئے پاکستان اور آج کے نئے پاکستان میں ملک کو متحد رکھنے کی کوشش کرنے والے اجنبی اور غیر وفادار کیوں قرار دئیے جارہے ہیں؟
سولہ دسمبر کی تاریخ دہرائے جانے کے ساتھ درستی کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ سولہ دسمبر کے حوالے سے اپنے محب وطن اور غداروں کی فہرست کی درستی، رہ جانے والے پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیے ضروری ہے۔ متحدہ پاکستان کے لیے جانیں دینے والوں کو بنگلہ دیش کا نہ سہی، پاکستان کا ہیرو تو ہونا چاہیے تھا۔ اگر یہ ضروری ہے کہ پاکستان کے دوٹکڑے ہونے کے اسباب بیان کیے جائیں، تو یہ اور بھی ضروری ہے کہ اس حوالے سے غداروں اور وفاداروں کی فہرست کو بھی ٹھیک کیا جائے۔
اگر پاکستان بننے کے مقاصد کا درست تعین کرلیا جائے تو اس کے غداروں اور وفاداروں کا تعین آسان ہوجائے گا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو لوگ پاکستان کی زمین، اس کے وسائل اور اس کی قسمت کے مالک و مختار ہیں اُنھوں نے پاکستان کے مقصد کو بھلا دیا ہے، یا اپنے مفادات کے لیے اسے بھلائے رکھنا چاہتے ہیں۔
قائداعظمؒ نے کہا تھا: ہندوستان کے مسلمانوں کا مذہب، تہذیب، ثقافت، زبان، رہن سہن، حلال حرام، کھانا پینا، لباس، تعمیرات ہندوئوں سے یکسر مختلف ہیں۔
اس الگ شناخت نے پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کی۔ متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلمانوں کو اپنے آپ سے مختلف جانتے ہوئے بھی ایک سیاسی اور معاشرتی شکنجے میں باندھے رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی اس کوشش کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی کم تعداد کو دبائے رکھنا چاہتے تھے، لیکن آج ہمارے حکمران یہ کہتے ہیں کہ واہگہ کی یہ سرحدی لکیر تو ایک بے حقیقت چیز ہے، ہمارا کھانا پینا، ہمارا رہن سہن ایک سا ہے، ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور آپ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں، لہٰذا ہم ایک ہیں۔
کوئی تاجر یہ بات کرے تو سمجھ میں آتی ہے کہ اُسے تجارت کرنی ہے، لہٰذا انڈیا کی بڑی مارکیٹ اُس کے کاروبار کو وسعت دے گی۔ لیکن اگر پاکستان کا وزیراعظم جو وزیراعظم اس لیے ہے کہ پاکستان ایک ملک ہے، وہ اگر پاکستان کی بنیادوں اور اس کی تقسیم کی وجوہات کو مسخ کردے تو اسے کیا کہا جائے!
لہٰذا ہمیں ہر ایسے موقع پر پاکستان کے مقصدِ وجود کو بھی تازہ کرتے رہنا چاہیے۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو ہندوستان میں مسلمانوں کا اپنے دین پر قائم رہنا ناممکن ہوتا۔ آج ہندوستان کے مسلمان اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود بے یقینی اور خوف کا شکار ہیں۔ مسلمان اور ہندو اپنے اپنے مذہب پر رہتے ہوئے ایک دوسرے سے شادیاں کررہے ہیں، ہندوستان کی فلمی زبان ضرور اردو ہے، لیکن ہندو جہاں ممکن ہوتا ہے اردو کو نکال باہر کرنے کا موقع ضائع نہیں کرتے۔ اُن کے گلوکار گاتے تو اردو میں ہیں لیکن جب بات کرتے ہیں تو ہندی میں کرتے ہیں۔ وہ عربی کے بجائے دیوناگری رسم الخط کو اپنا قرار دیتے ہیں۔
آج کے اتنے سارے تضادات کے بعد بھی ہندوستان اور پاکستان کو ایک ہی قرار دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
ہندوئوں سے الگ مذہب اور معاشرت کی وجہ سے پاکستان بنایا گیا، لہٰذا آپ سے آپ یہ طے ہے کہ یہ مسلمانوں کے لیے حاصل کیا گیا، اور کیوں کہ اکثریتی آبادی کا مذہب اسلام ہے لہٰذا یہ لازمی ہے کہ یہاں اسلام کو ہی سب سے مقدم ہونا چاہیے۔ امریکا جب برطانیہ سے آزاد ہوا تو وہاں ہسپانوی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی، انگریز، ولندیزی اور وہاں کے قدیم باشندے ریڈانڈین آباد تھے، اور ان میں سے اکثر اب بھی امریکا میں رہتے ہیں لیکن سب امریکن ہیں، جب کہ ان کا مذہب مشترک نہیں ہے۔ لہٰذا ہم پاکستانی جن کا مذہب بھی ایک ہے، صرف پاکستانی بن کر کیوں نہیں رہ سکتے! ہم آج زبان اور مسلک کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ جتنی گہری ہماری یہ تقسیم ہے، اس سے زیادہ گہری اور بھیانک بناکر اسلام مخالف پیش کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنی اپنی زبانوں اور مسلک پر رہتے ہوئے مسلمان اور پاکستانی بن کر رہنا ہوگا۔
اگر ہم اپنی بنیاد پر قائم نہ رہے تو پاکستان کی عمارت کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔