قاضی مظہرالدین طارق
واہ ! کیابات ہے خالہ مریخ کی !
یہ رشتہ میں نے نہیںبنایا ،زمین پر انسان کے مستقبل کے خوف نے بنایا،بالفرض اگر انسان کو کسی وجہ سے زمین سے بیدخل ہونا پڑا ، تو قریب ترین یہ مریخ(مارس) ہی ہے جس پر ہم بسیرا کر سکیں گے ،اس سفر میں ہم کو سات ماہ لگ سکتے ہیں ،یہ لمحہ انسان کے اپنے اعمال کی وجہ سے بھی آ سکتا ہے جیسے؛ آپس میں ایٹمی جنگ کا گرم ہونا ،یا قدرت کا حادثہ بھی ہو سکتا ہے جیسے؛ خشک زمین کا سمندر میں مکمل غرق ہوجانا،یاپھر زمین کا برف بن جانا۔تاریخ میں زمین کئی مرتبہ پانی میں مکمل غرق ہوچکی ہے، پھر یہ برف بن گئی،اِن اَدوَار کو’ آئیس ایجِز‘ کہتے ہیں،ایک مرتبہ تو معلوم تاریخ میں یہ واقعہ درج ہے، جو حضرت نوحؑ کے وقت کئی لاکھ کی آبادی میں سے صرف پچہتّر افراد بچے جو ایمان لا کر اُن کے ساتھ کشتی میں سوار ہو گئے تھے،زمین پر ہم پیدا ہوئے تو زمین ہماری ماںہے،اگر ہم یہاں سے نکلے اور مریخ نے ہم کو پناہ دی ، تو مریخ ہماری خالہ ہوئی ، ہے نا؟
انسان اب تک مریخ پر نہیں گیا،مگر اُس نے اپنے نائبین ضرور بھیجیںہیں ، یہ رُبوٹِک سیّارے (کمپیوٹرائیزڈ گاڑیاں) ہیں ۔
۲۰۲۰ ٗٗٗٗ ء میں ایک رُبوٹِک لَینڈر ،خالہ مریخ کی مٹّی اور پتھرکے نمونے ان شاء اللہ زمین پرلے کر آئے گا،زمین پر سائنسدان اِس کا تجزیہ کر کے اس میں کسی قسم کی حیات تلاش کریں گے۔ پھر۲۰۲۴ء میں انسان بذاتِ خود خالہ مریخ پرجا ئے گا اور وہاں اپنے قیام کے اِمکانات کا جائزہ لے گا۔
۲؍دسمبر۱۹۷۱ء میں سب سے پہلے مریخ پر’ سُوِیئٹ یونیئن‘ نے ایک جہاز اُتارہ تھا ، جس کا نام ’مارس ۳ ‘تھا،اگرچہ وہ صرف ساڑھے چودہ سکِنڈ زندہ رہا پھر نہ جانے کیوں، کس بیماری سے مر گیا۔مگر پھر بھی اِس کا یہ اعزاز اُس سے کوئی نہیں چھین سکا ، کہ وہ پہلا جہازتھا ، جوانسان کا بنایا ہوا تھا ، اور جس نے خالہ کا گھر دیکھا ۔
اس کی بھی معقول وجوہات موجود ہیں کہ انسان نے آخر مریخ ہی کو خالہ کیوں بنایا؟
پندرویں صدی عیسوی میں جب سب سے پہلے انسان نے مریخ کو دور بین سے دیکھا ، تو اُس نے اُس پر کچھ لکیریں نظر آئیں، اُس نے اُن کو پانی کی بہتی نہریں سمجھا،جدید دَور کے لوگوں نے اُن پرانے لوگوں کا بہت تمسخر اُڑایا ، لیکن آج کے ترقیافتہ دَور میں، چھے پیّوں پر مریخ کی سطح پر دَوڑنے والے رُبوٹِک گاڑیوں نے ہم کو بتایا کہ واقعی یہ نہریں نہیں تو دریا ضرور تھے،جن میں صدیوں پہلے کبھی پانی بہتا تھا۔
ان روبوٹس پر کیمرے اُس اُونچائی پر نسب تھے، جیسے ایک انسان کھڑا ہوکر زمین کی اُفق کو دیکھ رہا ہے،پھر یہ سادہ ’دو ڈائیمنشن‘ والی تصویریں نہیںبنا رہے تھے، بلکہ ایک ساتھ دو کیمرے چل رہے تھے، جو’ تھری ڈائیمِنشَنل موِیز‘ بنا رہے تھے ، تاکہ انسان اِس کا حقیقی’ تھری ڈی‘ منظر دیکھ سکے ، جیسے وہ خود مریخ کی سر زمین پر چل رہا ہے۔اسی وقت اسی لمحے ’جیو اِسٹیٹِک مدار‘سے ایک اور رُبوٹِک جہاز تصویریں بنا رہا تھا۔اِن سب سے زمین پر انسان مریخ کی سر زمین کا بہترین بصری(آپٹِیکل) تجزیہ کر نے کے قابل تھا۔
بیشتر جگہ وہ ایسے ہی نشانات دیکھ رہے تھے ،جو لمبے عرصے تک پانی کے بہنے سے ہم زمین پر بنے ہوئے دیکھتے ہیں، اِن جگہوں پر ریت ایسے جمی تھی؛ جیسے صدیوں تک یہاں پانی بہتا رہاہو، یا پانی کھڑا ہو ، جیسے جھیلوں میں کھڑا رہتا ہے۔
اِن نشانیوں سے یہ ثابت ہوا مریخ کی سر زمین پر کبھی پانی تھا اور یہاں زمین کی طرح زندگی تھی،مگر ابھی یہ ثبوت ملنا باقی ہے کہ وہ زندگی کیسی تھی،آیا صرف خردبینی جرثومے (مائیکروسکوپِک آرگینیزمز) تھے،یا کسی قسم کی ترقّی یافتہ مخلوق بھی پائی جاتی تھی،یہ بات بھی ظاہر ہے کہ اس وقت کوئی حیات مریخ پر موجود نہیں۔
ایک رُبوٹ گاڑی ’کیوریسیٹی ‘کو مریخ کے ایک مردہ آتش فشاں کے دہانے کے اَندَر اُتارہ گیا ، تاکہ دیکھا جائے وہاں کیا کیا ہے۔
یہ رُبوٹس، صرف بصری تجزیے نہیں کر رہے تھے، بلکہ اِس کی مٹّی ،پتھراور چٹانوں کے کیمیائی تجزیے کر کے اُن کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کر رہے تھے،انسان کو بتا رہے تھے کہ اِن میں کیا کیا عناصر(اَیلیمنٹس) اور سالمے(مالیکیولز) پائے جاتے ہیں۔
اِس کام کے لئے وہ لیزر شعائوں سے آگ لگا کر تجربے کر رہے تھے ،اورچٹانوں میں سوراخیں کر کے اس میں ’ریڈیو اَیکٹو‘ کیمیائی مرکّبات ڈال کر کیمیائی تعاملات(کِمیکل ری اَیکشنز) کر رہے تھے، اِن تعاملات کے نتیجے میںجو گیسیں بن کر نکل رہی تھیں،یہ اُن کا تجزیہ کر کے اُس کے نتائج زمین پر انسان کو بھیج رہے تھے۔
اِن کیمیائی تجزیوں کا حاصل یہ ہوا ، کہ مریخ کی کیمیائی ساخت بالکل زمین جیسی ہے،وہاں زندگی کے پنپنے کے وافر اور مثبت اِمکانات موجود ہیں۔
البتہ وہاں زندگی کو فطری طو رپر پنپنے کے لئے منفی اِمکانات بھی ہیں، خاص کر وہاں کی سردی زندگی کے لئے ناقابلِ برداشت ہے، اور فضاء میں آکسیجن کی کمی کا بھی سامناہے ، وہاںانسان کو سانس لینا بھی بہت دشوار ہو گا۔مگر انسان کے لئے اِس مشکل کا حل نکالنا ہرگز بھی ناممکن نہیںہے۔
رُبوٹس کا تجزیہ بتا رہا ہے کہ مریخ کی سطح کے نیچے پانی موجود ہے ، مگر پھر اس کی کمی بھی درپیش ہو سکتی ہے ، سائنسدانوں نے درجۂ حرارت ،آکسیجن اور پانی کی کمی کا حل دریافت کر لیا ہے اور مزید حل کی تلاش کا کام میں اِنہماک کے ساتھ غرق ہیں۔پانی کی کمی دور کرنے کے لئے قریب موجود سیاچوی پٹّی(اَیسٹرائیڈ بِلٹ) سے پانی سے لبریز سیّارچوں(ایسٹرائیڈز) کا رُخ موڑ کر، مریخ پر نچھاور کئے جائیں گے،زمین پر بھی پانی کا اضافہ خالقِ کائنات نے ایسے ہی کیا تھا،’مارس‘ کو گرم کر نے کے لئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اضافے کے ذریعے’ گرین ہائوس اَیفیکٹ‘ بڑھا کر سورج کی حدّت کو فضاء میں روکا جائے گا۔
لیکن اِس وقت جو جہاز، وہاں بھیجے جا رہے ہیں اُن کو کسی بھی قسم کی حیات سے پاک رکھنے کا ماقول اور مستند انتظام کیا جا رہا ہے، تاکہ جب تک وہاں کی زندگی کا تجزیہ مکمل نہ ہو زمین سے پہنچی ہوئی کوئی زندہ مخلوق کو ہم ، مریخ کی مخلوق نہ سمجھ بیٹھیں ، اِس لئے فی الوقت ہم یہاں تک احتیاط سے کام لے رہے ہیں کہ اِن جہازوں کو قرنطینہ میں رکھ کر بناتے ہیں ،اِس کو بنانے والے انجینئرز سے لے کر لیبرز تک کو سخت نگرانی سے گزارتے ہیں،اِن لوگوں کے پلاسٹک کی ڈانگریاں اور چہروں پر ماسک لگائے رکھتے ہیں۔
زمین پر بھی ایسی خرد بینی(مائیکرواِسکوپک) مخلوقات موجود ہیں ، جو کسی بھی ماحول میں جیسے؛خلاء میں،سخت سرد یا گرم درجۂ حرارت پر،آکسیجن اور پانی کے بغیر بھی زندہ رہ سکتی ہیں۔
مریخ کی ساخت اور بناوٹ کی تفہیم کا ایک اور مقصد یہ بھی ہے؛ کیوں کہ زمین کی طرح مریخ پر پلیٹوں کی ٹیٹونِک حرکت نہیں ہوئی،اس لئے اس کی پیدائش اور نشو نما پانے کی تاریخ زمین کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے،اس کا تجزیہ ہم کو کائنات کی تخلیق کے راز کو اور واضح کرے گا، اور اس پر حیات کی تحقیق،زمین پر حیات کی تخلیق اور اِرتقاء کی گتھیاں بھی سُلجھانے میںمدد دے گا۔
اِن خلائی گاڑیوں میں،پہلی گاڑی کے پانچ سال بعد ۱۹۷۶ء میں،’وائی کنگ اوّل‘ بھیجا گیا،پھر اُس کے اَگلے برس ۱۹۷۷ء میں’ وائی کنگ دُوّم‘ بھیجا گیا،پھر کئی دیگر رُبوٹک گاڑیاں بھیجنے کے بعد’کیوراسیٹی‘ کے نام سے ایک جہاز مریخ پر نظامِ شمسی کے سب سے بلندآتش فشاںکے دہانے کے اَندَر اُتارا گیا،جو اُس پر بیس کلو میٹر، پانچ سنٹی میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتا رہا،اور رُک کر تجربات بھی کر تا رہا،وہاں سے اُس نے سطح کے قریب ہی پانی اور نمک کے ثبوت فراہم کئے۔
صرف مریخ ہی نہیں اور بھی ایسے گھر تلاش کئے جا رے ہیں، جہاں ہمارے استقبال اور میزبانی کے ذرا بھی اِمکانات موجود ہو سکتے ہیں،ان میں سیّارہ زحل کا سب سے بڑا چاند ’ٹیٹان‘ قابلِ ذکر ہے۔
یہ تو آج کے انسان کا اپنا اندرونی خوف ، شائد انسان کو زمین چھوڑنے کی نوبت ہی نہ آئے،وہی ہوگا جو اللہ ربّ العٰلمین چاہے گا!!!