ام محمد سلمان
امی، امی، امی! جلدی بات سنیں،نعمان بھاگا ہوا باہر سے آیا۔ ’’کیا بات ہے بیٹے، ایسے کیوں اندھا دھند بھاگے چلے آرہے ہو‘‘؟ نعمان کی امی نے پیار سے پوچھا۔ ’’امی میرے سب دوست پرسوں نئے کپڑے پہنیں گے، عید میلاد النبی ہے ناں اس لیے۔ آپ میرے لیے بھی نیا جوڑا خرید کر لادیں اور آج ہم لائٹیں بھی لگائیں گے اس کے لیے بھی چندہ دے دیں مجھے، میرے سب دوست جمع کررہے ہیں‘‘، قریب بیٹھی دادی جان کی آنکھیں پھیل گئیں۔کیا کہا تم نے نعمان؟تم کل عید مناؤ گے؟ ارے کس بات کی عید؟یہ کون سی نئی عید ایجاد ہو گئی ہے؟
دادی ماں عید میلاد النبی کی بات کررہا ہوں میں، آپ کو نہیں پتا؟ بارہ ربیع الاول کو ہمارے پیارے نبیﷺ کا یومِ پیدائش ہے تو اس لیے ہم جشن منائیں گے اور جلوس میں بھی جائیں گے۔ یہ خوشی کا دن ہے ناں دادی ماں؟ نعمان نے تائیدی نظروں سے اپنی دادی ماں کی طرف دیکھا اور دادی ماں ایک دم جھنجھلا گئیں، یہ خوشی اور جشن کا دن کیسے بن گیا نعمان؟ یہ صرف نفس و شیطان کا دھوکہ ہے میرے بچے۔ آج خوشی اور جشن منانے کے نام پر کیا کیا نافرمانیاں کی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ کی۔ کبھی تم نے سوچا کیا یہ ہمارا دین ہے؟ بھنگڑے ڈالنا، میوزک چلانا، موسیقی کے ساتھ نعتیں پڑھنا، کھانے اور مٹھائیاں تقسیم کرنا، لائٹنگ کرنا، جھنڈے لگانا، جلسے جلوس نکالنا، میرے اللہ! یہ کیا خرافات ہونے لگی ہیںچاروں طرف۔ کوئی انھیں روکتا کیوں نہیں ہے؟ دادی ماں اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گئیں دل غم سے بوجھل ہوگیا۔ اللہ نے تو اپنے دین میں مسلمانوں کے لیے دو عیدیں رکھی تھیں، یہ تیسری عید کس نے ایجاد کر ڈالی؟
جو نہ منائے اسے محبت رسول ﷺسے خالی اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔ اس پر لعن طعن کرتے ہیں۔ دکانوں اور گھروں سے زبردستی چندے وصول کرتے ہیں۔ جشن منانے اور جلسے جلوسوں میں شرکت کے لیے فرض نمازیں بھی قضا کر دیتے ہیں۔ روضہ اقدس اور خانہ کعبہ کی شبیہ بناکر کھڑی کردیتے ہیں اور لوگ جاکر انھیں تبرکاً چومتے ہیں، دعائیں مانگتے ہیں۔ وہاں میلہ لگتا ہے اور محرم نامحرم مرد عورتیں سب خلط ملط ہوجاتے ہیں۔ ’’دین سے کورا شخص سال میں ایک مرتبہ جلوس میں شرکت کر کے عاشق رسول ﷺ بن جاتا ہے جبکہ سنت و شریعت کا پابند ایسے غیر شرعی امور سے دور رہ کر گستاخ رسول ﷺبن جاتا ہے‘‘۔
میرے خدا ! یہ کیسا اندھیر ہے؟ کہاں چلی گئی ہیں لوگوں کی عقلیں؟ اب تو سکول کی کتابوں میں بھی مسلمانوں کی تین عیدیں لکھ دی گئی ہیں چھٹیوں کے فارم پر بھی تین عیدوں کی چھٹی۔میرے خدا یہ سب کیا ہورہا ہے؟یہ ہم کس گمراہی کے گڑھے میں گرتے جارہے ہیں؟ دادی ماں ازحد پریشانی کے عالم میں تھیں۔ جب سے ربیع الاول کا چاند نظر آیا تھا تب سے ہی پڑوسی لاؤڈ اسپیکر پر میوزک والے گانوں کے طرز پر بنی نعتیں چلا کر دین کے تقدس کو پامال کر رہے ہیں۔یا اللہ یہ کیسی آزمائش ہے؟اللہ کی ناراضی، اللہ کے رسول ﷺکی سنتوں سے انحراف، ان کے احکامات کی پامالی اور یہ سب کچھ دین کے نام پر؟ سچ کہا میرے رب نے قرآن میں ،’’اور شیطان نے ان کے اعمال کو مذین کر کے دکھا دیا‘‘۔
’’جی اماں جان! ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ اور اگر حکومت کی سرپرستی نہ ہو تو یہ سلسلہ روزبروز یوں بڑھتا ہی نہ جاتا، اب توسنا ہے کہ حکومت نے پورا مہینہ اسکولوں اور کالجوں میں میلاد منانے کے آرڈر دیے ہیں‘‘، نعمان کی والدہ بھی گفتگو میں شریک ہوئیں۔ یہ سب دین سے دوری اور قرآن سے ناواقفیت ہی کا نتیجہ ہے۔ اللہ نے تو اپنی کتاب ہدایت میں فرمایا ہے ،’’اور ایسے لوگوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کر لو جنھوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے اور دنیاوی زندگی نے انھیں دھوکہ میں ڈال رکھا ہے اور اس قرآن کے ذریعے انھیں نصیحت کرو، تاکہ کوئی شخص اپنے کیے میں اس طرح گرفتار نہ ہوجائے کہ اللہ کے سوا اس کا کوئی حمایتی اور سفارش کرنے والا نہ ہو اور وہ دنیا بھر کا معاوضہ دے ڈالے تب بھی نہ لیا جائے گا‘‘،نعمان کی والدہ آیت کا ترجمہ دہرانے لگیں اور اللہ کے عذاب سے پناہ مانگنے لگیں۔
دادی ماں رونے لگیں اور رونے کا مقام ہی تو ہے کہ آج جو کچھ عید میلاد النبیﷺکے نام پر ہمارے گلی کوچوں میں ہورہا ہے کیا یہ ہمارے نبیﷺکا دین ہے؟ یوں لگتا ہے محمد عربیﷺکا لایا ہوا دین پکار پکار کر یہ فریاد کررہا ہے کہ اے امت محمدیہ کے نام لیواؤ ! تم ذلت و گمراہی کے کس اندھے کنوئیں میں جا گرے ہو؟ کیا اس عظیم ہستی کے احسانات کا بدلہ یہی ہے کہ انہی کی محبت و عظمت کے نام پر ان کی تعلیمات کو جھٹلاؤ ؟ ان کی نافرمانیاں کرو؟ اور ان کی یاد منانے کے بہانے جاہلیت کی ان تمام رسموں کو زندہ کرو، جنہیں وہ مٹانے کے لیے تشریف لائے تھے؟
اے امت محمد کے بیٹو اور بیٹیو! تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم کس غضب الٰہی کو دعوت دے رہے ہو؟ گھروں، گلیوں، ہوٹلوں، دفتروں، شاہراہوں، بازاروں، کاروباروں، تعلیمی اداروں میں دین مٹ رہا ہے اور تم خوشیاں مناتے ہو؟ دادی ماں نعمان کو اپنے قریب بلا کے بڑے پیار سے سمجھانے لگیں ،’’میرے بچے، میرے چاند! مولانا تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں ،’’جب کسی مذہب کو ماننے والے محض ظاہری رسموں اور نمائشوں میں الجھ جاتے ہیں تو رفتہ رفتہ اس مذہب کی اصل روح اور اصل تعلیمات مٹتی چلی جاتی ہیں اور بالآخر بے جان رسموں کا ایک ملغوبہ باقی رہ جاتا ہے، جس کا مقصد انسانی نفسانی خواہشات کی حکمرانی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ صحابہ کرام اور تابعین کے مبارک دور میں ہمیں کہیں نظر نہیں آتا کہ انہوں نے آپ ﷺ کی ولادت باسعادت جیسے عظیم الشان واقعہ کا کوئی دن منایا ہو بلکہ ان کی تمام تر توجہ پیارے نبیﷺکی تعلیمات کو اپنانے اور اسلام کو پھیلانے میں صرف ہوئیں‘‘۔
یہ انہی کی محنتیں تھیں جو آج ہم مسلمان ہیں۔ ان کی کاوشوں سے یہ دین آج تک سلامت ہے اگر ہم اس پر جوں کا توں عمل کرنا چاہیں تو؟ تم سمجھ رہے ہو ناں میری بات؟ دادی ماں نے بڑی امید بھری نظروں سے نعمان کو دیکھا۔ جی دادی ماں! میں سمجھ گیا ہوں آپ کی بات۔ میں اب کبھی ایسی ضد نہیں کروں گا۔ میں اپنے نبی اکرم ﷺ کی سچی اطاعت کروں گا۔ میں بھی دین کا سپاہی بنوں گا پیارے صحابہ کی طرح۔ میں کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گا اور کبھی اپنے پیارے نبی ﷺ کی سنت کو نہیں چھوڑوں گا یہ میرا آپ سے وعدہ ہے دادی ماں ان شاء اللہ۔ نعمان نے بڑی محبت اور عقیدت سے دادی ماں کے ہاتھوں کو چوم لیا۔ دادی ماں برستی آنکھوں سے ماضی کے دریچوں میں کھو گئیں جہاں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام سے فرما رہے تھے’’ تم میں سے کوئی اس وقت تک صاحبِ ایمان نہ ہوگا جب تک اس کی خواہش اور رجحان اس تعلیم و ہدایت کے تابع نہ ہوجائے جس کو میں لایا ہوں‘‘۔