چین پاکستان اقتصادی راہداری، اہلِ قلم کی نظر میں

763

رشید بٹ
’’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘‘ کا سرکاری نام تو یہی رکھا گیا لیکن گزرتے وقت اور شہرت ِ عمومی کے ساتھ ساتھ یہ محض ’’سی پیک‘‘ ہو کے رہ گیا۔ بظاہر ’’سی پیک‘‘ کا کوئی مطلب دکھائی نہیں دیتا، تاہم اختصار نہ برتیں تو یہ ’’چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری‘‘ بنتا ہے۔ ہم ماضی یعنی یہی کوئی دو ہزار برس پیچھے چلے جائیں تو ہمیں چین کی اُس وقت کی سرحدوں سے آگے تُرکستان کی لق و دق صحرائی سڑکیں، راستے اور نخلستان مِلتے ہیں جنہیں اُس دور میں شاہراہِ ریشم کہا جاتا تھا۔ یہ راستے بر ِ صغیر سے ہوتے ہوئے یورپ تک چلے جاتے تھے۔ چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی کے بعد یہ شاہراہیں، نخلستان اور صحرائی راستے بہت آباد رہے کہ اُن ہی راستوں سے چینی ریشم اور چینی برتنوں کی برآمد یورپ کے لیے روز افزوں تھی۔ پھر جیسا کہ ہر عروج کو زوال کا سامنا بھی ہوتا ہے، یہ خطہ بتدریج بنجر اور بے آباد ہوتا چلا گیا۔ اِس کا ایک سبب غالباً یہ بھی تھا کہ برِ صغیر سے ممتاز چینی سیاح شیوان چانگ جسے عرفِ عام میں ’’ہیون سانگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، گوتم بودھ کے صحیفے لے کر اِن ہی راستوں سے چین گیا اور بودھ بھکشوئوں کا الٹی گنتی نما سفر شروع ہوگیا۔ آج بھی آپ ان راہوں اور ساتھ ساتھ کھڑی چٹانوں سے گزریں تو، اُن چٹانوں پر گوتم بودھ اور اُن کے بھکشوئوں کے مجسمے تَرشے ہوئے مِلتے ہیں۔ اُس زمانے کے لوگ جانے کون سے رنگ استعمال کرتے تھے کہ ہزاروں برس بیتنے کے باوجود وہ رنگ تر و تازہ دکھائی دیتے ہیں۔
اُس دور کی تاریخ اور جغرافیے پر نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ اُن صحرائی راستوں پر متعدد نخلستانوں میں چھوٹی بڑی کئی ایسی ریاستیں، مملکتیں اور شہری ریاستیں قائم تھیں جن کا آج نشان تک نہیں مِلتا اور اگر کہیں مِلتا بھی ہے تو بعد ازاں وجود میں آنے والے ملکوں کے چھوٹے بڑے قصبوں کی صورت میں۔ مثلاً افغانستان کا قصبہ یا شہر بلخ اُس زمانے میں ترکستان کی ایک ریاست تھی اور افغانستان کا تب،بحیثیت ملک، وجود تک نہ تھا۔ اِسی طرح نیاّ اورخُتن کی مملکتیں تھیں۔ دلچسپ صورت جانئے کہ اُس دور میں یورپ کے خطہ ٔ یونان میں بھی شہری ریاستیں وجود رکھتی تھیں۔ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں جب چینی شہنشاہیت خاصی کمزور تھی اِس خطے میں جو اُس وقت چینی ترکستان یا شین چیانگ (سنکیانگ یا چین کی نئی سرحد) کہلاتا تھا، صحرائی طوفانوں اور بگولوں کی زد میں آکر کئی شہر، ریاستیں، مملکتیں اور قصبے ٹیلوں کی صورت اختیار کرگئے۔ اُن کے اچھے دنوں میں جو علاقے سرسبز و شاداب تھے، اُن میں بنی ہوئی یا آویزاں خوبصورت دیوار گیر تصویریں اور مجسمے آثارِ قدیمہ اور کھنڈرات کی صورت اختیار کر گئے۔ یہی دور ہے جب زار شاہی روس، برطانوی ہند اور چین، وسط ایشیا کے خطے میں اپنے اپنے سیاسی اور فوجی اثرات مستحکم کرنے کے لیے ’’گریٹ گیم‘‘ کا کھیل ، کھیل رہے تھے۔ ’’گریٹ گیم‘‘ کا مطلب ہی یہی تھا کہ ان علاقوں کو اپنے زیر ِ اثر لایا جائے اور صحرائوں تلے دبے خزینوں سے استفادہ کیا جائے۔
اُس دور یعنی بیسویں صدی عیسوی کے اوائل (1908ء کے بعد کا دور) میں یورپ کے چار پانچ ماہرین ِ آثارِ قدیمہ ،سیون ہیڈن، سر آرل اسٹین، البرٹ وان لی کاک اور پروفیسر لینگ ڈون وارنر نے اِس خطے کے صحرائوں میں دفن آثارِ قدیمہ کی کھدائی میں جو لوٹ مار کی تو چینی، جو اُس وقت ایک کمزور طاقت تھے، اپنے اُن آثارِ قدیمہ کی حفاظت نہ کرسکے اور برٹش میوزیم اُن نایاب اشیا کا ٹھکانا بنا۔ چینی ماہرین ِ آثارِ قدیمہ اور موّرخ طاقت آزمائی کر نہ سکے۔ اُن یورپی ماہرینِ آثارِ قدیمہ کو یورپ میں نائٹ اور سر کے خطابات سے نوازا گیا تو چینیوں نے اپنی کتابوں اور تحقیقی رپورٹوں میں انہیں ’’چوروں اور لٹیروں‘‘کا درجہ دیا۔
وقت بیتتا چلا گیا۔ چین داخلی کمزوریوں، یورپی اور امریکی نو آبادیاتی دور اور جنگی سرداروں کے ادوار سے گزرتا ہوا بالآخر اکتوبر 1949ء میں ایک آزاد اور خود مختار چین کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ لیکن یہاں سے چین کے ایک نئے دور، آزادی اور طاقت آزمائی کے سلسلے کابھی آغاز ہوتا ہے۔ چین نے 1780ء کے بعد سے افیون کے خلاف جنگ سے جس فوجی دور کا آغاز کیا تھا، اُس میں جنگ و جدل کے ساتھ ساتھ حکمرانی کے ایک نئے انداز کا تجربہ بھی حاصل کیا۔ لگ بھگ 170 برس پر پھیلے اِس زمانے میں اُس کے فوجی، نیم فوجی اور سویلین سیاحوں کا کردار بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ سری لنکا، وسط ایشیا، برِ صغیر ہندو پاک، تبت، افریقی ممالک میں غلامی سے حصولِ آزادی تک کی جدوجہد، کوریا، بے اَنت رقبے کے حامِل سائبیریا کے جنگی، پیداواری، سیاسی، سیاحتی، بحری، برّی، سماجی حالات، غرض ہر پہلو سے اپنے مفادات کے حامِل تقاضوں کا خاموش جائزہ لیتے رہے۔
اور جب اکتوبر 1949ء میں چینیوں نے آزادی کی بھرپور انگڑائی لی تو اُن کے سامنے نئے نئے سلسلہ ہائے تصوّرات تھے۔ وہ اندرونِ خانہ اُن ہی راستوں پر چلنے کے خواہاں تھے جن پر چل کر اُن سے پہلے کے نوآبادیات پسند اُن تک پہنچے تھے۔ اِسے آپ بیسویں صدی عیسوی کے اواخر اور اکیسویں صدی عیسوی کے اوائل کا ’’گریٹ گیم‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ فرق صرف یہ کہ وہ ’’گریٹ گیم‘‘ وسط ایشیا تک محدود تھا لیکن یہ ’’گریٹ گیم‘‘ شاید لا محدود ہو!چین نے اِس ’’گریٹ گیم‘‘ یا ’’چین پاکستان اقتصادی راہداری‘‘ پر کام کا آغاز 1950ء کے عشرے ہی میں کردیا تھا لیکن ریاستی اور داخلی کمزوریوں، جلد از جلد ترقی یافتہ بننے کے نتیجے میں قحط سالی اور پھر ثقافتی انقلاب کے حوالے سے کام کو آگے نہ بڑھا سکا۔ اور اِس کا آغاز دیکھا جائے تو 2013ء میں ہوتا ہے جب پاکستان میں صدارت زرداری صاحب کے ہاتھ میں تھی۔
اگر ہم دنیا کے برّی اور بحری نقشے پر نگاہ ڈالیں تو اِس امر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ چین نے افریقی ملک جبوتی میں اپنا بھرپور فعال فوجی بحری اڈا قائم کرلیا ہے جس کے مقابل فرانس اور روس کے بحری اڈے بھی ہیں۔ روس پہلے زار شاہی روس تھا، پھر سوویت یونین بن کر وسط ایشیا کی سرزمین کو اپنی لپیٹ میں لیا اور اب پھر روسی فیڈریشن کا روپ دھار چکا ہے۔ ہم اِس تفصیل میں نہیں جائیں گے کہ اُس کے سوویت یونین سے روسی فیڈریشن بننے میں افغانستان، پاکستان اور امریکا نے کیا کردار ادا کیا۔ اِس سے پہلے ہمیں تاریخ اور جغرافیائی کیفیت دو سو برس تک اس کیفیت میں گھماتی پھراتی ہے کہ روس کی صدیوں پر محیط یہ خواہش پوری نہ ہوسکی کہ وہ ایسی بحری بندرگاہوں تک پہنچ جائے جو سارا سال کھلی رہیں۔ روس نقشے کی رو سے ایک ایسا خطہ ہے جہاں سال کے بیشتر حصے میں برف زار بندرگاہیں سپر بحری قوت ہونے کے باوجود اُس کے لیے غیر مفید رہتی ہیں۔ مَیں نے جو دو سو برس کا ذِکر کیا، وہ جنگ و جدال سے بھرپور تھا کہ کسی طرح روس اُن بندرگاہوں تک رسائی حاصل کرلے جو سال بھر کھلی رہتی ہیں۔ یہ گرم پانیوں کی بندرگاہیں کہلاتی ہیں، جسے بلوچستان کی بندرگاہ گوادر مگر روس کی ان دو سو سالہ جنگی کوششوں کو سلطنت ِ عثمانیہ کی بحری قوت نے ناکام بنائے رکھا۔ اِس میں سلطنت ِ عثمانیہ کے امیر البحر خیر الدین بار بروساپاشا کا ہاتھ تھا،جس نے روز کی بحری قوتوں کو تگنی کا ناچ نچائے رکھا۔ اور اب جو موقع آیا، چین پاکستان کے راستے بلوچستان سے ہوتا ہوا گوادر پہنچا تو روس کو اپنا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا نظر آنے لگا۔ اُس نے پاکستان سے اپنے سفارتی تعلقات کو ایک نئی نہج پر ڈالا اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کا فعال حصہ بننے کی خواہش ظاہر کردی اور پاکستان اور چین نے اِس خواہش کو تسلیم بھی کرلیا۔
اُدھر برطانیہ بھی اِس راہداری میں حصہ داری میں دلچسپی رکھنے والا ایک اہم ملک بنتا جارہا ہے۔ ہر آن بدلتے جغرافیائی حالات میں اِس سارے خطے کے چھوٹے بڑے ممالک چین کے پروں تلے چلے آرہے ہیں۔ کیا یہ چین کے جدید نو آبادیاتی نظام ہی کی ایک شکل ہے؟ وہ کولمبو کے قریب سری لنکا کے ایک بے آباد علاقے کو 99 برس کی لیز پر لے کر وہاں ایک جدید شہر کی تعمیر میں بھی مصروف ہے جہاں شاید سری لنکن آبادی کا داخلہ ’’ممنوع‘‘ ہوگا۔ اور ’’ممنوع‘‘ نہ بھی ہوا تو صرف اہل ِ مال و زر یا چینیوں کے کارندے ہی آجاسکیں گے۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ علاقہ بحرِ ہند کے بے کراں پانیوں پر چینی بحری تسلط کا ایک مہم جزو بن کے رہ جائے گا جہاں کوئی اور بحری طاقت پَر نہیں مار سکے گی۔
پاکستان سے ملحق چینی علاقہ سنکیانگ نسلی اور مذہبی اعتبار سے چینیوں سے بالکل الگ تھلگ یک نسلی آبادی ہے۔ اِس یک نسلی مسلمان آبادی کی حدیں دوسری جانب روسی تُرکستان سے بھی جا مِلتی ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ سو برس پہلے جب چینی شاہی حکومت کمزور تھی تو اِس علاقے کے مسلمانوں نے چینی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرکے ایک وسیع رقبے پر ’’کاشغریہ‘‘ کے نام سے ایک خود مختار ریاست بھی قائم کرلی تھی جس کے حکمران کا نام یعقوب بے یا یعقوب بیگ تھا۔ اِس خود مختار ریاست ’’کاشغریہ‘‘ نے چینی فوجوں کو لڑائی کے دوران بے تحاشا نقصان پہنچایا۔ چینیوں نے غیر مسلم منگول فوج کو ’’کاشغریہ‘‘ بھیج کر اِس بغاوت کو کچلا اور وہاں چینی حکمرانی دوبارہ قائم کی۔ لیکن تب سے یا اُس سے بھی پہلے سے چینی قوم جو نسلاً ’’ہان‘‘ کہلاتی ہے، اِس مسلمان آبادی پر بھروسا نہیں کرتی۔ یہ میرے ذاتی تجربات ہیں کہ مَیں چین میں لگ بھگ سولہ (16) برس رہا ہوں۔ اُدھر حالیہ برسوں میں اِس پورے خطے سنکیانگ اور اس سے ملحق پاکستانی علاقے، جنہیں شمالی علاقہ جات کا نام دیا جاتا ہے اور افغانستان کی کٹر، بنیاد پرست مسلمان آبادی میں بنیاد پرستی کچھ زیادہ ہی بڑھ رہی ہے۔ اِس صورتِ حال میں تینوں اطراف سے لوگ کیا کریں گے؟ اُن کا روّیہ کیا ہوگا؟ کس حد تک قتل و غارت ہوگی؟ سنکیانگ چلے جائیں تو پورا خِطّہ پولیس اسٹیٹ کا منظر پیش کرتا ہے۔

حصہ