ختم نبوت کے علمی تحفظ کے لیے جامعہ کا قیام

1202

جامعہ ختم نبوت اٹک کے موسس اور رئیس مفتی محمد امتیازمروت گزشتہ ۱۲سال سے تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کررہے ہیں ۔ وہ عالم اسلام میں تحفظ ختم نبوت کے مستند عالم مولانامنظور احمد چنیوٹی کے شاگرد رشید ہیں۔ تین سال قبل امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے جماعت میں مرکزی مجلس تحفظ ختم نبوت کا شعبہ قائم کیا اور مفتی امتیاز مروت کو اس کامرکزی صدر مقرر کیا،مجلس کا مرکزی دفتر مرکز اسلامی پشاور میں قائم ہے۔حال ہی میںامیر جماعت کے ہاتھوں اس شعبہ کے تحت جامعہ ختم نبوت اٹک کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔مفتی صاحب کراچی آئے توسنڈے میگزین نے اس حوالے سے ان کاانٹرویو لیا جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔

سنڈے میگزین :جامعہ ختم نبوت اٹک کا قیام کب اور کیسے عمل میں آیا؟
مفتی محمد امتیازمرو ت : جامعہ ختم نبوت اٹک کا افتتاح 18 اکتوبر 2018ء کو امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کیا۔ یہ مدینہ سٹی مین جی ٹی روڈ پر کامرہ ضلع اٹک میں واقع ہے۔ یہ ڈھائی کنال سے زائد رقبہ پر مشتمل ہے ۔ اسی بستی میں ایک اور ۷کنال کا پلاٹ بھی اسی ادارے کے لئے وقف ہے، امیر جماعت نے اس شعبہ میں کام کرنے کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھتے ہوئے باقاعدہ جماعت اسلامی کا شعبہ ختم نبوت قائم کیا جس کا دفتر مرکز اسلامی پشاور میں ہے۔ جامعہ ختم نبوت اسی شعبہ کے تحت قائم کی گئی ہے اور اس جامعہ کی تمام املاک و اراضی اسی شعبہ کے ماتحت ہوں گی۔ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوں گی۔حافظ اکرام اللہ اس کے ناظم اعلٰی مقرر کیے گئے ہیں۔
سنڈے میگزین :جامعہ ختم نبوت کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس طرح کے اور کتنے ادارے دنیا میں موجود ہیں؟
مفتی محمد امتیازمرو ت : الحمدللہ ہم مسلمان ہیں، ختم نبوت پر ہمارا کامل ایمان ہے، عقیدہ ختم نبوت ہر مسلمان کی پہچان ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی کو نبی نہیں بنایا جائے گا یہ عقیدہ ’’عقیدئہ ختم نبوت‘‘ کہلاتا ہے۔ اس عقیدے پر امت مسلمہ کا ہمیشہ اتفاق رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ کذّاب، دجال اور مفتری ہے اس عقیدے پر ایک سو آیات اور دو سو سے زائد احادیث مبارکہ دلالت کرتی ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب قرآن پاک خاتم الکتب، حضور اکرمﷺ کا دین خاتم الادیان، حضور اکرمﷺ کی شریعت خاتم الشرائع، حضور اکرمﷺ کی امت خاتم الامم اور حضور اکرمﷺ خاتم الانبیاء اور آپ کی نبوت آخری نبوت ہے۔ جناب خاتم النبیینﷺ کی آمد مبارک کے بعد نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔
امام الانبیاﷺ نے فرمایا!
’’عنقریب میری اُمت میں تیس کذاب ہوں گے جن میں سے ہرایک نبوت کا دعویٰ کرے گا حالانکہ میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘
اس ادارے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ دنیا بھر میں اس وقت قادیانیوں کی متعدد تنظیمیں قادیانیت کی تبلیغ کررہی ہیں۔ تنظیموں کے علاوہ قادیانیت کی تربیت دینے کے 5 بڑے تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں۔ جس میں سے ایک ربوہ پاکستان میں ہے باقی چار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہیں۔ جس میں برطانیہ، جرمنی ،سنگاپور اور کینیڈا شامل ہیں۔ یہ ادارے سالانہ کی بنیاد پر قادیانیت کی تبلیغ کی جدیدذرائع سے تعلیم و تربیت فراہم کرتے ہیں۔ان طلبہ کو مختلف ممالک کی لینگویج سکھائی جاتی ہے اورہر سال سینکڑوں قادیانی مبلغ یہاں سے فارغ التحصیل ہو کر دنیا بھر میں قادیانیت پرچار کرنے کے لیے نکلتے ہیں۔
ویسے تو الحمدللہ امت مسلمہ کے پاس ہزاروں دینی مدارس ہیں جو بہت ہی بہتر طریقے سے دین اسلام اور علوم نبویہ کی تریج و اشاعت میں سرگرم عمل ہیں لاکھوں حفاظ و قراء، ہزاروں علماء کرام و مفتیان عظام انہی مدارس دینیہ کا فیضان ہے۔ہمارے دینی تعلیمی ادارے قرآن، حدیث، فقہ، بینکنگ، معاشیات، قانون سازی وغیرہ میں تو تخصص یا اسپیشلائزیشن کروارہے ہیں لیکن تحفظ ختم نبوت کے لئے علمی میدان خالی ہے۔
مسلمانوں کے پاس ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے جہاں صرف تحفظ ختم نبوت، تحفظ سنت، ردّقادیانیت اور ردّ انکارِ حدیث پر باقاعدہ تخصص کا اہتمام ہو۔یا جو رد قادیانیت یا تحفظ ختم نبوت کے لیے علمی سطح پر مبلغین تیار کررہا ہو۔
سنڈے میگزین :پاکستان میں تحفظ ختم نبوت کے مختلف کورسز کی بازگشت تو سنائی دیتی ہے۔ اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
مفتی محمد امتیازمرو ت : جی ہاں بعض تنظیمیں ’’ختم نبوت‘‘ کے نام پر کورسز تو کرواتی ہیں لیکن عملاً وہ کورسز ختم نبوت پر تعلیم دینے کے بجائے مسلکی اختلافات کو بیان کرنے تک ہی رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طالبعلم ختم نبوت کی اصل حقیقت سے لاعلم اور دلائل سے نابلد رہتے ہیں۔ جبکہ ختم نبوت کی تعلیم ہی دراصل مسلکی اختلافات کو ختم کرکے اتحاد امت کا سبب بنتی ہے۔
انتہائی ادب کے ساتھ عرض ہے کہ آج تحفظ ختم نبوت کے اسٹیج پر ختم نبوت کی فریضہ سے زیادہ مسلکی اختلافات پر کلیجے ٹھنڈے کئے جاتے ہیں۔
تحفظ ختم نبوت کے مقدس عنوان کی آڑ میں ردّ قادیانیت کے ساتھ ساتھ ردّ بریلویت، ردّ دیوبندیت، ردّ مودودیت، ردّ مماتیت، ردّ حیاتیت اور ردّ غیر مقلدیت کر کے اُمت مسلمہ میں انتشار در انتشار کے ذریعے اسلام دشمن قوتوں کے لئے مزید راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔
سنڈے میگزین :جامعہ ختم نبوت کس طرح کے مبلغ تیار کرے گی
مفتی محمد امتیازمرو ت : جامعہ ختم نبوت اٹک عقیدئہ ختم نبوت کو امت مسلمہ کے باہمی اتحاد و اتفاق کا اہم ذریعہ سمجھتا ہے اس لئے جامعہ ختم نبوت تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کو اخوت و عقیدت کا مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ اور اُمت مسلمہ میں مسلکی اختلافات اور فرقہ واریت کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جامعہ ختم نبوت اٹک میں بغیر قید مسلک تمام مکاتب فکر کے مدارس کے فارغ التحصیل علماء کرام اور کالجز و یونیورسٹیز کے فضلاء کرام کو ایک سالہ تخصص فی ردّ القادیانیہ کا اہتمام کرکے تحفظ ختم نبوت اور تحفظ سنت کے ساتھ ساتھ امت کو مسلکی تعصبات سے قطع نظر ایسے مبلغین فراہم کرے گا جو
اُدْعُ اِلٰی سَبِیِْل رَبّکَ بِالِْحکْمَتہِ وَالْمَوْعِظَتہِ الْحَسَنَتہِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنَکا عملی نمونہ ہوں گے۔
سنڈے میگزین :مرکزی مجلس تحفظ ختم نبوت کی کیا سرگرمیاں ہیں؟
ہم مختلف تعلیمی اداروں میں جاتے ہیں اور وہاں طلبہ کو اور اساتذہ کو مولانا مودودی کا تحریر کردہ کتابچہ قادیانی مسئلہ پڑھاتے ہیں اور پھر اس کا امتحان لیتے ہیں۔یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس حوالے سے ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ ہم ضلع ٹانک کے ایک اسکول میں گئے اور یہ کتابچہ پڑھنے کو دیا توبعد میں صدر مدرسہ نے ہمیں بتایا کہ آپ کے اس کتابچہ کو پڑھنے سے مجھے دو فائدے ہوئے ایک تو یہ کہ ختم نبوت ہے کیا، اس کے بارے میں صحیح آگہی حاصل ہوئی۔ دوسرے یہ کہ مجھے معلوم ہوا کہ مولانا مودودیؒ مسلمان تھے۔ یعنی یہ ہمارے دینی مدارس کاالمیہ ہے کہ وہاں سارا سال مولانا مودودی کی ’’کافریت‘‘ پر تقریریں کی اور کروائی جاتی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ لوگ مولانا مودودی کے لٹریچر کے قریب آنے کا بھی تصور نہیں کرسکتے کجا یہ کہ مطالعہ کریں۔خود میر ا بھی یہی حال تھا کہ ساری زندگی مولانا کے لٹریچر کے قریب نہیں آیا،اور جب یہ لٹریچر پڑھاتو جماعت اسلامی میں شامل ہو ئے بغیر نہ رہ سکا۔
سنڈے میگزین :جامعہ ختم نبوت کے اہداف کیا ہوں گے
مفتی محمد امتیازمرو ت :جامعہ ختم نبوت کے دو انتہائی اہم اور واضح اہداف ہیں
(1) صرف تحفظ ختم نبوت اور تحفظ سنت پر اسٹوڈنٹس کو باقاعدہ ایک سالہ تخصص کروایا جائے گا اور تخصص کے بعد ملک و بیرون ممالک تبلیغ کے لئے ان کی تشکیل کا اہتمام کیا جائے گا۔
(2) فرقہ وارانہ اور مسلکی تعصبات سے بالاتر اتحاد و اتفاق کے ماحول میں ہر مکتب فکر کے طلباء کی تربیت کا اہتمام کیا جائے گا۔
سنڈے میگزین : ختم نبوت کے لٹریچر کی فراہمی کے لیے کیا ہدف ہے؟
مفتی محمد امتیازمرو ت :جی یہ بہت اہم شعبہ کے بارے میں آپ نے نشان دہی کی ہے۔ ہم جامعہ میں تحفظ ختم نبوت، تحفظ سنت، ردّقادیانیت اور ردّ انکارِ حدیث کے موضوعات پر علمی مواد کی فراہمی کے لئے ایک موثر لائبریری کا قیام عمل میں لارہے ہیں ۔ جس میں ہمارا ہدف یہ ہے کہ دنیا بھر میں ان علوم پر کوئی کتاب ہو تو وہ ہماری لائبریری میں موجود ہو، تاکہ پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ اور محققین کے لئے آسانی ہو۔
اس کے علاوہ ایک ڈیجیٹل لائبریری کا قیام بھی ہمارا ہدف ہے ، کیونکہ آج کی دنیا میں انٹرنیٹ پر سرچ انجن کے ذریعے معلومات کا حصول زیادہ آسان ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قادیانیت کی تبلیغ کے لئے انٹرنیٹ پر بہت منظم کام ہورہا ہے ، اسلام کے نام پر بہت سی ویب سائٹس دراصل قادیانیت کو پھیلا رہی ہیں۔
سنڈے میگزین :جامعہ ختم نبوت کی تعمیر اور مصارف کو کس طرح پورا کریں گے
مفتی محمد امتیازمرو ت : جامعہ کی تعمیرکا تخمینہ تقریبا ڈھائی کڑوڑ روپے ہے جبکہ سالانہ مصارف کے لئے پچاس لاکھ درکار ہوںگے ۔ہم ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ایک سو ایسے افراد کو اپنے ساتھ شامل کریں گے جو سالانہ پچاس ہزار جامعہ کو فراہم کریں ۔ اس کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے ماہرین نے بھی اپنی خدمات بلامعاوضہ پیش کی ہیں ۔ میرے ساتھ میرے بہت سے شاگرد بھی اس مشن میں میرے ساتھ شامل ہیں ۔
سنڈے میگزین :جامعہ میں داخلے اور دیگر معلومات کے لئے رابطہ کا کیا ذریعہ ہوگا۔
مفتی محمد امتیازمرو ت : ان مقاصدکی تکمیل کے لئے کسی بھی مکتبہ فکر کا طالبعلم جامعہ میںداخلہ کا اہل ہوگا۔رابطہ کے لئے ہم اپنی ویب سائٹ بھی بنارہے ہیں۔جب کہ ادارہ کے ناظم اعلٰی حافظ اکرام اللہ سے 03026399955پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

حصہ