افسانہ مہر
ہم پھولے نہ سمائے یہ سن کر کہ شعبہ نشر و اشاعت ضلع وسطی اپنے تمام انعام یافتہ رائٹرز اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے اعزاز میں ایک نشست رکھ رہا ہے۔ ہم نے ساری مصروفیت ایک طرف رکھی اور ’’میں اور میرا قلم‘‘ کے نام سے رکھی جانے والی تقریب میں شرکت کے لیے جماعت اسلامی کے ضلعی دفتر جا پہنچے۔ ہال میں قدم رکھتے ہی یہ احساس دوچند ہوگیا۔ پورا ہال گلاب اور چنبیلی کی خوشبو سے مہک رہا تھا، لیکن جس خوشبو کو ہم نے شدت سے محسوس کیا وہ قلم کاروں کی قلمی خوشبو تھی جو ہر سُو پھیلی ہوئی تھی۔ شگفتہ چہرے پھلواریوں کا منظر ہی تو تھے۔ سنا تھا جب انسان اپنے اندر کے ماحول سے مشابہ ماحول میں جاتا ہے تو اس پر ایک شادمانی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ایسے احساس کبھی کبھی جاگتے ہیں، ایسا ہی ایک احساس لیے ہم خوش خوش اسٹیج سے برابر والی سیٹ پر جا بیٹھے اور ہال کا جائزہ لینے لگے۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز کرنے کے لیے ماہ پارہ نے مائیک سنبھالا اور تمام شرکائے محفل کو خوش آمدید کہا اور تلاوت کے لیے صائمہ عبدالواحد کو بلایا۔ سورہ مائدہ کی پُراثر تلاوت اور ترجمہ کے بعد نائب نگراں نشرواشاعت کراچی محترمہ ثمرین احمد نے بہترین انداز میں حاضرین سے تذکیری گفتگو کی اور کہا کہ آج مائوں اور خاص طور پر ان خواتین کی ذمے داری دوگنی ہوگئی ہے جو سوچنے، بولنے اور لکھنے کی خداداد صلاحیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ آج معاشرے کی بے ترتیبیوں کو ترتیب میں لانے کے لیے وہی کھڑا رہ سکتا ہے جس میں صفتِ ابراہیمیؑ ہو۔ اس لیے اپنے اندر کی تڑپ کو ضرور منتقل کیجیے۔ جہالت کے ان اندھیروں میں اچھی تحریر چراغ کا کام کرتی ہے، اور ایک چراغ سب اندھیرے نگل سکتا ہے۔ آج پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہرطرف شر ہی شر ہے، بہت سے لکھنے والے پیشہ ور ہوگئے ہیں اور وہ لکھ رہے ہیں جو ہماری تہذیب سے متصادم ہے۔ یہ اُن کی مجبوری ہے، لیکن اسلامی شعور پھیلانے کے لیے ’حریم ادب‘ نے ہمیشہ ستھرا اور معیاری ادب و شاعری فراہم کی ہے۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ہر موضوع، ہر مسئلے اور ہر معاشرتی پہلو کی عکاسی اور اس کا حل وہی پیش کریں جو اللہ تبارک تعالیٰ نے ہمیں اپنی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے بتایا ہے۔ آج کے تیز رفتار دور میں ہمیں پیچھے نہیں چلنا بلکہ صحابہ کرامؓ کی طرح آگے بڑھ کر لیڈنگ پوزیشن سنبھالنی ہے۔
ماہ پارہ ہما نے ثمرین کا شکریہ ادا کیا اور مقابلہ مضمون نویسی اور کہانی کے انعام یافتگان سے ملاقات کے اگلے پروگرام کے لیے حریم ادب ضلع وسطی کی صدر محترمہ توقیر عائشہ کو مدعو کیا۔ گفتگو کی ابتدا حریم ادب کے سلوگن سے کی گئی، سب نے یہ سلوگن دہرایا:
’’ادب برائے زندگی
زندگی برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی‘‘
ادب زندگی سے عبارت ہے اور زندگی بندگی سے ہی مزین رہ سکتی ہے، اس لیے ہم ایسا ادب معاشرے میں منتقل کرنا چاہتے ہیں جس میں اخلاق کا حسن، جذبات کی گرمی اور محبت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ گزشتہ برسوں کی طرح اِس سال بھی حریم ادب کے تحت ساتواں رائٹر کنونشن مقابلۂ مضمون نویسی اور جسارت صفحہ خواتین نے مقابلہ کہانی/افسانہ کروائے، جن میں مضمون نویسی میں اوّل انعام اسما صدیقہ صاحبہ نے، اور دوسرا انعام صائمہ عبدالواحد نے حاصل کیا، جبکہ کہانی میں دوسرا انعام نادیہ سیف نے لیا۔ جسارت صفحہ خواتین کے انعام یافتگان میں عظمیٰ ابونصر، حریم شفیق، ذکیہ فرحت، صبا احمد، عطیہ جمال اور عروبہ عثمانی شامل ہیں۔ نئے لکھنے والوں کو اسما صدیقہ نے پیغام دیا کہ مطالعہ وسیع کریں۔ اپنے رائٹرز کو پڑھیں اور ڈائری ضرور لکھیں،کیوں کہ اپنی ڈائری لکھنے سے روانی اور قلم پہ گرفت آتی ہے۔ دوسرا انعام پانے والی محترمہ صائمہ عبدالواحد نے کہا کہ 16 دسمبر کے اسکول حادثے نے میرے قلم کو اُٹھایا۔ مطالعہ کے شوق سے الفاظ و جذبات کے رنگ جمانا سیکھا اور حریم ادب نے فورم عطا کیا تو یہاں تک کا سفر طے ہوا۔ قلم کار نادیہ سیف نجی مصروفیات کے باعث موجود نہ تھیں۔
بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول محترمہ عظمیٰ ابونصر نے انعام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے نئے لوگوں کو پیغام دیا کہ آج بچوں کا ادب بہت کم ہے، اس میدان میں آئیں، ایسا لکھیں جو بچوں کو مزا بھی فراہم کرے اور تربیت بھی کرے، کیوں کہ یہ نسل ہی ہمارا مستقبل ہے۔
عروبہ عثمانی طالبہ ہیں اور تعلیمی مصروفیت کے باعث شرکت نہ کرسکیں۔ ان کا انعام ان کی والدہ نے وصول کیا۔ صبا احمد اور محترمہ ذکیہ فرحت نے حریم ادب کی سرگرمیوں کو بہت سراہا اور لکھاریوں کو پلیٹ فارم فراہم کرنے پر شعبہ نشر و اشاعت کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ محترمہ عطیہ جمال نے کہا کہ آج کا بڑا تقاضا یہ ہے کہ اپنی تحریروں میں معاشرتی مسائل کے ساتھ ان کا حل بھی پیش کیا جائے۔ مہمان رائٹرز میں صاحبِ کتاب محترمہ فوزیہ خلیل بھی شامل تھیں، جنھوں نے بچوں کے ادب پر بہت کچھ لکھا۔ دیگر مہمانوں میں فائزہ نجیب، نسرین لئیق، ماریہ مسعود کی شمولیت نے اس نشست کو رونق بخشی۔
اس کے بعد سوشل میڈیا پر ایکٹو رہنے اور اعلان کلمۃ اللہ کرنے والی خواتین کو شعبہ نشر و اشاعت ضلع وسطی کی طرف سے اسناد تقسیم کی گئیں، جن میں سعدیہ رضوی، زرین آصف، طلعت نفیس، سائرہ نعیم، ایمن وارثی، فاطمہ کمال، حریم شفیق، ثروت عاطف، نویلا صدیقی اور ماریہ مسعود شامل تھیں۔ ہمیں فخر محسوس ہوا اُن نوجوان خواتین پر، جو سیاسی اور تہذیبی کشمکش کے اس محاذ پر حق پر جمی ہوئی ہیں۔ یا اللہ تُو ان نوجوان ہاتھوں کی کوششوں کو بہترین اجر سے نوازنا، آمین۔
آخر میں نگران ضلع وسطی محترمہ زرینہ انصاری نے تمام حاضرینِ محفل کا شکریہ ادا کیا اور دعاکرائی گئی جس میں اللہ سے اپنی نافرمانیوں اور کوتاہیوں سے عفو ودرگزر کی درخواست کی گئی، ایمان پر خاتمے کی التجا کی گئی۔ اس وقت دل میں خیال آیا کہ جن نشستوں کا آغاز اور اختتام اللہ کے نام پر ہو تو کیسے ممکن ہے کہ پھر اللہ ایسے لوگوں اور ایسی تقاریب کو شرفِ قبولیت نہ بخشے؟ ایسی عاجزی کو حوصلہ نہ دے؟ ایسے کام کو پایٔہ تکمیل تک نہ پہنچائے جس کا آغاز و اختتام اور مقصد صرف اللہ کی سربلندی ہو۔