برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

585

قسط نمبر163
اکیسواں حصہ
صدر جنرل یحییٰ خان نے اس فوجی آپریشن کے شروع ہوتے ہی تمام غیر ملکی صحافیوں کو مشرقی پاکستان چھوڑنے کا حکم دے کر غیر دانش مندانہ فیصلہ کیا، جس کی وجہ سے عالمی طور پر ہمارا امیج انتہائی خراب ہوا۔ غیر ملکی صحافیوں کے انخلاء سے پہلے مشرقی پاکستان میں غیر بنگالیوں اور محب وطن پاکستانیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی خبریں کسی نہ کسی طور پر باہر کی دنیا تک پہنچ رہی تھیں، مگر اس کے بعد غیر مکی میڈیا نے اپنے اپنے طور پر جو منظر کشی کی، اس سے ایسا لگتا تھا کہ مشرقی پاکستان مکمل طور پر باغیوں کے زیراثر آچکا ہے۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کا انحصار زیادہ تر ہندوستان کی خبر رساں ایجنسیوں پر تھا، چنانچہ وہ انہی کی زبان بول رہے تھے۔
فوجی قیادت جو مغربی پاکستان میں بیٹھی آپریشن کو کنٹرول کررہی تھی، اُس کے خیال میں فوج میں بنگالی فوجیوں کی بغاوت کی خبریں ملک کے دیگر حصوں میں پھیلنے سے پاک فوج کا ڈسپلن خراب ہونے کا تاثر بنے گا۔ ان کے خیال میں صرف کنٹرولڈ خبریں ہی نشر ہونی چاہئیں اور ’’سب ٹھیک ہے، ہم مسلسل کامیابی حاصل کررہے ہیں‘‘ کی سرخیاں ہی قوم کی ضرورت ہیں۔
3 مارچ سے 26 مارچ 1971ء تک چٹاگانگ اور اس کے اطراف میں قیامت کا منظر رہا۔ غیر بنگالی آبادیوں میں بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہوا۔ چٹاگانگ محب وطن پاکستانیوں کی لاشوں سے پٹ چکا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اصفہانی جوٹ ملز کی رہائشی کالونی جس میں غیر بنگالی متاثرین کی بڑی تعداد پناہ لیے ہوئے تھی، اس میں انتہائی ظالمانہ اور دلخراش کارروائی ہوئی۔
جوٹ ملز کی کالونی میں باغیوں نے بے یارو مددگار غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کو سب سے پہلے فیکٹری میں موجود کلب کی عمارت میں جمع کیا اور پھر سب کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے۔ بلڈنگ کے فرش اور دیواروں کے نچلے حصے پر خون کی پپڑیاں کئی دنوں تک دیکھی جاتی رہیں۔ خواتین کے لباس اور بچوں کے کھلونے خون سے تر تھے، ساتھ والی رہائشی عمارت میں بستر کی چادریں اور گدے خشک ہوجانے کی وجہ سے اکڑ چکے تھے۔
ان واقعات کے ایک عینی شاہد اور چٹاگانگ کے رہائشی جناب قیصر جمیل ایڈووکیٹ نے مجھے بتایا کہ ان کی عمر اُس وقت اکیس بائیس سال کی تھی اور وہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرتے تھے۔ ان کی رہائش سردار بہادر نگر (چٹاگانگ) میں تھی، یہ بستی اردو بولنے والے خاندانوں پر مشتمل تھی۔ ان خاندانوں نے پہلی ہجرت ہندوستان (بہار) سے کی تھی۔ ان کے مطابق ’’3 مارچ سے لے کر 31 مارچ تک پورا چٹاگانگ بلوائیوں کے رحم و کرم پر تھا۔ چٹاگانگ آنے جانے کا واحد راستہ (مرکزی سڑک) اس قدر دشوار ہوچکا تھا کہ 25 مارچ کو پاکستانی فوجی ٹروپس کومیلا سے چٹاگانگ کے لیے روانہ ہوئے، راستے کی کُل طوالت 80 میل سے زیادہ نہیں تھی، اس کے باو جود جگہ جگہ عوامی لیگی بلوائیوں اور مسلح باغیوں سے جھڑپوں کے نتیجے میں ہماری آرمی بمشکل چھ دن کے بعد 31 مارچ کو چٹاگانگ پہنچ سکی۔ اور سب سے پہلے علاقے کو کنٹرول کرنے کے بعد ’’لال دیگی میدان‘‘ میں پاکستان کا پرچم لہرا کر محب وطن عوام کا اعتماد بحال کیا۔
ایک موقع ایسا بھی آیا جب بلوائیوں نے ان کی بستی کا بھی گھیراؤ کرنے کی کوشش کی۔ سردار بہادر نگر سے ایک راستہ چھاؤنی کی جانب جاتا تھا، باغیوں کی کوشش تھی کہ وہ اس راستے سے چھاؤنی کا گھیراؤ کریں۔ باغیوں نے اس کے لیے بہادرنگر سے ہوکر گزرنے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی مسلح باغی اور بلوائی سردار بہادر نگر پہنچے، مقامی آبادی بھی سڑک پر نکل آئی اور لاٹھی، خنجر اور دیسی ساختہ اسلحہ (جو چند ایک لوگوں کے پاس تھا) کی مدد سے باغیوں کو چھاؤنی جانے سے روکنے کی کوشش کی۔ مسلح باغی آبادی کی جانب بڑھے اور جلاؤ گھیراؤ شروع ہوگیا۔ اسی اثناء میں سردار بہادر نگر سے کسی نے رائفل کا فائر کھول دیا جس سے ایک باغی موقع پر ہی ہلاک ہوگیا ۔ باغی اس جوابی وار کے لیے تیار نہیں تھے، کچھ مزاحمت کے بعد وہ بھاگ نکلے، جس کی وجہ سے سردار بہادر نگر بڑی تباہی سے محفوظ رہا اور پاک فوج کی آمد تک اس آبادی میں کوئی تخریبی کارروائی نہیں ہوئی۔‘‘
قیصر جمیل ایڈووکیٹ اپنے خاندان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح ہجرت کرکے رنگون کے راستے سے پاکستان (کراچی) پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
انہوں نے پاک فوج کی کارروائی کے حوالے سے مزید بتایا کہ ’’ہماری بحریہ کے پاس ایک جہاز ’’بابر‘‘ چٹاگا نگ پورٹ پر موجود تھا جو مغربی پاکستان سے دفاعی سامان اور ہتھیار لے کر پہنچا تھا۔ فوج کے پاس اپنے بچاؤ کی واحد صورت یہی تھی کہ ’’بابر‘‘ کے ذریعے گولہ باری کی جائے۔ چنانچہ پاک فوج نے چٹاگانگ میں باغیوں پر دھاک بٹھانے کی غرض سے سمندر میں مسلسل گولہ باری جاری رکھی۔ دھماکوں کی آواز پورے چٹاگانگ میں سنائی دیتی اور گولے سمندر میں گرتے تھے۔ اس گولہ باری سے ایسا لگتا تھاکہ پورا چٹاگانگ تہس نہس ہوجائے گا اور کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ اس خوفزدہ کردینے والی بمبارمنٹ سے حالی نگر اور سٹیلائٹ ٹاؤن کا علاقہ کسی حد تک ضرور متاثر ہوا، اور بموں کے خالی شیل اور حصے گرنے سے کچھ لوگ زخمی اور کچھ ہلاک ہونے کی خبریں بھی ملیں۔‘‘
فوج کے پہنچ جانے سے چٹاگانگ میں موجود محصور فوج اور وہاں پھنسے ہوئے محب وطن پاکستانیوں کے حوصلے بلند ہوئے، اور فوج کے وسائل میں کچھ بہتری آئی۔ چٹاگانگ میں آگ اور خون کا کھیل جاری تھا، مکتی باہنی اور باغی بہت بڑی تعداد میں ایسٹ پاکستان رائفلز کے ہیڈ کوارٹر میں موجود تھے، جن کو قابو کرنے کے لیے ایس ایس جی دستے کو کارروائی کا حکم دیا گیا۔
کمانڈو دستے نے باغیوں تک پہنچنے کے لیے دریائی راستے کا انتخاب کیا۔ جیسے ہی ہمارے کمانڈوز وہا ں جانے کے لیے کشتیوں میں بیٹھے، ان پر فائر کھل گیا۔ ہمارے 16 کمانڈوز اس حملے میں شہید ہوئے اور دوسرے حملے میں بھی ہمیں ناکامی ہوئی۔ بالآخر دو سیبر طیاروں (F-86) نے بمباری کرکے باغیوں کو منتشر کیا۔
ایک اور اہم ٹارگٹ ایسٹ رائفلز کا سیکٹر ہیڈ کوارٹر تھا جہاں ایک ہزار سے زیادہ مسلح باغی موجود تھے۔ ان کے مورچے خاصی بلندی پر تھے، جہاں جانا بہت دشوار تھا۔31 مارچ کو پاک فوج نے چھ سو سپاہیوں کے ساتھ ایک توپ اور دو ٹینکوں کی مدد سے حملہ کیا۔ تین گھنٹے جاری رہنے والے اس معرکے میں اچھی منصوبہ بندی کی بدولت ہمیں کامیابی حاصل ہوئی۔
ریزرو پولیس لائن میں سابق فوجی، پولیس، عوامی لیگی رضاکار اور مسلح باغی پناہ لیے ہوئے تھے، جن کے پاس بیس ہزار رائفلز کی موجودگی کی اطلاعات تھیں۔ یہ باغی جنگ کے لیے پوری طرح سے تیار تھے۔ پاک فوج نے تیز رفتار کارروائی دکھائی اور گھمسان کا رن پڑا، جس سے باغی بھاگنے پر مجبور ہوئے۔
مارچ کے آخر اور 6 اپریل تک چٹاگانگ مکمل طور پر پاک فوج کے کنٹرول میں آچکا تھا۔ اب پاک فوج نے آگے علاقوں میں کنٹرول حاصل کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کی۔
چٹاگانگ شہر کے علاوہ دو علاقے کشتیا اور پنبہ تھے۔ جیسور سے شمال مغرب کی جانب 90 کلومیٹر کی دوری پر ’’کشتیا‘‘ نامی علاقہ تھا۔ یہ علاقہ کئی سڑکوں کا سنگم اور کئی ریلوے لائنوں کا جنکشن تھا۔ اس جگہ فوج کی باقاعدہ تقرری نہیں تھی۔ اتنے اہم علاقے میں فوجی کارروائی ضروری تھی۔ جیسور سے میجر شعیب کی سربراہی میں ڈیڑھ سو سپاہیوں پر مشتمل پلاٹون روانہ کی گئی۔ ان کے پاس محدود اسلحہ تھا اور ان کا خیال تھا کہ اندرونی امن و امان بحال کرنے کے لیے بڑے ایمونیشن یا توپ خانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس طرح جلد بازی میں مکمل معلومات فراہم کیے بغیر فوج کو روانہ کردیا گیا۔
فوج نے اپنے آپ کو پندرہ پندرہ کی مختلف ٹولیوں میں تقسیم کیا۔ ان میں کچھ کی ڈیوٹی عوامی لیگی رہنمائوں کو گرفتار کرنے کی تھی۔ لیکن یہ رہنما فرار ہوچکے تھے اور فوج کے ہاتھ نہ لگ سکے، البتہ پانچ باغیوں کو مارنے کے بعد فوج نے اپنا رعب داب بٹھانے کی کوشش کی۔ اسی دوران ایک رات فوج کو کسی نے یہ خبر دی کہ فلاں جگہ بہت سے باغی موجود ہیں اور وہ فوج کے خلاف بڑی کارروائی کے موڈ میں ہیں، وہ پاک فوج سے تعاون کرنے والے افراد کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ اس خبر کے باوجود ہماری فوج نے سنجیدگی کے ساتھ کوئی ایکشن لینے کے بجائے صرف چوکنا رہنے کا حکم دیا۔ اسی رات باغی ایسٹ پاکستان رائفلز نے گولہ باری شروع کردی۔ ان کے ساتھ ہندوستانی سیکورٹی فورس (بی ایس ایف) بھی شامل ہوگئی۔ حملے کا مقصد اسلحہ خانے پر کنٹرول حاصل کرنا تھا جس پر پاکستانی فوج نے دو دن پہلے قبضہ واپس لیا تھا۔
اس حملے میں پاک فوج کے پانچ جوان شہید ہوئے۔ اس چوکی سے قریب ہی پاک فوج کی دوسری چوکی بھی تھی، جو ابھی قائم ہوئی تھی۔ اس پر بھی شدید حملہ ہوا اور ہماری پہلی کمپنی ان کی مدد کو نہیں پہنچ سکی۔ اس طرح 60 میں سے 25 جوان اس حملے میں شہید ہوئے۔ اس تباہی سے پیشتر جیسور ہیڈکوارٹر میں ’’فوری مدد‘‘ کا پیغام بھیجا گیا، مگر بار بار پیغا م بھیجے جانے کے باوجود مایوس کن جواب ملا کہ ’’فوجی کمک خارج از امکان ہے… اور فضائی مدد خراب موسم کے باعث ممکن نہیں۔‘‘
میجر شعیب نے جب اپنی پلاٹون کی گنتی کی تو معلوم ہوا کہ 150 میں سے صرف 65 زندہ ہیں۔ ابھی میجر شعیب اپنی باقی ماندہ پلٹن کے ساتھ ’’کشتیا‘‘ سے نکلے ہی تھے کہ ان کی جیپ ایک پکی سڑک پر باغیوں کی جانب سے بنائے گئے گڑھے میں گر گئی اور اسی کے ساتھ گولیاں چلنی شروع ہوگئیں۔ میجر شعیب زد میں آچکے تھے، وہ شدید زخمی ہوکر شہید ہوگئے۔ 65 سپاہیوں میں سے صرف 9 سپاہی زندہ بچ کر نکلے، مگر ان میں سے کچھ راستے میں باغیوں کے ہاتھ لگ گئے جنہیں مقامی دیہاتیوں نے ذلیل و رسوا کیا، ننگا کرنے کے بعد بازاروں میں گھمایا اور طرح طرح کی اذیتیں دے کر شہید کردیا۔ اس طرح پورے 150 سپاہیوں پر مشتمل پلاٹون وطن کے تحفظ کے نام پر شہید ہوکر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئی۔
حوالہ جات: Witness to surrender ۔ میں نے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا – صدیق سالک شہید
(جاری ہے)

حصہ